گزشتہ صدی کے نصف اوّل ، ۔۔۔ آج سے 92 برس قبل ، اسی موسم اور اسی مہینے، یعنی، 29 ستمبر1929ء کو ، زوری منس تحصیل بانڈی پورہ۔۔۔ نہر زینہ گیرکی کھدائی کرنے والے ایک مزدور سیّد پیر شاہ گیلانی کے گھاس پھوس کے جھونپٹرے میں، ایک بچہ پیدا ہوا، جو درماندہ اور پثر مردہ کشمیریوں کے لیے ، جرأت ، ہمت اورعزم و استقامت کا ا ستعارہ ثابت ہوا،یہ محض اتفاق تھا یا کسی روحانی اور نسبی تعلق کا فیضان، کہ آپ کے والد نے آپ کا نام سیّد علی گیلانی رکھا، تاریخ انسانی اور بالخصوص مسلم ہسٹری میں " علی" کو قوت، جہاداور تصادم کے اعلیٰ ترین استعا روں کے طور پر ہمیشہ نمایاں اور معتبر مانا گیا ہے ، جس کی تفصیل و تشریح علامہ اقبال کے کلا م میں جابجا میسر ہے ، جس کے لیے بطور خاص" اسرارخودی" کا مطالعہ سود مند ہوگا،جہاں انہوں نے سیّدنا علی المرتضیٰؓ، سیّد علی الہجویریؒ اور سیّدبو علی قلندرؒ جیسی شخصیات کے تذکروں کے ضمن میں ایسے عنوان آراستہ کئے ہیں۔ سیّد علی گیلانی نے آزادی کشمیر کے لیے جو آراستہ اختیار کیا وہ در اصل انہیں مشاہیرِ اُ مت کے تتبع اور پیروی میں تھا ، جیسا کہ علامہ اقبال نے " اسرارِ خودی" ہی کی ایک حکایت ، جس کا بنیادی موضوع جُہدِمسلسل ، جرأت اور سخت کوشی کی وہ تعلیم ہے، جو علم و عمل اور عزم و ہمت کی راہ کے بنیادی لوازمات اور تصورات سے آراستہ ہے۔ حضرت اقبال لکھتے ہیں کہ وسط ایشیا کے شہر" مَرو " سے ، ایک نوجوان، لاہور میں میں حضرت علی بن عثمان المعروف حضرت داتا گنج بخشؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی " میں دشمنوں کی صفوں میں محصور ہوں اور ہر طرف سے خطرات کے تیروں کی زَد میں ہوں ، آپ مجھے دشمنوںاورحاسدوں میں رہ کر،زندگی بسر کرنے کا کوئی طریقہ بتائیں،اس پر، حضرت ہجویری نے آزادی و حریت اور عزم استقامت کے جو اصول اس نوجوان کو عطا کیے، ان کو اقبال نے طویل اشعار میں بیان کیا ہے ، آپؒ نے فرمایا؛۔ راست می گوئم عدو ہم یار تست ہستی اُو رونق بازار تست یعنی"تیرا دشمن ہی تیرا دوست ہے ، اسی کے وجود سے تیری زندگی کی رونقیں ہیں۔جو شخص اپنی ذات کا شعور رکھتا ہے وہ دشمن کی طاقت کو اپنے حق میں خدا کا فضل تصور کرتا ہے کہ اسی سے اس کی خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔اگر انسان کی ہمت قوی ہو، تو راستے کے پتھربھی پانی ہو جاتے، اور سمندر ا س کے تابع فرمان، پہاڑ اس کے سامنے سجدہ ریز، زمین اس کی ٹھوکر سے رائی ، آسمانی بجلیاں اُ س کے اشاروں پہ رقص کناں، ماہ ومشتری اسکے زیر دام اور جملہ توانیاں اس کی مُٹھی میں بند ہو جاتی ہیں" آپؒ فرماتے ہیں کہ سیلاب راستے کی پستی اور بلندی کو کیا سمجھتا ہے ، اگر تمہاری ہستی مستحکم نہیں، تو تمہاری زندگی کا کیا فائدہ ، اگر تم اپنی ذات کے شعور سے محکم ہو جائو تو سارے جہاں کو تہہ و بالا کر سکتے ہو۔حضرت ہجویری کا یہ حیات آفریںفلسفہ،جس کو اقبال نے اپنے پیغام اور فکر کی بنیاد بنایا، ہی ، دراصل سیّد علی گیلانی کی جدو جہد کی اصل و اساس اور روحِ رواںتھا ۔ اور یقینا جب سیّد علی گیلانی کے والدنے اپنے اس نوخیز کا نام رکھا ہوگا ، تو ایسی ہی نسبتوں کا ورود، ان کے قلب و نظر کو منور کیے ہوئے ہوگا۔وہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی اور بطور خاص الحاق پاکستان کے حق میں اُ ٹھنے والی آواز کے مضبوط ترین مویّدُو مبلغ تھے ، جس کے لیے انہوں نے ہمیشہ اپنی زندگی دائوپہ لگائے رکھی، لیکن بھارت کے ظلم واستبداد اور جبر وظلم کو انہوں نے کبھی بھی اور کسی طور پر بھی تسلیم نہ کیا،جیساکہ1947ء میں۔۔۔ جب ہندوستان کے باشندوں کو آزادی کا پیغام عطا ہوا۔ ہندوستان اور پاکستان۔۔۔ آزاد حیثیت سے دنیا کے نقشے پر اُبھرے۔۔۔لیکن یہ لمحے ریاست جموں و کشمیر کے لیے سفاک اور تاریک تر ثابت ہوئے ، ہر چند کہ شیخ عبد اللہ اور اس کے قوم پرست مصاحبین۔۔۔ لوگوں کو یقین دلاتے رہے کہ ان کے گلے میں جوپھندہ ڈالا رہا ہے ، وہ غلامی کا طوق نہیں، آزادی کا تمغہ ہے ۔ لیکن سیّد علی گیلانی، شیخ عبد اللہ کی اس منطق کو قبول کرنے کے لیے کسی طور پر تیار نہ ہو سکے ، ان کا نقطہ نظر یہی تھا اور ان کی سوچ اسی نقطے کے گرد گھومتی رہی کہ کیا 1931ء کے شہیدوں نے قربانی اس لیے دی تھی کہ ڈوگرہ استعمار کی جگہ برہمن سامراج ،کشمیر کو اپنی ظالمانہ گرفت میں لے لے ، کیا یہ ساری قربانیاں، بھارتی فوجوں کی سنگینوں کے سائے میں شیخ عبد اللہ کو کشمیر کا حکمران بنانے کے لیے دی گئیں ۔۔۔؟اور یوں، وہ شیخ عبد اللہ اور ہر ی سنگھ کی ملی بھگت سے، کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کو کسی صورت قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اپنی قوم کو بہر طور ، آزادی کی منزل سے آشنا کرنے کے لیے پُر عزم اور سرگرم رہے ۔ وہ سو چتے رہے کہ کیا کشمیر اب دوسرااندلس بنے گا۔۔۔؟ کیا اب یہاں سپین کی تاریخ دھرائی جائے گی ۔ کیا بخارا اور سمر قند کی طرح یہاں سے بھی اسلام اور مسلمانوں کوبدترین پابندیوں کا سامنا ہوگا۔ مستقبل کے پردوں میں چھپے ہوئے ان مہیب خطرات کی آہٹیں، سیّد علی گیلانی کے اندر کی دنیا کو زیرو زبر کیے ہوئے تھیں، اور وہ اس امر پر فکر مند تھے کہ ان خطرات کا مقابلہ کس کو کرنا ہے ۔۔۔لڑکپن اور جوانی کے سنگم میں کھڑے سیّد علی گیلانی کے لیے یہ اضطراب انگیز سوال چیلنج، بن کر سامنے کھڑا تھا ۔ اس راستے میں وطن کے وہ مجاہدین، جو ان کے دست و بازو بن کر ،اس طوفان کے آگے بند باندھنے کے لیے بروئے کار آسکتے تھے ۔ وہ آہستہ آہستہ نقل مکانی پر مجبور ہو چکے تھے ۔ ان مایوس کن حالات میں سیّد علی گیلانی نے قوم کی قیادت کا فریضہ ا پنے سر لیا جو دراصل شہادتِ گہہ الفت میں قدم رکھنے کے مترادف تھا ۔ سیّد علی گیلانی" کشمیر قافلہ آزادی" کے حُدی خواں، شعلہ نوا خطیب اور ایسے دور اندیش سیاستدان تھے، جنہوں نے 1949ء میں عملی زندگی میں قدم رکھا، 12سال تک وادی کے مختلف اسکولوں میں خدمات سر انجام دیں، پہلی بار 28 اگست1962ء میں پابند سلاسل ہوئے اور پھر کم و بیش 14 سال سے زائد بھارتی سامراج کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں، مختلف جیلوں میں قید و بند کی صعوبتوں کی نذرہوئے ، 1972،1977،1982 کے الیکشن میں ، اسمبلی کے حلقے سو پور سے منتخب ہوئے ۔ 07 اگست2005ء کو تحریک حریت قائم کی اور اس کے مسلسل چیئرمین رہے ۔ رابطہ عالمِ اسلامی کے ممبر، تیس سے زائد کتابوں کے مصنف، جن میںروداد قفس، قصہ درد،صدائے درد، مقتل سے واپسی، دیدو شنید اور فکراقبال پر شا ہکار کتاب، روح دین کا شنا سا اوّل و دوم، پیا م آخریں، نوائے حریت، بھارت کے ا استعماری حربے ، عیدین، سفر محمود، ذکر مظلوم، ملت مظلوم، تو باقی نہیںWhat should be done، پسِ چہ باید کرد،، اقبال اپنے پیغام کی روشنی میں، ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا ، ہجرت اور شہادت، تحریک حریت کے تین اہداف، معراج کا پیغام، نوجوانان ملت کے نام ، دستورتحریک حریت اور ولّر کنارے اوّل دوم وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ آپ مختلف جسمانی عوارض میں مبتلا رہے ۔ باطل قوت نے آپ کو راستے سے ہٹانے کے لیے ایک درجن سے زیادہ قاتلانہ حملے کیے، مگر کامیابی نہ ہوئی ۔ آپ طویل علالت کے بعد، گزشتہ روزانتقال کر گئے۔ آسماں ان کی لحد پہ شبنم افشانی کرے۔