مرحوم اشفاق احمد ہمیں یہ واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ روم کی عدالت میں وہ اپنی موٹر سائیکل کے چالان کے سلسلے میں پیش ہوئے۔ جب جج کو یہ معلوم ہوا کہ میں استاد ہوں تو وہ یہ کہتے بلکہ باربار دوہراتے ہوئے تعظیماً اٹھ کھڑا ہوا کہ A Teacher in Court A Teacher in Court وہ روم تھا یہ لاہور ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دل لاہور۔ جہاں گزشتہ روز نیب نے اپنی احتساب عدالت میں ممتاز استاد اور یونیورسٹی آف سرگودھا کے سابق وائس چانسلر کو ہتھکڑیاں لگا کر پیش کیا۔ اُن پر خدانخواستہ کسی غبن یا مالی کرپشن کا کوئی الزام نہ تھا۔ زیادہ سے زیادہ کچھ قواعدوضوابط سے آگے پیچھے ہونے کا الزام تھا جس کا عدالت میں ڈاکٹر صاحب نے کافی و شافی جواب دیا۔ وطن عزیز کیسا دل چسپ ملک ہے کہ جہاں ایس ایس پی رائو انوار کہ جس پر قتل کا الزام ہے اسے بغیر ہتھکڑی کے عدالت میں پیش کیا جاتا ہے اور اسے جیل بھی انہیں بھیجا جاتا بلکہ اس کے اپنے گھر کو سب جیل قرار دے دیا جاتا ہے جبکہ واجب الاحترام استاد کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر محمد اکرم چودھری کون ہیں؟ تعلیمی و علمی دنیا تو ان کے مقام و مرتبے سے بخوبی آگاہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے فلاسفی میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کیا، اورینٹل کالج لاہور سے ایم اے عربی کیا اور پھر جامعہ اُمّ القری مکتہ المکرمہ سے پی ایچ ڈی کا ابتدائی مرحلہ مکمل کیا اور باقاعدہ طالب علم کی حیثیت سے گلاسگو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر صاحب نے پاکستان میں تدریسی فرائض بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور پنجاب یونیورسٹی لاہور میں انجام دیئے۔ پنجاب یونیورسٹی نے ڈاکٹر صاحب کی عربی و اسلامیات کے لیے بے بہا خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں ممتاز پروفیسر ہونے کا اعزاز دیا اور انہیں 22ویں گریڈ میں ترقی دی۔ ڈاکٹر محمد اکرم چودھری 2007ء میں یونیورسٹی آف سرگودھا کے وائس چانسلر مقرر ہوئے جہاں انہوں نے آٹھ برس کے عرصے ایک لاجواب تعلیمی انقلاب برپا کر دیا۔ سرگودھا میرا شہر ہے کبھی اس کی پہچان کنو، مالٹے اور ٹو ڈی سیاست ہوا کرتی تھی۔ آج اس کے ماتھے کا جھومر یونیورسٹی آف سرگودھا ہے۔ ڈاکٹر محمد اکرم چودھری سے پہلے پروفیسر ریاض الحق نے جنرل خالد مقبول کی گورنری کے زمانے میں اس یونیورسٹی کی بنیاد رکھی اور بڑی قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر محمد اکرم چودھری نے سابق وائس چانسلر کے کسی ایک منصوبے کو بھی بند نہیں کیا بلکہ وہاں سے آگے کام شروع کر دیا۔ جہاں ریاض الحق صاحب چھوڑ گئے تھے۔ ڈاکٹر محمد اکرم چودھری نے چند سالوں میں یونیورسٹی میں محیرالعقول کارنامے انجام دیئے۔ جب انہوں نے یونیورسٹی کو جائن کیا تو یہاں محض چند ہزار طلبہ و طالبات تھے مگر جب وہ یونیورسٹی سے رخصت ہوئے تو طلبہ و طالبات کی تعداد مرکزی کیمپس میں 28ہزار اور سب کیمپس میانوالی و بھکر میں چھ سات ہزار تھی۔ ڈاکٹر صاحب کا سلوگن تھا کہ فیس کی استطاعت نہ رکھنے کی بنا پر کوئی طالب علم اعلیٰ تعلیم سے محروم نہ رہے گا۔ اگر یونیورسٹی کے بجٹ میں گنجائش نہ ہوتی تو وہ ذاتی ذرائع سے فیسوں کا انتظام کر لیا کرتے۔ اس طرح انہوں نے سابق گورنر خالد مقبول کے یونیورسٹی میں لگائے ہوئے ادویہ سازی کے یونٹ کو بہت ترقی دی۔ یہ یونٹ کیمیکل ٹیکنالوجی اور علم کیمیاء کے طلبہ و طالبات کی عملی تربیت کے لیے ایک نعمتِ غیر مترقبہ تھا۔ ڈاکٹر محمد اکرم چودھری نے سنڈیکیٹ کے مشورے سے تمام یتیم بچوں کی فیس معاف کر رکھی تھی۔ اسی طرح حفظ قرآن کی حوصلہ افزائی کے لیے انہوں نے حفاظ طلبہ و طالبات کو بھی فیس کی ادائیگی سے استثناء دے رکھی تھی۔ ان کے زمانے میں یونیورسٹی آف سرگودھا پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے مقابلے میں صرف ایک چوتھائی فیس لیتی تھی۔ یونیورسٹی کی وسیع القلبی کا سرگودھا ڈویژن کے سارے علاقے کو بے پناہ فائدہ ہوا۔ جو طلبہ کبھی لاہور یا فیصل آباد جا کر تعلیم حاصل کرنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھے انہیں اعلیٰ درجے کی تعلیم اپنے گھر میں حاصل ہونے لگی۔ میں ایسے کئی طلبہ و طالبات کو جانتا ہوں کہ جو یونیورسٹی آف سرگودھا کی وجہ سے آج لمز یونیورسٹی لاہور اور پنجاب یونیورسٹی اور دیگر نمایاں ملکی و غیر ملکی اداروں میں مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ڈاکٹر محمد اکرم چودھری اور یونیورسٹی آف سرگودھا کے لیے دعا گو رہتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد اکرم چودھری 2007ء سے لے کر 2015ء تک یونیورسٹی آف سرگودھا میں وائس چانسلر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے اور پھر نئے وائس چانسلر صاحب تشریف لے آئے۔ نئے وائس چانسلر نے اپنی ساری توانائیاں ہر ’’نقش کہن‘‘ مٹانے پر صرف کر رکھی ہیں۔ نئے وائس چانسلر صاحب سابق وائس چانسلر کے منصوبوں کی خامیاں تلاش کرنے اور کاغذات کی چھان بین میں محو رہتے ہیں تا کہ کہیں کامے،فل سٹاپ یا کسی اور غلطی کو ڈھونڈ نکالا جائے اور اسے آگے پہنچایا جائے۔ ڈاکٹر محمد اکرم چودھری کا جرم کیا ہے؟ نیب کے پراسیکیوٹر نے عدالت میں کہا کہ انہوں نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چھ کیمپس مختلف تعلیمی پارٹیوں کو دیئے وہ قواعد و ضوابط کے مطابق نہ تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے عدالت میں اس کا شافی جواب دیا اور کہا کہ انہوں نے اپنی ذاتی مرضی سے نہیں بلکہ یونیورسٹی کی شرائط پر یونیورسٹی سنڈیکیٹ کی منظوری سے یہ کیمپس دیئے۔ اگر ڈاکٹر صاحب یا مختلف شریک کیمپسز سے قواعد و ضوابط کی تنقید میں کوئی اونچ نیچ ہوئی ہے اس پر نیب کا کیس کیسے بن گیا۔ مجھے حیرت ہے کہ ہم نے ہر چھوٹی بڑی بات پر نیب جانے یا نیب کا ڈراوا دینے کا جو کلچر اپنا لیا ہے تو اس کے بعد پھر محکمہ جاتی ڈسپلن کی کیا ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب نئے کیمپس ڈاکٹر اکرم چودھری نے یونیورسٹی سنڈیکیٹ کی منظوری سے دیئے اور ان پر ایچ ای سی نے اپنے معیار کی جانچ پڑتال کے بعد مہر تصدیق ثبت کی تو پھر مقدمہ کس بات کا اور اگر کوئی مقدمہ بنتا ہے تو پھر سنڈیکیٹ کے سارے ممبران اور ایچ ای سی کے افسران کو بھی طلب کیا جائے۔ اگر یونیورسٹیوں کے معاملات ایچ ای سی اور ایچ ای ڈی کی بجائے نیب کو ہی جانے ہیں تو پھر ان اداروں پر کروڑوں اربوں خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے، انہیں بند کر دیجیے۔ سابقہ حکومت نے تو اپنے گورنروں کو بالکل بے اختیار کر رکھا تھا۔ مگر نئے گورنر چودھری محمد سرور کو وزیر اعظم کی طرف سے اختیار بھی دیا گیا ہے اور خود مختاری بھی دی گئی ہے۔ پنجاب کی تمام جامعات نے بجا طور پر یونیورسٹیوں کے چانسلر گورنر چودھری محمد سرور سے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ گورنر صاحب ایسا تعلیمی کلچر رائج کریں کہ ان کے احکامات کی بلا تاخیر تعمیل ہو اور ان کے علم کے بغیر کوئی معاملہ نیب جیسے کسی غیر تعلیمی ادارے کو نہ بھیجا جائے۔ گورنر صاحب یونیورسٹیوں کی تعلیمی، تدریسی اور تحقیقی مختصر رپورٹ بنفس نفیس ملاحظہ فرمایا کریں تا کہ انہیں معلوم ہو کہ کہاں پر عالمی معیار کا تحقیقی کام ہو رہا ہے اور کہاں پر محض انتقامی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ چودھری سرور صاحب نے اپنے انٹرویو میں یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور انتظامیہ کو باور کرایا ہے کہ اگر ہم اپنی یونیورسٹی کو عالمی معیار پر نہ لائے تو 2022ء تک ہماری ڈگریاں بیرونی دنیا میں کہیں تسلیم نہ ہوں گی۔ یونیورسٹیوں کے لیے یہ محض یاد دہانی ہی نہیں ایک وارننگ بھی ہے۔ آج اکیسویں صدی میں جبکہ ساری دنیا سلام ٹیچرز ڈے مناتی ہے۔ اپنے پرانے اساتذہ کو یاد کرتی ہے۔ ان کی خدمات کو سراہتی ہے۔ انہیں پھولوں کے گل دستے ارسال کرتی ہے۔ زندگی کی اوج گاہوں پر پہنچنے پر ان کی خدمات کا اعتراف کرتی اور انہیں خراجِ عقیدت و خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔ وہاں ہم ایسے بے توفیق ہیں کہ اپنے اساتذہ کو پابندِ سلاسل کرتے ہیں، انہیں زندانوں کے حوالے کرتے ہیںاور ہتھکڑیاں لگا کر انہیں احتساب عدالتوں کے کٹہرے میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ ہم من حیث القوم اس رویے پر روئیں یا نہ روئیں مگر اس پر چشم فلک ضرور اشکبار ہو گی۔ گزشتہ روز میں اپنے بیٹے بیٹیوں اور شاگردوں سے آنکھیں نہیں ملا سکا جنہیں ہم ساری عمر احترامِ استاد کا درس دیتے رہے ہیں۔ نیب کے چیئرمین اور چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست کروں گا کہ وہ ہدایات جاری فرمائیں کہ استاد کی خدمات اور اس کے احترام کو محلوظِ خاطر رکھا جائے۔