مستنصر حسین تارڑ نے ماجد فرید ساقی کو ایک عمدہ نسل کا آوارہ گرد قرار دیا ہے۔ ایک لکھاری کے لیے اس سے بہتر اور پرفخر تعارف اور کیا ہو سکتا ہے، جو سفر کی تھکاوٹوں اور حلاوتوں کو لفظوں کا پیراھن پہناتا ہو۔ اس کی خوب صورت تحریر کے لیے مستنصر حسین تارڑ اور محمود شام کے الفاظ کی گواہی کافی ہے۔ شام صاحب کی اس بات سے میں متفق ہوں کہ جو پاکستان ماجد فرید اپنے پڑھنے والوں کو دکھاتے ہیں وہ کہیں زیادہ حسین ہے۔ اس کی جزئیات اور زیادہ رنگین ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے صحافی اور شوق کے پیمانے پر پرکھیں تو وہ ایک سیلانی ہے۔ نگر نگر، قریہ قریہ گھومنا اس کا شوق ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ ایک عام صحافی ہو کر اس نے سیروسیاحت کا یہ شوق پال رکھا ہے۔ ایک صحافی کی جیب میں تو بچے کے لیے پیسے ہی کتنے ہوتے ہیں، اوپر سے روزگار کی بے یقینی الگ سے، لیکن یہ ماجد فرید کا کمال ہے کہ وہ بے یقینی کی اسی دھوپ چھائوں میں گھر سے نکلتا اور دور پار کے سفر اختیار کرتا ہے۔ پھر تارڑ صاحب کی بات یاد آتی ہے کہ ایک آوارہ گرد ہمیشہ ایک بے یقین شخص ہوتا ہے اگر اسے یقین آ جائے تو وہ آوارہ گرد نہیں رہتا۔ داد دینی پڑتی ہے مجھے فرید ساقی کے اس جذبے کہ وہ ایک بڑے میڈیا گروپ کے ساتھ طویل عرصہ گزارنے کے بعد ان کی نوکری بھی میڈیا ڈائون فال کی نذر ہوئی، اس کے باوجود ایسے حالات میں بھی وہ پاکستان کے گلی کوچوں، صحرائوں، سمندروں، جھیلوں، گوٹھوں، شہروں، بستیوں، پارکوں، ریسٹ ہائوسوں، ہوٹلوں سے میل ملاقات کو گھر سے نکل جاتے ہیں قریہ قریہ گھومتے ہیں۔ منظر سے پس منظر اور پیش منظر تک، حسن، خوبی اور خوب صورتی تلاش کرتے اور پھر اسی احساس کو اپنی تحریر میں سمو کر فسوں خیز بنا دیتے ہیں۔ چند دن سے یہ کتاب اٹھتے بیٹھتے میں پڑھتی رہی۔ اس کتاب کا نام ہے پاکستان ٹورز۔ اس کتاب کو کھولیں، اس کے صفحات پر جا بجا خوب صورت پاکستان کے نقش بکھرے پڑے ہیں۔ کتاب کے ٹائٹل پر مجھے ہلکا سا اعتراض ہے ’’پاکستان ٹورز‘‘ نام پڑھ کر گمان گزرتا ہے کہ یہ پاکستان کے سیاحتی مقامات کے بارے میں ایک روایتی معلوماتی کتابچہ ہو گا جس میں سوات، اور مری جانے والی بسوں کے روٹ اور کرایوں کی تفصیل درج ہو گی۔ لیکن جب آپ کتاب کھولتے ہیں اس کا پیش لفظ ہی قاری کو اپنے ساتھ باندھ لیتاہے۔ ’’یہ کتاب ایک کتاب نہیں کتھا بھی ہے۔ یہ صرف ہمیں پاکستان کے دلکش مقامات کی سیر نہیں کرواتی بلکہ وہاں بننے والے مکینوں سے بھی ملواتی ہے۔ ماجد فرید ساقی میں ایک کہانی کار بھی چھپا ہوا ہے۔ اسی لیے تو وہ صحرائوں، سمندروں، دریائوں، میدانوں، کشادہ شہروں اور تنگ و تاریک گلیوں میں بسنے والے مکینوں کے خدوخال میں کہانیاں تلاش کرتا ہے۔ ایک حساس کہانی کار ہی ماہی گیروں کے آنسو دیکھ سکتا ہے۔ جفا کش پہاڑی محنت کشوں کی پر امید ہنسی سن سکتا ہے۔ جہاں وہ مناظر کا حسن بیان کرتا ہے، وہیں وہ ان حسین مناظر میں بننے والوں کے دکھ بھی بیان کرتا ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے ایک دو باتیں جو میرے ذہن میں آئی وہ ضرور شیئر کروں گی کہ ہمارے ہاں زیادہ ترباہر کے ملکوں کے سفر نامے ہی لکھے اور پڑھے جاتے ہیں۔ ہم گھر کی مرغی کو دال سمجھنے والے لوگ ہیں۔ پاکستان کے چپے چپے جو خوبصورتی،رنگا رنگی، ثقافت اور رسم و رواج کا تنوع پھیلا ہوا، اس کی خوبصورتی کو دیکھنے اور سراہنے والی آنکھ ہم پاکستانیوں کو کم ہی نصیب ہوئی ہے لیکن جب ہم پاکستان کو ماجد فرید کے آئینہ خانہ سے دیکھتے ہیں تو یقین جانیں مسحور ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس لکھاری کی آنکھ تو راولپنڈی کی طرف جاتی موٹروے کے کناروں پر لگی جھاڑیوں میں ٹی روز کے پھولوں پر پڑتی ہے تو وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اس پر مجھے بے اختیار ورڈز ورتھ کی شہرہ آفاق نظم ڈیفوڈلز یاد آ گئی۔ آبی نرگس کے پھولوں کے ایک منظر نے جب شاعر کو مسحور کیا تو شاعر نے بھی اسے اپنے لفظوں کا پیراہن اوڑھا کر ہمیشہ کے لیے لازوال کر دیا۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی عام شخص اس منظر کو دیکھتا تو اسے وہ متاثر نہ کر سکتا لیکن جب کوئی شاعر لکھاری یا مصور کسی منظر کو دیکھتا ہے تو خالی آنکھ سے نہیں دیکھتا بلکہ اسے دل کی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ پھر وہ منظر اس کے احساس کی خوب صورتی سے منعکس ہو کر حسین تر ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی احساس اس کتاب کو پڑھتے ہوئے کئی بار ہوا حسین پہاڑی مناظر کا ذکر نہیں کر رہی۔ عام منظروں کی بات کرتے ہیں۔ کراچی انچھوڑ لائن، جوڑیا بازار، بولٹن مارکیٹ کی اندرونی گلیوں کا ذکر ہو یا پھر اندرون لاہور کی تنگ گلیوں میں سانس لیتی زندگی، دہلی گیٹ، موچی گیٹ اور بازار حسن کا تذکرہ۔ مٹھی تھر پار کرمیں بارش برسنے کا نایاب منظر ہو یا سندھ کے دریا کے جنگلات کے گھمبیر سناٹوں کی بات ہو۔ ماجد فرید ساقی کے اندر کا ورڈز ورتھ۔ ہر شبیہہ میں خوبصورتی حسن اور کشش تلاش کرتا ہے اور اسے اپنی تحریر میں سمو کر امر کر دیتا ہے۔