ایک نماز، روزے اور ذکرِ الہٰی میں محو رہنے والے شخص کے ہاتھ کہیں سے سونے کی اینٹ پڑی ہوئی لگ گئی جس کی وجہ سے اس کے قلب کی ماہیت ہی بدل گئی۔ خدا کی یاد سے غافل ہو کر اب اس نے ہر وقت دنیاوی آسائشیں حاصل کرنے کے کے منصوبے بنانے شروع کر دئیے۔ کبھی اعلیٰ شاندار محل، کبھی باغیچہ فردوس، کبھی بہترین طعام اور لباس فاخرہ اور کہیں کچھ اور غرض کہ اس طرح کی سوچوں نے اس کی نیند حرام کردی۔اسی پریشان حالی اور سوچوں میں گم وہ ایک دن جنگل کی طرف نکل گیا۔ وہاں اس نے ایک شخص کو قبر کی مٹی سے اینٹیں بناتے ہوئے دیکھا۔ یہ منظر دیکھ کر اس کے دماغ پر چھائی ہوئی ہوس کی گرد چھٹی۔ اس نے سوچا۔تو بھی کیسا احمق اور بے وقوف ہے۔ سونے کی اینٹ کیا ہاتھ آئی، تو اپنی عاقبت بھی بھول گیا۔ ہو سکتا ہے کہ کل کو تمہاری قبر کی مٹی سے بھی اسی طرح اینٹیں بنائی جائیں۔ اپنی عمر عزیز ضائع نہ کر اور سیدھی راہ اختیار کر۔ حاصل کلام دولت حاجات پوری کرنے کا ایک ذریعہ ہے حد سے زائد دولت انسان کے دل کو پتھر بنا دیتی ہے اور یاد الہٰی سے غفلت میں پڑ کر دنیاوی شور و شغب اور لہو و لعب میں ڈوب جاتا ہے۔ اس طرح نہ صرف اپنی عاقبت خراب کرتا ہے بلکہ دنیا میں بھی خسارے میں رہتا ۔