اک محبت ہے کہ شرمندۂ آداب نہیں اس کے پیچھے کوئی مکتب نہ ادارہ کوئی یہ محبت بھی عجیب شے ہے کہ منیر نیازی نے منفرد بات کی کہ میں جس سے پیار کرتا ہوں اسی کو مار دیتا ہوں‘بظاہر یہ بات بڑی عجیب لگتی ہے مگر محبت کا جنون ایسا ہی ہوتا ہے کہ بندہ مر جاتا ہے یا کسی کو مار سکتا ہے۔غالب نے بھی تو کہا تھا کہ اس نے بھی ایک ڈومنی کو مار رکھا ہے۔ مصیبت یہی ہے کہ اکثر سچی اور کھری محبت غیر مشروط ہی ہوتی ہے بلکہ اندھی ہوتی ہے۔ اسی لئے اکثر سوچنے والے محبت نہیں کرتے اور دوسرے بعد میں بھی نہیں سوچتے۔ محبت بھی عجب شے ہے کہ جب بازی پہ آتی ہے تو سب کچھ جیت لیتی ہے یا سب کچھ ہار دیتی ہے۔ محبت مار دیتی ہے یہ بھی غلط نہیں کہ میں محبت کو زندگی سمجھا اس محبت نے مار ڈالا مجھے۔ میں نے محبت کا اس قدر تذکرہ اس لئے کیا کہ مجھے آپ کو ایک شخص سے ملانا ہے کہ جہاں اس جذبے کا سچا عکس آپ کو نظر آئے گا کیوں نہ پہلے اس بے بہا گہر اور شفاف شاعر کے دو شعر آپ کو پڑھا دوں: میں نے کہا کہ دیکھ یہ میں یہ ہوا یہ رات اس نے کہا کہ میری پڑھائی کا وقت ہے دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن عمر بھر کون حسین کون جواں رہتا ہے آپ سب سمجھ گئے ہونگے کہ بات ہو رہی ہے احمد مشتاق کی کہ جن کے حال ہی میں کلیات بار دگر شائع ہوئے ہیں اور اس جھیل میں تیرتے کنول جیسے شاعر پر تنقیدی مضمون نوجوان ادیب مشتاق احمد نے یکجا کئے ہیں اور یہ کتاب مجھے سید ذوالفقار حسین شاہ نے عنایت کی۔ احمد مشتاق کے نام سے کون شناسا نہیں۔ یونیورسٹی دور کا نہایت دلچسپ واقعہ یاد آ رہا ہے کہ مظفر علی سید مجھے اورنٹیل کالج میں ملے تو کہنے لگے آپ میرے ساتھ چائے پئیں گے؟میں شاہ صاحب کو دیکھنے لگا ‘ حضور یہ تو آپ کی عنایت اور میرا اعزاز۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں مسکرائے اور پھر اورنٹیل کالج کی اساطیری کنٹین پر درختوں کے سائے میں بیٹھ گئے۔ خیر مظفر علی سید بیٹھتے ہی کہنے لگے۔تم شہزاد کب سے ہو گئے۔ میں نے حیرت سے پوچھا میں سمجھا نہیں۔ وہ بتانے لگے کہ ایک زمانے میں شہزاد احمد مجھے چیئرنگ کراس میں ملا۔ اس کے ساتھ ایک نوجوان تھا۔ہم باتیں کرتے کرتے ٹی ہائوس آ گئے اور وہاں آ کر پتہ چلا کہ وہ نوجوان احمد مشتاق ہے۔ پھر کہنے لگے آپ نے بھی نہیں بتایا کہ ساتھ یہ کون نوجوان ہے؟میں نے کہا شاہ صاحب آپ نے ہم دونوں کو شرمندہ کر دیا۔ یہ تو میرا مزاج ہے اور ابھی ملا ہے نام مجھے معلوم نہیں‘وہ ہنسنے لگے چائے آ گئی۔ تنقیدی مضامین کے مجموعے کا نام مرتب مشتاق احمد نے ’’آدمی ہمارا‘‘ رکھا ہے آپ کو یہ بھی وضاحت کرتا جائوں کہ احمد مشتاق کا بھی اصل نام مشتاق احمد ہی تھا اور جب انہوں نے شاعری شروع کی تو دونوں الفاظ کی ترتیب بدل دی۔ وہ ہر معاملے ہی میں مختلف ٹھہرے کہ کم گو اور کم آمیز۔ کبھی کسی ادارے کو انٹرویو نہیں دیا۔ کبھی مشاعروں میں نہیں گئے ان چکروں سے بے نیاز۔ ایک زمانے میں میرے رفیق کار اور دوست حسن کاظمی نے اپنے والد گرامی ناصر کاظمی کی ڈائری مجھے دی تو میں نے اس مثلث کے حوالے سے پڑھا کہ انتظار حسین‘ناصر کاظمی اور احمد مشتاق کی گاڑھی چھنتی تھی اور ان کے شب و روز اکٹھے گزرتے تھے۔ احمد مشتاق کے اشعار جنگل میں کھلے خود رو پھولوں کی طرح نظر آتے ہیں۔ یہ شاعری خوشبو کی طرح بادصبا کے دوش پر ہم تک پہنچی۔ کیا کیا اچھا شعر انہوں نے اپنی ترنگ میں کہا: نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں اہل ہوس تو خیر ہوس میں ہوئے ذلیل وہ بھی ہوئے خراب محبت جنہوں نے کی دل پریشان ہو گیا رنگ زوال حسن سے آگ دیکھی تو دھواں پہلے کبھی دیکھا نہ تھا یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں روشنی رہتی تھی دل میں زخم جب تک تازہ تھا اب جہاں دیوار ہے پہلے یہاں دروازہ تھا ان کی تاریخ پیدائش 1933ء امرتسر کی ہے۔ ایم اے تک تعلیم‘ بنک میں رہے۔ امریکہ چلے گئے اور اب تک وہیں ہیں۔ زیر نظر کتاب کا انتساب ڈاکٹر ضیاء الحسن کے نام ہے اور اس میں جید ناقدین کے مضامین شامل ہیں۔ شمیم حنفی دلی سے لکھتے ہیں۔اس عہد کے غزل شعراء میں مجھے احمد مشتاق سب سے زیادہ پسند ہیں۔ ان کے اشعار نے جو دنیا بنائی ہے وہ مجھے بہت مانوس نظر آتی ہے۔ وہی جینے مرنے کے دکھ‘دوری اور یگانگ کے وہی قصے جو عام انسانوں کی زندگی سے مناسبت رکھتے ہیں۔ نہ کہیں تصنع ہے اور نہ اپنے قاری کو مرعوب کرنے کی کوشش۔ احمد مشتاق شعر یوں کہتے ہیں۔ جیسے بس سانس لے رہے ہیں کسی غیر معمولی کوشش کے بغیر۔ کیسی مدھر بھری تازہ کار اور سحر انگیز شاعری ہے۔یہ ہے اصل شاعری، نوجوانوں کو اس کتاب کے مضامین اور احمد مشتاق کی شاعری سے بہت کچھ ملے گا۔ اس کتاب کا نام احمد مشتاق کے ایک خوبصورت شعر سے لیا گیا ہے اور یہ شعر ان کے آٹو گراف کی صورت ٹائٹل پر ہے: پریوں کی تلاش میں گیا تھا لوٹا نہیں آدمی ہمارا وہ تو یہاں رہتے ہوئے بھی کم کم لوگوں سے ملتے تھے‘ تقاریب سے بھاگتے تھے۔ بس اپنی دنیا میں مگن رہتے تھے‘ امریکہ جا کر تو وہ بالکل وہاں کے ہو رہے۔ایک مرتبہ آئے تو کہتے ہیں کہ پاک ٹی ہائوس بھی وہ نہیںرہا۔ وہ ویسے بھی بہت چوزی تھے۔ انکے ہاں فراق ‘یگانہ اور کچھ دوسروں کا رنگ ملتا ہے۔ مگر انہوں نے بڑی سہولت کے ساتھ اپنا راستہ نکالا اور بہت بے ساختہ نکالا۔اس افراتفری اور شور شرابے کے دور میں ایسی شاعری یقینا آپ کو سکون پہنچاتی ہے صحرا میں نخلستان اور سمندر میں جزیرے کی طرح۔ ڈاکٹر ضیاء الحسن نے ہمارے مرتب مشتاق احمد کی بھی بہت تعریف کی ہے کہ وہ ادب کے سنجیدہ قاری ہیں اور خود بھی اچھے شاعر۔مجھے یہ پڑھ کر خوشی ہوئی کہ وہ میرے ہی کالج اسلامیہ کالج سول لائنز میں اردو پڑھا رہے ہیں۔بہرحال ہونہار بروا چکنے چکنے پات۔ مشتاق احمد کا مستقبل تابناک ہو گا۔