گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کشمیر کے معاملے پر ہماری پرفارمنس کمزور اور دنیا کا رسپانس حوصلہ شکن ہے۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ جناب خان صاحب جنرل اسمبلی میں کیا کہیں گے کیونکہ خان صاحب کسی وقت بھی اچانک کوئی ٹرن لے سکتے ہیں۔ البتہ میں یہ اندازہ ضرور لگا سکتا ہوں کہ ورلڈ کمیونٹی کی موجودگی میں اس انتہائی سنجیدہ مرحلے پر خان صاحب کیا کہیں گے یا انہیں کیا کہنا چاہیے۔ پہلے ذرا ماضی قریب کا منظر نامہ ذہن میں رکھیے۔ گزشتہ باون روز سے 80لاکھ کشمیری بدترین قسم کے کرفیو کی زد میں ہیں گھر تو گھر‘ مدارس‘ مساجد اور ہسپتال تک بھارتی فوجیوں کی درندگی کا شکار ہیں۔ ذرائع ابلاغ کا مکمل بلیک آئوٹ ہے۔90لاکھ بھارتی فوج کشمیریوں کی آواز دبانے کے لئے وادی کشمیر کے چپے چپے موجودہے۔ مہذب عالمی برادری اس درندگی پر مجرمانہ خاموشی سے کام لے رہی ہے اور ہم اس چپ کو صدائے احتجاج میں بدلنے میں ناکام رہے ہیں‘ ہم او آئی سی کا سربراہی اجلاس بلانے اور سعودی عرب، انڈونیشیا اور امارات جیسے بڑے بڑے اسلامی ممالک کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔یو این کی انسانی حقوق کی کونسل کے منتخب ممبران کی کل تعداد 47ہے اس کا ہیڈ کوارٹر جنیوا میں ہے۔11ستمبر کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے 50ارکان کی حمایت کا دعویٰ کیا۔ وزیر اعظم نے اس حمایت میں مزید اضافہ فرما دیا۔ 22جولائی کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہائوس میں عمران خان کا گرم جوشی سے استقبال کیا تھا ٹرمپ کا اصل ایجنڈا افغانستان سے امریکی افواج کو بحفاظت نکالنا تھا اور اس کے لئے اسے پاکستان کی حمایت درکار تھی۔ ٹرمپ نے پاکستان کو خوش کرنے کے لئے کشمیر پرثالثی کی پیشکش کی، اس شاطرانہ پیشکش کو ہمارے سادہ دل وزیر اعظم نے ورلڈ کپ جیتنے کے مترادف قرار دے دیا۔ اس پیشکش کے کچھ ہی دنوں کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے متنازعہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے ڈالا۔ ٹھیک دو ماہ بعد بھارتی وزیر اعظم نے امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں 50ہزار بھارتی ہندوئوں سے خطاب کرتے ہوئے اسی امریکی سرزمین پر کشمیر کے بارے میں یو این کی 11قرار دادوں کی دھجیاں بکھیر دیں۔ بین الاقوامی قوانین کا تمسخر اڑایا اور اپنے بھارتی دستور کو اپنے ہی پائوں تلے روندنے کو قابل فخر کارنامہ قرار دیا ۔ بھارتی وزیر اعظم کی جسارت قابل داد ہے کہ فارسی محاورے کے مطابق ’’چہ دلاور است دز دے بکف چراغ دارد‘‘ یہاں بھارتی وزیر اعظم نے مظلوم کشمیریوں کی سوفیصد اپنی داخلی تحریک مزاحمت کو پاکستان کی کارروائی قرار دیااور جارحیت کی تمام حدود کو پھلانگتے ہوئے اس نے کشمیری حریت پسندوں اور ان کی تحریک مزاحمت کو بڑھاوا دینے والے پاکستان کو سبق سکھانے کی نفرت انگیز باتیں کیں اس دوران کم از کم پچیس تیس ہزار پاکستانی ‘ کشمیری‘ سکھ اور انسانی حقوق کے امریکی علمبردار مسلسل مودی اور اس کی انسانیت کش پالیسیوں کی پر زورمذمت کرتے رہے اور گجرات کے قصاب اور کشمیریوں کے قاتل کے امریکہ سے نکل جانے کا مطالبہ کرتے رہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکہ کا صدر وہاں ہیوسٹن کے سٹیڈیم میں موجودتھا اور اس نے وہاں مودی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر بھارت کے ساتھ مل کر ریڈیکل اسلام کے خلاف لڑنے کا اعلان بھی کیا۔ اقبال نے شاید ایسے ہی لمحات کے لئے کہا تھا سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ ہماری حکومت نے پیر کے روز ٹرمپ‘ عمران ملاقات سے بہت سی امیدیں وابستہ کر لی تھیں۔ مگر اس ملاقات میں بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کوئی پکڑائی نہ دی۔ زیادہ تر افغانستان کے بارے میں گفتگو ہوئی اور ہماری اشک شوئی کے لئے ٹرمپ نے اتنا کہا کہ ہیوسٹن میں مودی نے جارحانہ گفتگو کی۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے طالبان کے بعد اب ایران سے مذاکرات کے لئے بھی ہماری ڈیوٹی لگائی ہے جس پر ہمارے خوش بیان وزیر خارجہ بغلیں بجا رہے ہیں۔ جناب عمران خان کو 27ستمبر کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کو صرف اور صرف ایک نکتے پر مرتکز رکھنا چاہیے اور وہ ہے کشمیر‘ کشمیر اور کشمیر۔ عمران خان کو مارٹن لوتھر کنگ جونیر کے قول مصداق وہاں زور دے کر یہ بات کہنی چاہیے کہ نہ صرف برائی کو فروغ دینے والے قابل مذمت ہیں بلکہ اعلیٰ و ارفع انسانی اقدار کی پامالی پر خاموشی اختیار کرنے والے ان سے بھی زیادہ قابل مذمت ہیں۔ عمران خان کو عالمی برادری کے مہذب ملکوں سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ گزشتہ 53روز سے 80لاکھ انسانوں کو پنجروں مقید کر کے ان کا دانہ پانی بند کر دیا گیا ہے۔ روزگار کے دروازے ان پر بند ان کے سکولوں اور کالجوں میں تعلیم کا سلسلہ ان کا بند ہے۔ان کا ذرائع ابلاغ سے رابطہ منقطع کر دیا گیا ہے۔ جناب عمران خان کو اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے پوچھنا چاہیے کہ اگر آپ مظلوموں کو ان کا مسلمہ حق نہیں دلواتے‘ اگر آپ اپنی قرار دادوں پر عملدرآمد نہیں کرواتے۔اگر آپ انتہا پسند اور متعصب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھانے ہزاروں کی تعداد میں بچوں کواٹھا کر ٹارچر سلوں میں ڈالنے اور معزز خواتین کی بے حرمتی کرنے کی کھلی چھٹی دے دیتے ہیں، آپ ظالم کا ساتھ دیتے ہیں۔ مظلوم کا نہیں، قاتل کا ساتھ دیتے ہیں۔ مقتول کا نہیں، تو ایسے حالات میں دنیا کا ہر قانون مظلوم کے حق مزاحمت کو تسلیم کرتا ہے اور ان کی تحریک آزادی کی حمایت کرتا ہے۔ جناب عمران خان کو آزاد کشمیر کی حکومت اور عوام کے اس موقف کو بھی بہت نمایاں کرنا چاہیے کہ یہ کشمیری حکومت دراصل کشمیر کے آزاد اور مقبوضہ دونوں حصوں کی نمائندہ ہے۔ لہٰذا یہ حکومت مقبوضہ کشمیر کے دفاع کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے۔ جناب عمران خان کے یو این میں خطاب کی پنچ لائن وہی ہونی چاہئے جو بھارتی فوجوں کی پاکستانی سرحدوں کے طرف 1987ء میں پیش قدمی کے بعد جنرل ضیاء الحق نے اختیار کی تھی۔ جنرل صاحب 1987ء میں پاک‘ بھارت کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے بھارت کے شہر جے پور گئے۔ وہاں وہ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی سے ملے اور انہوں نے راجیو گاندھی کو واضح الفاظ میں بتایا کہ بھارت جارحیت کے اجتناب کرے وگرنہ ہم وہ قدم اٹھائیں گے جس کی شاید بھارت کو امید نہیں۔ ہمارے قدم کے نتیجے میں انسانی جانوں کا بہت بڑا ضیاع ہو گا اور ہندوانہ تہذیب اس خطے سے مٹ جائے گی جبکہ اسلام تو ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے وہ اگر یہاں نہیں تو کئی خطوں میں برقرار رہے گا۔ راجیو کی سمجھ میں بات آ گئی اور اس نے اپنی فوجیں واپس بلانے اور افہام و تفہیم سے معاملات طے کرنے کا وعدہ کیا۔ ضیاء الحق نے تو یہ بات سرگوشی کے انداز میں راجیو گاندھی سے کی تھی۔ عمران خان کو وہی بات واشگاف انداز میں ساری دنیا کے سامنے کہنی چاہیے کہ اگر کشمیریوں کو بند گلی میں دھکیل دیا جائے گا تو ہم وہ قدم اٹھانے پر مجبور ہوں گے جس کی دنیا ہم سے توقع نہیں کرتی۔ عالمی برادری اور یو این مودی کی دیوانگی کی حوصلہ افزائی اور ہماری احتیاط پسندی کو کمزور ی سمجھ رہی ہے۔ اگر بھارت اپنی ظالمانہ روش کو لگام نہیں دیتا تو بھارت اور عالمی برادری سمجھ لے کہ پھر ہم بھی اپنے کشمیری بھائیوں کو بھوک پیاس سے مرتا نہیں دیکھ سکتے۔ ایسی صورت میں دنیا ہم سے دانشمندی کی نہیں دیوانگی کی امید رکھے جائے۔