کہنے کو اک الف تھا مگر اب کھلا کہ وہ پہلا مکالمہ تھا مرا زندگی کے ساتھ اپنا تو اصل زر سے بھی نقصان بڑھ گیا سچ مچ کا عشق مر گیا اک دل لگی کے ساتھ کہتے ہیں شعر کی تفسیر کی جائے تو اس کا حسن تباہ ہو جاتا ہے۔ تاہم شعر کے مفہوم کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس سخن کے پیچھے یقیناً ایک مقصد ہمیں ابلاغ کرنا ہے۔ عمران خان کے ضمن میں ہمارے ایک دوست شاعر اور اینکر فرما رہے تھے کہ وہ خان کی سپورٹ کرکے شرمندہ ہیں اور بات کرتے ہوئے انہوں نے شرمندہ ہونے کیلئے دوچار لوگوں کو بھی بٹھا رکھا تھا۔ اور وہ تصدیق میں ان کے سر ہلوا رہے تھے۔ لگتا ہے محترم کو عوام کی تکلیف تو کم ہی تھی کچھ اپنا مسئلہ تھا۔ ہمارے ایک اور دوست نے بھی عمرانی دور کا عطا الحق قاسمی بننے کی کوشش کی مگر ان کی پذیرائی نہ ہو سکی۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ بھائی جان شرمندہ ہونے کی ایسی کون سی بات ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں ایوان عدل کے سالانہ مشاعرہ میں گیا تو سیکرٹری جنرل نے مجھے بلانے سے پہلے کہا کہ میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سپورٹ پر پہلے معافی مانگوں اور پھر کلام سناؤں۔ میں نے آتے ہی کہا کہ کس بات کی معافی I wrote for justice not for chief justice یعنی میں نے تو انصاف کیلئے لکھا تھا، اسی طرح عمران خان کی سپورٹ ہم نے بھی بے طرح کی کہ ہسٹری شیٹ میں وہ ایک ایماندار اور دیانتدار شخص ہے پھر اس نے جو وعدے کیے اور جس جذبے سے کیے تو ان پر ایمان نہ لانا ہی کفر نظر آ رہا تھا۔ شرمندگی تو تب ہوتی ہے کہ آپ کسی ڈاکو یا چور کی سپورٹ کرتے، ہم تو محبت میں بھی اس بات کے قائل ہیں کہ سچ کہہ دیتے ہیں۔ ہاں ہاں نہیں ہے کچھ بھی مرے اختیار میں ہاں ہاں وہ شخص مجھ سے بھلایا نہیں گیا باقی سیاست میں سب کچھ چلتا ہے وہ بھی سیاست سیکھ گیا اور پھر اس نے یوٹرن کو بھی کمال فن بنا دیا اور دانش و عقل کی علامت قرار دے دیا۔ اس نے صرف کہا ہی نہیں بلکہ عملی طور پر یوٹرن لے کر دکھائے۔ مگر کیا کریں کچھ زمینی حقائق بھی تو دیکھنا پڑتے ہیں۔ مثلاً سب سے اہم بات جسے پکڑ لیا گیا وہ ہے آئی ایم ایف کے پاس جانا۔ اگرچہ یہ کوئی نئی بات نہیں مگر خان کے حوالے سے زیادہ محسوس ہوئی کہ اس نے کنٹینر پر چڑھ کر بارہا اعلان کیا تھا کہ وہ کسی بھی صورت آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائے گا مگر پھر اس شاعر کی طرح اس نے بھی محسوس کیا جس نے کہا تھا: جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار اے کاش جانتا نہ تری رہگزر کو میں بار بار آئی ایم ایف کے پاس جانے والے یہ تک کہہ رہے ہیں کہ خان نے آئی ایم ایف کے ہاتھ ملک کو گروی رکھ دیا ہے حالانکہ ملکی اثاثے گروی رکھنے والے سابقہ حکمران ہیں۔ ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ خان آنے والے پیچیدہ مسائل کا ادراک نہیں کر سکا کہ قرض کی قسطیں ادا کہاں سے کرنی ہیں اور قومی اثاثے کیسے بچانے ہیں۔ کوئی سابقہ حکمرانوں سے پوچھے کہ آپ نے اتنے قرض کیا کیے اور وہ بانڈز کیوں بیچے جن کے تحت تقریباً پچاس فیصد منافع دینا پڑے۔ خان کو وہی کام کرنا پڑ رہے ہیں جو سابقہ حکمران کرتے تھے۔ مثلاً اب ضرورت پڑ گئی ہے کہ کالے دھن کو نکلوایا جائے جس کیلئے ٹیکس ایمنسٹی سکیم آ گئی جس میں فائدہ اٹھانے والوں کے نام خفیہ رکھے جائیں گے۔ لامحالہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی چیخ اٹھے ہیں کہ ’’ہماری ایمنسٹی حرام‘ آپ کی حلال‘‘ وہ درست پوچھ رہے ہیں کہ کون کسے نواز رہا ہے۔ جب ن لیگ یہ سکیم لائی تھی تو عمران اور اسد عمر نے ان پر لعنتیں ڈالی تھیں: وہ آپ کی زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی اس صورتحال کا لطف ہی اٹھایا جا سکتا ہے۔ سیاست میں کچھ بھی حتمی نہیں ہوتا۔ مسئلہ معیشت کا ہے جو ڈوب مری ہے اور اسے کسی نہ کسی انداز میں بچانا ہے جن سے بیل آؤٹ لیا ہے ان کی بات بھی تو ماننا پڑے گی اور پھر کالا دھن رکھنے والوں سے بھی کسی طرح پیسے نکلوانے ہیں۔ یہ کالا دھن 4 فیصد ٹیکس ادا کرنے پر سفید اور پاک ہو جائے گا۔ چلیں یہ مان لینے میں کیا حرج ہے کہ خان ان کے کاموں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس پر تو ن لیگ والوں کو خوش ہونا چاہئے۔ اس میں شک نہیں کہ حکومت نے غلطیاں کیں اور اس میں پالیسیاں بھی شامل ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی ایسی پوسٹیں لگتی ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہنسی آ جاتی ہے لیکن یہ بھی زندگی ہے۔ تھوڑا سانس لیا جائے اور کیا بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایک شخص نے لکھا کہ کچھ بنکوں کے سربراہ سائیکل پر دفتر جاتے ہیں۔ انشاء اللہ کچھ عرصہ تک پاکستان میں ہر شخص سائیکل پر کام کیلئے جایا کرے گا۔ دوسرے نے خان صاحب کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ ’’خان صاحب! ہمیں ذرا سا گھبرا تو لینے دیں‘‘ واقعی اس شخص کو گھبرانے کی اجازت مل جانی چاہئے۔ بات یہ ہے کہ ہم نے خان صاحب پر اعتماد کیا اور اب تک کئے ہوئے ہیں۔ آپ اسے دل لگی کہہ لیں یا عشق۔ نقصان تو بڑھے گا۔ پھر ’’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘ تھوڑا حوصلہ تو کرنا چاہئے۔ اس شعر کے مصداق: مجھ سا کوئی جہان میں نادان بھی نہ ہو کرکے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو یہ تو آپ جانتے ہیں کہ کپتان کبھی ہارا نہیں۔ وہ ہر کمزور شخص کے ساتھ کھڑا ہے مثلاً آج شیخ رشید نے بتایا کی عمران بزدار کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ویسے تو بزدار کو عمران کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔ سچ یہ کہ شیخ رشید کے ساتھ بھی عمران ہی کھڑے ہیں لیکن عوام کا سوال اپنی جگہ کہ ان کے ساتھ کون کھڑا ہو گا، وہ تو لڑ کھڑا رہے ہیں۔ ہمیں تو خوشی اس بات کی ہے ایسی صورتحال میں بھی بزدار ضلعوں کے طوفانی دورے کر رہے ہیں۔ رمضان بازاروں کے جائزے لے رہے ہیں۔ لیکن ایک طرف خیال آتا ہے کہ اتنے قیمتی اور اہم آدمی کو کس کام پر لگا دیا گیا ہے کہ سبزیوں کے ریٹس اور دالوں کا بھاؤ معلوم کرتا پھرے۔ عوام کو تو یہ بھاؤ پہلے ہی معلوم ہو چکے ہیں۔ عوام پریشان نہ ہوں ’’انہی بے ربط خوابوں سے کوئی تعبیر نکلے گی‘‘۔ خالد احمد کے ایک خوبصورت مگر خونی شعر کے ساتھ اجازت! شہر جاگے تو ہمیں خون میں تر دیکھیں گے سنگ آنکھیں نہیں رکھتے ہیں کہ سر دیکھیں گے