یہ درست ہے کہ ایک غلط فعل کسی دوسرے غلط فعل کا جواز اور جواب نہیں ہوسکتا۔ یہ بھی درست ہے کہ انسان اپنی زبان سے پہچانا جاتا ہے۔کسی دانا کا یہ قول بھی سر آنکھوں پہ کہ بولو تاکہ پہچانے جائو۔ہم بولے اور پہچانے گئے۔ہم اہل کرانچی البتہ کسی اور مٹی سے بنے ہیں۔ہماری اپنی لفظیات ہیں۔مرشدیوسفی یاد آگئے اور وہ بھولتے ہی کب ہیں۔ اپنے حقیقی یا فرضی دوست بشارت فاروقی کے خسر الحذر کے حوالے سے لکھتے ہیں۔ انہوں نے کراچی کو اور کراچی نے ان کو ایک نگاہ میں مسترد کردیا۔کہتے تھے عجیب شہر ہے جب دیکھو کوئی نہ کوئی پھڈا اور لفڑا ہوتا رہتا ہے۔پوچھو کہ یہ کیا لفظ ہوا۔تو کہتے ہیں اردو میںا س صورتحال کے لئے کوئی دوسرا لفظ نہیں۔ بھائی میرے اردو میں یہ صورتحال بھی تو نہیں۔یہ بھلے وقتوں کی کہانیاں ہیں۔ اس کے بعد تیس سال اہل کرانچی نے گالی کا جواب گولی سے دیا بھی اور لیا بھی۔ہم کہنا سننا بھول گئے۔بس لاشیں اٹھاتے رہے۔ آج عمران خان کے بلاول کو صاحبہ کہنے پہ ہنگامہ برپا ہے۔ انہیں ایسا نہیں کہنا چاہئے تھا۔ میں اس کے حق میں نہیں ہوں۔ بلاول بھٹو، بھٹو کے نواسے اور بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے ہیں۔یہ سیاسی خاندان ہے۔اس پہ حرف اٹھانا، فقرہ کسنا اور طنز کرنا انتہا درجے کی حماقت ہی نہیں مسلک جمہوریت میں حرام اور ناقابل معافی گناہ ہے۔اس پارٹی کی جمہوریت کی خاطر بڑی قربانیاں ہیں۔انہوں نے تو قربانی فائلوں کا اجرا کرنے کی تاریخ رقم کی تھی۔مارشل لا دور میں کوڑے کھانے والے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے جیالے کارکنوں کی تالیف قلب کا ایسا انوکھا انداز چشم فلک نے نہ دیکھا ہوگا۔ اس تاریخی اقدام کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ گھروں میں کام کرنے والی چٹی ان پڑھ ماسیاں سندھ کے گورنمنٹ اسکولوں میں جوق در جوق بحیثیت استاد بھرتی کرلی گئی تھیں۔کھرا نکالا جائے تو وہ آج بھی پنشن لے رہی ہونگی۔ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔سندھ میں کون جھانک کر دیکھتا تھا کہ کیا ہورہا ہے۔ آج بھی جھانک کر نہیں دیکھ رہا۔ سارے ملک میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار ٹھپ پڑا ہے۔ پراپرٹی ڈیلر مکھیاں مار رہے ہیں اور بحریہ ٹاون کراچی میں پراپرٹی ڈیلروں کو سر کھجانے کی فرصت نہیں مل رہی۔ اللہ ہی جانے کیا چکر ہے۔ ہم کیوں گناہگار ہوں۔نیب جانے ایف بی آر جانے اور عمران خان جانیں۔ بلاول کو البتہ یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ الا ماشاء اللہ پاکستانی سیاست میں بدکلامی کو عروج پہ پہنچانے والے کوئی اور نہیں اس کے عظیم نانا حضور تھے اور اس کی ابتدا کرنے والے ان کے منہ بولے ڈیڈی آمر جنرل ایوب خان۔بھرے جلسے میں بنگالیوں کو ۔۔۔کے بچے جہنم میں جائو کہنے والے بھی وہی تھے۔موصوف مشرقی پاکستان اسمبلی میں جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کی صرف دھمکیاں نہیں دیتے تھے سچ مچ توڑ بھی دیا کرتے تھے۔ضیائی مارشل لا کے جبر و استبداد کو اپنی انقلابی شاعری میں باندھنے والے سپر ہٹ شاعروں کی یادداشت غالبا بھٹو کی ایف ایس ایف اور دلائی کیمپ پہ آتے آتے دم توڑ جاتی ہے۔نانا جان غیروں پہ ہی نہیں اپنوں پہ بھی یکساں مہربان تھے۔اپنوں میں ایک ملک قاسم بھی تھے جن پہ اتنا تشدد کیا گیا کہ بقیہ عمر کرسی پہ براہ راست نہ بیٹھ سکتے تھے۔اپنے ساتھ ایک ٹائر لئے لئے گھومتے تھے۔شہید نانا کے معتوبین کی فہرست خاصی طویل اور اظہر من الشمس ہے لیکن عمران خان کا بلاول کو صاحبہ کہنے کا جرم اتنا گھنائونا ہے کہ بلاول کے دفاع میں پیپلز پارٹی ہی نہیں عمران خان کا ہر مخالف کود پڑا ہے۔وہ بھی جن کا ایک شہید ڈاکٹر نذیر تھا،وہ بھی جن کا باپ خواجہ محمد رفیق تھااور وہ بھی جن کا ایک رہنمامولوی شمس الدین تھا اور وہ بھی جن کے والد عبدالصمد اچکزئی تھے۔ان سب کا بیک وقت عمران خان پہ پل پڑنا اس بات کا ثبوت ہے کہ بھٹو شہید مردم شناس تھے اور اپنے اس طرز عمل میں حق بجانب تھے۔ 70ء کے انتخابات میں دھاندلی سے لے کر مخالفین کے اغوا ور قتل تک کو جسے بغض عمران میں غالبا متاثرین کے لواحقین بھلا چکے ہیں۔یاد ماضی عذاب ہو نہ ہو نیب اس سے بڑا عذاب ہے کیا کیا جائے۔۔چلیں ہم ماضی کو ایک طرف رکھتے ہیں۔ نانا کی بدزبانی کی سزا نواسے کو کیوں ملے۔حال کی بات کرتے ہیں۔عمران خان کے سیاست میں قدم رکھتے ہی ان کی مسلسل کردار کشی کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ان کا ماضی قوم کے سامنے کھلی کتاب کی طرح تھا جس کا اعتراف وہ خود کئی بار کر چکے۔دودھ کے دھلے صالح مخالفین نے ان کا ایک ایک معاشقہ جھاڑ پونچھ کر برآمد کیا اور بیچ چوراہے پہ دھر دیا۔ عمران خان خاموش رہے۔کہا میں توبہ کرچکا ہوں۔ صالحین نے قہقہے لگائے اور کہا ہم تو معاف نہیں کریں گے۔توبہ کے سرٹیفکیٹ تو ہم ہی چھاپتے اور ہم ہی جاری کرتے ہیں۔جمائمہ سے شادی کی تو طوفان برپا ہوگیا۔یہودیوں کا داماد یہودی ایجنٹ نہ ہوتا تو کون ہوتا۔ جلسوں میں کھلے عام انہیں یہودی ایجنٹ ہی نہیں یہودی کہا گیا۔مذہب کے ٹھیکے دار طنز کے نشتر چلاتے رہے ۔ایمان کے سرٹیفیکٹ بھی وہی چھاپتے اور وہی جاری کرتے۔۔ عمرا ن خان خاموش رہے۔ نواز شریف اور زرداری آرہے ہوتے اور جارہے ہوتے، عمران خان آرہا ہوتا اور جارہا ہوتا۔یہ حرکت بڑے بڑے ثقہ کالم نگاروں نے کی۔عمران خان خاموش رہا۔خورشید شاہ، طلال چوہدری ،دانیال عزیز ، رانا ثنا اللہ کون تھا جو عمران خان کے کردار پہ کیچڑ اچھال کر زیرلب نہ مسکراتا رہا۔عمران خان لیکن خاموش رہے۔سوشل میڈیا کا تذکرہ مجھے کچھ خاص گوارا نہیں لیکن ضروری ہے۔میں کم سے کم دس سال سے سوشل میڈیا پہ متحرک ہوں۔ میں نے تحریک انصاف کے نوجوانوں کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈا ہوتے اپنی ان گناہگار آنکھوں سے دیکھا ہے۔تمام ثقہ کالم نگار اور صحافی ایک ہی آموختہ دہراتے تھے۔ تحریک انصاف کے سپورٹر بدزبان ہیں،گالم گلوچ کرتے ہیں اور اگلے کی نسلوں میں اتر جاتے ہیں۔ایسا بے شک ہوا ہے لیکن میں گواہ ہوں کہ اگلے بھی کوئی دودھ کے دھلے نہیں ہیں۔بالخصوص جماعت اسلامی کے صالحین کی تسنیم و کوثر میں دھلی زبان کا میں براہ راست اور مسلسل نشانہ ہوں۔ مذہبی جماعتوں کے سپورٹرز نے سوشل میڈیا پہ اخلاق کی ہر حد پار کردی۔ لیکن سنا آپ نے یہی ہوگا کہ تحریک انصاف کا کارکن بدزبان اور گلیر ہے۔یہی کرپشن کے گوئبلز اور ان کے حواریوں کا طریقہ واردات ہے۔عمران خان اپنی کردار کشی پہ خاموش رہے۔ وہ جب بھی بولے کرپشن کے خلاف بولے ۔ انہوں نے چور کو چور،کرپٹ کو کرپٹ اور لٹیرے کو لٹیراضرور کہا۔عمران خان سے التماس ہے کہ وہ کسی کو صاحبہ نہ کہیں بس کسی صاحب کی کرپشن اس قوم کو بھولنے نہ دیں۔باقی جواب ان کی خاموشی دے رہی ہے۔