سینیٹ چئیر مین صادق سنجرانی کے خلاف حزب اختلاف کی قرارداد عدم اعتماد ناکام ہوئی۔ اس بڑی کارروائی سے قبل جو ماحول اپوزیشن کی طرف سے بنا یا گیا تھا اس میں حکومت بیک فٹ پہ نظر آرہی تھی۔ سینیٹر شبلی فراز کے مولانا فضل الرحمن سے ملنے پہ تحریک انصاف کے کارکنوں میں شدید بے چینی پائی گئی اور انہوں نے سوشل میڈیا پہ برملااپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ یہ ایک اصولی موقف تھا جو پوری قوت کے ساتھ تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے سامنے آیا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان نے اپنے ووٹر کو جو شعور دیا ہے اس کی زد میں خود وہ بھی آتے رہے ہیں۔عام انتخابات میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے میں بھی عمران خان کا ووٹر اپنی رائے کا برملا اظہار کرتا رہا۔ ذاتی میٹینگز میں بھی اور سوشل میڈیا پہ بھی طویل مباحث ہوتے رہے ۔ بعد ازاں دوسری جماعتوں سے کچھ ایسے افراد کی تحریک انصاف میں شمولیت پہ بھی اسی ووٹر نے اعتراض کیا اور عمران خان نے اپنا فیصلہ واپس لیا۔ اسی دوران دیگر جماعتوں،بشمول جماعت اسلامی، نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی انتخابی ٹکٹیں کس طرح اور کس کو تقسیم ہوئیں، یہ معاملات پارٹیوں کی پارلیمانی کمیٹیوں میں ہی طے پاتے رہے۔عام ووٹر کو اس کی ہوا بھی نہ لگی۔ادھر عمران خان دن رات ٹکٹوں کی تقسیم کی نگرانی کرتے رہے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اس دوران جس ذہنی تناو کا شکار ہوئے ،پہلے کبھی نہیں ہوئے۔ جب یہ تھکا دینے والا سلسلہ ختم ہوا تو وہ اطمینان سے نتھیا گلی چلے گئے اور وہاں سے اپنی اسی سکون آور تصاویر ٹویٹ کرتے رہے جو مخالفین کے لئے ذہنی خلجان اور ان کے چاہنے والوں کے لئے تسکین قلب کا باعث بنتی رہیں۔ اس بار بھی سینیٹ چئیرمین کی تبدیلی یا ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کا اگر سب سے کم اثر کسی پہ نظر آتا تھا ، تو وہ عمران خان تھے۔ اس کے بعد اس عاجز کا خیال تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا جس کا اثر آنے والے وقت میں حکومت کی پوزیشن پہ پڑے۔شبلی فراز کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات پہ مجھے بھی تحفظات تھے جس کاا ظہار میں نے مناسب فورم پہ کیا لیکن اس ملاقات کے بعد فضل الرحمن صاحب نے جس تکبر کے ساتھ غلط بیانی کی اور کہا کہ حکومت ان سے این آر او لینے آئی ہے، اسی دن مجھے یقین ہوگیا تھا کہ بات اب نمبر گیم سے زیادہ انا کی ہے اور صادق سنجرانی کہیں نہیں جارہے۔پھر وہی ہوا۔گیم سینیٹ کے اندر تبدیل نہیں ہوئی۔ گیم پہلے ہی تبدیل ہوچکی تھی۔ انا کے قتیل اور قاتل دونوں کہیں اور نہیں، اپوزیشن کی اپنی صفوں میں موجود ہیں۔ انہیں ایسے ایک نہیں ایک ہزار اجلاس بلا کر بھی تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ وجہ کیا ہے؟خفیہ بیلٹنگ جسے عمران خان نے کہا تھا کہ ہارس ٹریڈنگ کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ آج عمران خان کے اس موقف کی تصدیق تاریخ نے خود کو دہرا کر کی ہے ۔سینیٹ کے گزشتہ انتخابات سے قبل بلوچستان حکومت تبدیل کی گئی ۔ اپنا امیدوار لانے کے لئے آصف علی زرداری جو سب پہ بھاری تھے ایک لمبا کھیل کھیلا۔ معلوم ہوتا ہے موصوف کو شطرنج بہت پسند ہے اور گھوڑے کی ڈھائی چال بہت مرغوب۔اس وقت ان کے سینیٹ کے امیدوار کوئی اور نہیں یہی صادق سنجرانی تھے جنہیں ہٹانے کے لئے متحدہ اپوزیشن بشمول آصف زرداری کی پیپلز پارٹی اتاولی ہورہی تھی۔بلوچستان میں نون لیگ کے وزیر اعلی ثنا اللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد لائی گئی، انہیں فارغ کیا گیا اور وزارت اعلی ق لیگ کے حصے میں آئی۔بعد میں سینیٹ کے الیکشن میں اسی صادق سنجرانی کو کامیاب کرنے کے لئے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کا اتحاد ہوا۔ اس پہ اعتراض کرنے والے در حقیقت جمہوری عمل پہ معترض ہیں۔ اسی جمہوری اصول کے تحت تومتحدہ اپوزیشن اپنا امیدوار حاصل بزنجو لے کر آئی ہے، اب اگر اس وقت تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیا تھا تو وہ کیسے غیت جمہوری عمل تھا اور آج چونسٹھ دکھا کر پینتالیس ووٹ ڈالنے والی اپوزیشن یہی کام کررہی تھی تو وہ عین جمہوری تھا۔ اس وقت عمران خان نے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے تاریخ رقم کی تھی اور اپنے بک جانے والے بیس ارکان کی رکنیت معطل کردی تھی۔ انہوں نے ان ارکان کے نام تک جاری کر دیئے جنہوں نے ساٹھ کروڑ کے عوض ووٹ بیچا تھا۔ یہی نہیں ان ارکان کے نام بھی نیب کو دے دیئے تاکہ وہ ان کے بینک اکاونٹس کا پتا لگائے۔ان ایک دوٹوک موقف تھاکہ سینیٹ الیکشن میں گزشتہ 40 سال سے ووٹ بکتا رہا ہے لیکن ووٹ کی خرید و فروخت پر کوئی ایکشن نہیں لیتا تھا۔ اسی کاروائی کے بعد انہوں نے ٹوئیٹ کی تھی کہ سینیٹ انتخابات کا طریقہ کار تبدیل ہونا چاہئے۔ خفیہ رائے دہی ہارس ٹریڈنگ کا راستہ کھولتی ہے اور ہمارے اپنے ارکان بکے ہیں۔ اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ تحریک انصاف نے انتخابی اصلاحات کمیٹی میں سینیٹ انتخاب کے طریقہ کار میں تبدیلی کی کوشش کی تھی لیکن سینیٹ انتخابات میں ان کی تجاویز مسترد کی گئیں جس کا نتیجہ آج متحدہ اپوزیشن نے دیکھ لیا۔ انہوں نے حاصل بزنجو کی طرح اس بے ضمیری یا ضمیر کی آواز کے نام پہ خرید وفروخت کی ذمہ داری کسی ادارے پہ نہیں ڈالی۔ یہاں اخلاقیات کا عالم یہ ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک سے قبل حکومت کی طرف سے دیئے گئے عشائیہ میں نون لیگ کی دو ارکان شریک ہوتی ہیں۔ ان سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے اور قیادت اس پہ مطمئن ہوجاتی ہے۔اگلے عشائیے میں کچھ اور لوگ شریک ہوتے ہیں اور بلاول زرداری پوری ڈھٹائی کے ساتھ بیان دیتا ہے کہ ہمارے ارکان پیسے حکومت سے پکڑیں گے لیکن ووٹ ہمارے امیدوار کو دیں گے۔اس شرمناک بیان پہ جمہوریت کے کسی اصول پرست بچے جمہورے اور اخلاقیات کے علمبردار کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی۔ اس کے بعد سینیٹ میں چونسٹھ دکھا ئے اور پینتالیس ڈالے جاتے ہیں تو عمران خان کی طرح کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ وہ ان کا کھوج لگائے ، انہیں پارٹی سے بے دخل کرے اور انہیں سربازار رسوا کر کے رکھ دے کہ دیکھو یہ ہیں وہ ووٹ فروش بے ضمیر لوگ ۔ یہاں ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ بھان متی کے اس کنبے میں جس کا نام متحدہ اپوزیشن ہے، یہ ذلت کون اٹھانے کو تیار ہوگا کہ اس کے ارکان بک گئے تھے؟رہبر کمیٹی کے چئیرمین یہ اعتراف کریں گے کہ شبلی فراز سے ملاقات کے بعد بڑھکیں مارنے کے بعد ان کا ایک ووٹ بک گیا تھا؟یا بلاول یہ اعتراف کریں گے کہ اپنے ہی لائے ہوئے چئیرمین کے خلاف ڈالے گئے ووٹوں میں ان کے ووٹ بھی شامل تھے یا شہباز شریف یہ اعتراف کریں گے کہ ان کی اپنی پارٹی اتنے اجلاس اور میٹنگز کے بعد بھی اپنے ارکان کو قابو میں نہیں رکھ سکی؟یا یہ تمام حضرات مل جل کر ایک دوسرے سے اپنے اپنے لنچ ،افطاریوں اور عشائیوں کا حساب لیں گے؟