26ستمبر2022ُٰپیر کے روزعرب دنیا کی فلسطین کی حماس اورمصرکی اخوان کی اسلامی تحریکوں کے فکری راہنما عالم اسلام کے معروف اسلامی اسکالر اور فقیہ علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی داعی اجل کولبیک کہہ گئے۔علامہ یوسف القرضاوی کا وطنی تعلق مصر سے تھا لیکن گزشتہ چار دہائی سے آپ قطر میں قیام پذیر تھے ،ایک سوسے زائد معرکۃ الآراء کتابوں کے مصنف ہیں ،اکثر کتابوں کے ترجمے دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع ہوچکے ہیں۔پوری دنیامیںآپ کے معتقدین ومحبین کا ایک بڑا حلقہ ہے جو عرب ممالک سے لے کر یورپ ،امریکہ اور برصغیر تک پھیلا ہوا ہے ، آپ کو دنیا بھر میں مجتہد،مجدد اور مفکر کی حیثیت سے جاناجاتاتھا،مجموعی طور پر اس وقت عالم اسلام میں سب سے بڑے اسلامی اسکالر ،فقیہ اور عالم دین کی حیثیت آپ کو حاصل تھی۔سعودی عرب،متحدہ عرب امارات،بحرین اور مصرکی جانب سے قطر کا سفارتی بائیکاٹ کئے جانے کے بعد مذکورہ ممالک نے دہشت گردوں کی ایک فہرست جاری کی ہے جس میں 59 نمایاں شخصیات اور 12خیراتی ادارے کا نام شامل ہے ،جنہیں دہشت گرد قرار دیا گیا ہے ان میں علامہ یوسف القرضاوی کا نام سرفہرست تھا۔ علامہ یوسف القرضاوی اخوان المسلمون کے بانی امام حسن البناشہید کے عقیدت مند تھے، ان کا یہ تعلق جوانی میں بھی برقرار رہا، اخوان المسلمون کے ساتھ تعلق کی بنیاد پر انہیں پہلی بار 1949 میں جیل بھی جانا پڑا، ان کی بعض تصانیف نے مصری حکومت کو مشتعل کر دیا؛ چنانچہ ان کے قید و بند کا سلسلہ جاری رہااور تقریباً تین مرتبہ جمال عبد الناصر کی حکومت میں انہیں جیل جانا پڑا اس دوران آپ مصرکی وزارت برائے مذہبی امور میں کام کرتے رہے،1961ء میں آپ نے مصر کو الوداع کہہ کر قطر کارخ کیا جہاں مختلف یونیورسٹیوں میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اسی طرح وہ الجزائر کی یونیورسٹیوں میں مختلف ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔ 2011ء میں جب مصرمیں حسنی مبارک کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو آپ نے انیس سو اکیاسی کے بعد پہلی مرتبہ اپنے دیارمصر میں قدم رکھا اور پہلی مرتبہ عوامی سطح پر مصر میں آپ نے ایک مجمع عام سے خطاب کیا جس میں تقریباً پچیس لاکھ عوام تھے ،جمعہ کی نماز بھی آپ نے پڑھائی، حسنی مبارک کے خلاف احتجاج کا خیر مقدم کیا۔ ایک طویل عرصہ تک آپ اخوان المسلمون میں سرگرم رہے۔ اخوانی قیادت نے مختلف مناصب کی پیشکش کی لیکن انہوں نے انہیں قبول نہیں کیا، یوسف القرضاوی یورپین کونسل برائے فتاویٰ اینڈ ریسرچ اورانٹر نیشنل علماء یونین کونسل کے چیئرمین تھے، انہیں عرب دنیا میں غیر معمولی مقبولیت حاصل تھی۔وہ اسلام آن لائن ڈاٹ نٹ پر بھی لوگوں کے سوالات کے جوابات اور فتاویٰ جاری کرتے تھے ، رابطہ عالمی اسلامی اور مجمع القہ الاسلامی کے بھی آپ خصوصی رکن اور ذمہ دار تھے،جامعہ ازہر مصر کی بھی رکنیت حاصل تھی جہاں سے بعدمیں آپ کو معطل کردیاگیاتھا۔آپ عصر حاضر کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے لوگوں کی رہنمائی کرتے رہے ، انٹر نیشنل چینل الجزیرہ پر آپ کا پروگرام’’ الشریعۃ والحیاۃ ‘‘بہت مقبول تھا اور تقریباً 60 ملین سے زائد لوگ اسے دیکھتے تھے۔ یہودی ونصاریٰ کو آپ مستقل دشمن تصور کرتے تھے۔ آپ کانظریہ تھاکہ ان سے دوستی مسلمانوں کے حق میں بہتر نہیں ہے، آپ کا شروع سے یہ نظریہ رہاہے کہ مسلمان دوسروں کو مداخلت کا موقع دینے کے بجائے اپنے مسائل خود حل کریں۔ علامہ یوسف القرضاوی فلسطینیوں کے اسرائیلیوں پر حملوں کے زبردست حامی تھے اور کہا کرتے تھے کہ اسرائیلی فوجیوں کے خلاف فدائین دھماکے جائز ہیں کیونکہ اسرائیلی قابض اور غاصب ہیں ۔ 14 اپریل 2004ء کوآپ نے اسلام آن لائن پر ایک فتویٰ جاری کیا کہ تمام مسلمان امریکی اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں کیونکہ وہ ان مصنوعات کے بدلے حاصل ہونے والی رقم سے معصوم فلسطینی بچوں کے جسم چھلنی کرنے کیلئے گولیاں اور دیگر اسلحہ خریدتے ہیں ۔ اسرائیلیوں کی مصنوعات خریدنا دشمن کی وحشت و جارحیت میں مدد کرنے کے مترادف ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم دشمنوں کو کمزور کریں ۔ اگر ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے سے وہ کمزور ہوتے ہیں تو ہمیں ایسا کرنا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ دوسرا اسرائیل بن چکا ہے۔ امریکہ اسرائیل کو رقم ، اسلحہ سمیت سب کچھ فراہم کر رہا ہے تاکہ فلسطینیوں کو نیست و نابود کر دے۔ شیخ یوسف القرضاوی کا کہنا تھا کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو گرین وِچ ٹائم کے بجائے مکہ مکرمہ کے ٹائم کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ وہ عالم اسلام میں جمہوریت کے قیام کے حامی تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں سیاسی اصطلاحات کی شدید ضرورت ہے۔ شیخ قرضاوی کا کہنا تھا کہ عراق میں جانے والے سارے امریکی حملہ آور سمجھیں جائیں گے، ان کے درمیان فوجی یا سیویلین کی کوئی تفریق نہیں ، اس لئے ان کے خلاف جہاد فرض ہے تاکہ عراق سے انخلا پر مجبور ہو جائیں۔ امریکہ میں 1999ء میں سے آپ کے داخلہ پر پابندی عائد تھی ،2008ء سے برطانیہ نے بھی آپ کے جانے پر پابندی لگارکھی تھی قبل ازیں2004ء میں آپ نے برطانیہ کا دورہ کیاتھا ،اس کے علاوہ بھی مغرب کے کچھ ممالک نے آپ پر بابندی لگارکھی تھی۔ اسلام کی نشرواشاعت اور دینی علوم کی خدمت کی بنیاد پر آپ کو دسیوں اعلیٰ ترین ایوارڈ مل چکے ہیں جن میں سعودی عرب کا شاہ فیصل عالمی ایوارڈ ،دبئی انٹرنیشنل ہولی قرآن ایوارڈ ،سلطان حسن ا لبولکیہ ایوارڈ سرفہرست ہیں ۔