مکرمی !مہنگائی کی چکی میں پسی عوام کے نام پر سکیموں کااعلان ہوتا ہے تو دل بوجھل ہو جاتا ہے اور آنکھیں نم ہوجاتی ہیں، ہمیں مرغیوں اور انڈوں سے نچلے طبقے کو اٹھانے کیلئے مضحکہ خیزمنصوبوں سے لولی پاپ دینے کی شروعات ہوئی اور کٹے پالنے کے لیے سپورٹ کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی گئی،مجھ جیسا بندہ جو نہ تو مرغیاں پال سکتاہے اور کٹے لینے کا بجٹ ہی نہیں تو میرے جیسے بندے کو ان سکیموں سے کیا فائدہ ہونا تھا؟ جنہیں فائدے کی نوید سنائی گئی تھی ان کی مرغیاں بھی نجانے بلیاں کھاگئی ہیں یا پھر وہ رانی کھیت کی گولیاں کھاتے کھاتے علیل ہو کر کسی کھیت میں مر کر گل سڑ چکی ہوں،یعنی ان مرغیوں کا وجود نظرآرہاہے،نہ موجودہیںپھر بیروزگاروں کو سبزباغ دکھاکر ٹرک کی بتی پیچھے لگا دیا گیاجسے آج تک نہیں دیکھا، ٹرک بھی شاید کسی سڑک کنارے پنکچرہوکر کھڑا ہو اور ممکن ہے ڈرائیور بھی فرارہوچکاہو۔ہاؤسنگ سیکٹرمیں انقلابی باتیں کی گئیں مگر انقلاب تو کہیں نظرنہیں آیا، البتہ انویسٹرزتوانویسٹرزرہے،پراپرٹی ڈیلر تک ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر اچھے دنوں کے منتظر ہیں، کیاکریں خبر یہ ہے کہ،حکومت کی جانب سے چھوٹے گھروں کیلئے رعایتی قرض اسکیم کا اعلان کر دیا گیا۔ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ سکیم کے تحت 27 ،30 اور 50 لاکھ روپے کے قرض سے لاکھوں گھروں کی تعمیر ممکن ہونے کے ساتھ معیشت میں تیزی آنیکا بھی امکان ہے۔پاکستان میں گھروں کے لیے قرض کا حصول مشکل اور پھر ماہانہ اقساط بھرنا بھی ایک مشکل کام رہا ہے اس لیے اسکیم کا اعلان تو ہوگیا ہے لیکن کم آمدن طبقہ اب بھی خدشات میں گِھرا ہے کہ بینک قرضہ دیں گے یا نہیں۔دوسری جانب اسٹیٹ بینک کی حکمت عملی کے باعث بینکوں کو قرض دینے میں اچھا منافع ملتا دکھائی دے رہا ہے۔ایک اندازے کے مطابق 20 سے 30 ہزار روپے کے قریب ماہانہ اقساط پر کم از کم چھوٹے شہروں یا مضافات میں چھوٹے گھروں کا خواب ممکن ہوسکتا ہے۔خدارا کچھ کرنا ہے تو غریب کی آمدن کو بھی مدنظررکھیں ورنہ آپ کسے بے وقوف بنانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں؟ (سید شیراز‘لاہور)