وہ کوئی بہت بڑا پہاڑ نہیں جس کی چوٹی کو سر کرنے کے لیے کوہ پیما زندگی داؤ پر لگادیں۔ وہ کوئی ایسا پہاڑ بھی نہیں جس میں سونے اور چاندی کے ذخائر ہوں۔ اس پہاڑ سے تیل تو کیا پانی بھی حاصل نہیں ہوتا۔ کیوں کہ وہ کوئی ایسا بلند پہاڑ نہیں جس کی چوٹی آسمان کو چھوتی ہو۔ جس پر موسم سرما میں برف گرے اور موسم گرما میں وہ برف پگھلے اور پانی کی صورت بہے۔ وہ تو صحرائے تھر کی پیاسی دھرتی کا ایک چھوٹا سا پہاڑ ہے مگر یہ الگ بات ہے کہ وہ پہاڑ بہت حسین ہے۔ خاص طور پر جب تھر میں برسات ہوتی ہے تو وہ پہاڑ سر سبز گھاس سے بھر جاتا ہے۔ اس دوران جب اس پر بادل برستے ہیں تومٹیالے رنگ کے پتھروں پر سفید پانی کے چشمے کسی خواب کا منظر محسوس ہوتے ہیں وہ پہاڑ اس لیے بھی مشہور ہے کہ اس پر تھر کے مور رقص کرتے ہیں۔ ان موروں کو شکار کرنا بہت بڑا پاپ سمجھاجاتا ہے۔ وہ پہاڑ اہلیان تھر کے لیے تو کسی دیوتا سے کم نہیں مگر سندھی ادب میں اس پہاڑ کا اس قدر تذکرہ آیا ہے کہ لوگ اس پہاڑ کو دیکھے بغیر اس کی محبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس پہاڑ کا نام کارونجھر ہے۔ وہ کارونجھر جو صدیوں سے اہلیان تھر کی صدا بن کر موجود رہا ہے مگر اس وقت وہ کارونجھر سوشل میڈیا کا ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے۔ کیوں کہ اس پہاڑ کی سیاسی بنیادوں پر لیز لینے والے اس کو کاٹ کر اس کے پتھروں کو لے جا رہے ہیں۔ کارونجھر پہاڑ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ گرینائیٹ پتھر کا بنا ہوا ہے۔ اس لیے پہاڑوں کو توڑ کر پتھر نکالنے والا مافیا اس پہاڑ کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا ہے۔ 80ء کی دہائی سے اس پہاڑ کو کاٹا جا رہا ہے۔ اگر اب بھی پہاڑ کی کٹائی نہ رکی تو پھر کارونجھر پہاڑ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ اس بات کا احساس سندھ کے سنجیدہ لوگوں کے سینے میں جذبات کا طوفان پیدا کر رہا ہے۔ اب وہ کسی قیمت پر تھر کے پہاڑ کارونجھر کو کاٹ کر بیچنے والے مافیا کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس سلسلے میں سب سے بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ کارونجھر پہاڑ کو کاٹنے کا ٹھیکہ جس شخص نے لیا ہے وہ پیپلز پارٹی کے مقامی ایم پی اے کا فرنٹ مین کہا جاتا ہے۔ اس لیے اس بار بھی سندھ کے باشعور افراد کے نشانے پر پیپلز پارٹی ہے۔ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں کارونجھر پہاڑ کو بچانے کے لیے پریس کلب کے سامنے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ادیبوں اور دانشوروں کی باتوں میں غصہ ہے۔ وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ پیپلز پارٹی بظاہر تو ’’سندھ کارڈ‘‘ استعمال کرتی ہے مگر اس نے گذشتہ گیارہ برسوں کے دوراں سندھ کو بے رحمی سے لوٹا ہے۔ تھر پیپلز پارٹی کا قلعہ سمجھا جاتا ہے۔ تھر میں کبھی سابق چیف منسٹر ارباب رحیم کا کافی ہولڈ تھا مگر پیپلز پارٹی نے جوڑ توڑ کی سیاست سے ارباب رحیم کو سیاسی طور پر تنہا کردیا ہے۔ ارباب رحیم کو کمزور کرنے کے بعد تھر میں پیپلز پارٹی کو کسی بڑی مخالفت کا سامنا نہیں ہے۔ مگر اس وقت تھر کے باشعور نوجوان سندھ کے ادیبوں اور دانشوروں کے ساتھ مل کر ایک ایسا غیر اعلانیہ محاذ بنا چکے ہیں جو پیپلز پارٹی کے لیے مشکل پیدا کر رہا ہے۔ تھر میں زیادہ تر وہ قدیم قبائل بستے ہیں جس کو شیڈول کاسٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان لوگوں میں ایک ذات کولہی لوگوں کی بھی ہے۔ اس ذات میں سے ایک پڑھی لکھی خاتون کرشنا کولہی کو پیپلز پارٹی نے اس لیے سینیٹر بنایا ہے کہ وہ دنیا کو دکھا سکے کہ پسے ہوئے طبقات اور پس ماندہ لوگوں کو آگے لا رہی ہے مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کرشنا کولہی کو آگے لاکر پیچھے تھر کے فطری حسن کو تباہ و برباد کرنے کے جس منصوبے پر عمل پیرا ہے اب اس کا پردہ چاک ہو چکا ہے۔ اب سندھ کے باشعور افراد پیپلز پارٹی کے چکر میں آ کر چین اور سکون سے بیٹھنے کے لیے تیار نہیں۔ تھر میں پیپلز پارٹی کے بعد اگر کوئی قوت لوگوں میں جانی جاتی ہے وہ تحریک انصاف ہے۔ کیوں کہ اقتدارمیں آنے سے قبل تحریک انصاف کے سربراہ اور ملک کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے تھر کے بہت سارے دورے کیے تھے۔ آج بھی سندھ کے سوشل میڈیا پر عمران خان کی وہ تصویر شیئر ہوتی رہتی ہے جس میں وہ ایک چارپائی پر اس علاقے میں سکون سے سو رہے ہیں جہاں کارونجھر پہاڑ ہے۔سندھ کے باشعور افراد اس تصویر کو شیئر کرکے عمران خان کو صدائیں دے رہے ہیں کہ وزیر اعظم کی حیثیت سے کارونجھر پہاڑ کا قتل عام رکوائیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے لیے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ ان کے ایک حکم سے کارونجھر پہاڑ کٹ کر تباہ ہونے سے بچ سکتا ہے۔ اگر عمران خان نے یہ کام کیا تو تحریک انصاف تھر میں کارونجھر پہاڑ کی محافظ جماعت بن جائے گی۔کیا وزیر اعظم عمران خان اہلیان تھر کے لیے یہ کام نہیں کرسکتے؟ تھر کے لوگ عمران خان کے بعد اگر کسی شخص کی عزت کرتے ہیں تو وہ ملک کے موجودہ صدر ڈاکٹر عارف علوی ہیں جنہوں نے صدارتی منصب سنبھالنے سے قبل تھر کے لوگوں کی حقیقی خدمت کی ہے۔سندھ لٹریچر فیسٹیول کے موقعے پر صدر پاکستان عارف علوی نے ایس ایل ایف (SLF) ٹیم کو کراچی کے ایک لگژری ہوٹل میں بتایا تھا کہ انہوں نے ایک ڈینٹسٹ کی حیثیت سے میڈیا کو بغیر بتائے سینکڑوں تھری لوگوں کے دانتوں کا علاج کیا تھا۔ کیوں کہ تھر میں نمکین پانی پینے کی وجہ سے ہر تھری شخص کے دانت کسی نہ کسی حد تک متاثر ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر عارف علوی نے ان کا اس وقت علاج کیا جب وہ ایک عام سیاسی ورکر رتھے۔ اب قدرت نے انہیں ریاست پاکستان کا سربراہ بنایا ہے۔ کیا وہ صدر پاکستان کی حیثیت سے ان دانتوں کو نہیں نکال سکتے جو کرینوں سے کارونجھر پہاڑ کاٹ کاٹ کر کھا رہے ہیں۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی تھر کے لوگوں کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ تھر کے لوگ معصوم محبت کے امین ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ تھر کے لوگ کسی کا احسان فراموش نہیں کرتے۔ تھر کے لوگوں پر وفاقی حکومت کا یہ بہت بڑا احسان ہوگا اگر وہ کارونجھر پہاڑ کو بچانے کے سلسلے میں کوئی کردار ادا کرتی ہے۔ اس وقت سندھ حکومت کے وزیر ثقافت سردار شاہ کا تعلق بھی اسی تھر سے ہے۔ وہ تھر کی اس ثقافتی علامت کو مسمار کرنے والی قوتوں کے خلاف کوئی کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔بلاول بھٹو زرداری دو چار ماہ کے بعد تھر میں جلسہ منعقد کرواتے ہیں۔ وہ تھر میں ہولی کھیلنے بھی آتے ہیں۔ وہ دیوالی کے موقعے پر تھر کے مندروں میں دیپ بھی جلاتے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ سیاسی مفاد حاصل کرنے کے طریقے ہیں۔ اگر بلاول بھٹو زرداری کو تھر کے لوگوں کا احساس ہوتا تو وہ کارونجھر پہاڑ کو ریزہ ریزہ کرنے والی قوت کو ایک حکم سے روک سکتے ہیں۔ مگر بلاول بھٹو زرداری تھر کے لوگوں کے جذبات کو نہیں جانتے۔ وہ تھر کے درد سے ناآشنا ہیں۔ ان کو صرف سندھ کا اقتدار بچانے کے لیے ’’سندھ کارڈ‘‘ کھیلنے میں دلچسپی ہے۔ ان کے لیے کارونجھر پہاڑ کوئی اہمیت نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ تھر کے لوگوں کے احساسات اور جذبات کو سمجھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ان کے لیے تھر صرف ووٹ بینک ہے۔ مگر تھر کے لوگوں کے لیے ان کی ثقافت اور تاریخ اہم ہے۔ تھر کے لوگ سوچتے ہیں کہ اگر کارونجھر پہاڑ صفہ ہستی سے مٹ گیا تو وہ دوسرا کارونجھر کہاں سے لائیں گے؟ تھر کے لوگوں کے لیے اگر اس وقت کوئی قوت کارونجھر پہاڑ کو ٹکڑے ہونے سے روک سکتی ہے وہ وفاقی حکومت ہے۔ تھر کے مظلوم لوگ اپنی مغموم آنکھوں سے وفاقی حکومت کا انتظار کر رہے ہیں وہ آئے اور ان کے کارونجھر پہاڑ کو مٹنے سے بچائے۔ تھر کے لوگوں کی پکار تو شاید اسلام آباد کے ایوانوں تک نہ پہنچ پائے مگر کارونجھر کے چوٹی پر بیٹھے ہوئے موروں کی صدائیں روزنامہ 92 کی معرفت وہاں پہنچ سکتی ہیں؛ جہاں سے ایک حکم نامہ جاری ہوسکتا ہے ۔ اس حکم نامے سے کارونجھر پہاڑ کا قتل رک سکتا ہے۔