اچھا لگتا ہے مجھے گل تو بجا لگتا ہے وہ بھی میری ہی طرح محو دعا لگتا ہے خان صاحب نے قوم سے خطاب کر لیا اور معرکتہ الآرا جملہ کہہ دیا‘ کرونا وائرس جلد پھیلتا ہے، گھبرانا نہیں‘ مل کر لڑیں گے۔ یہ بھی انہوں نے پتے کی بات کی کہ عوام کو احتیاط کرنی ہے۔ آ پ نے ہاتھ نہیں ملانا‘ چھینک نہیں مارنی اور وغیرہ وغیرہ یعنی انہوں نے قومی پالیسیاں بیان کر دیں۔ دنیا سے قرض معافی کی اپیل کر دی کہ اس نازک موقع پر آئی ایم ایف کا قرضہ ادا کرنے کے قابل نہیں ہونگے۔ تفصیل چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ سوشل میڈیا پر اکثریت نے خان صاحب کے خطاب کا خلاصہ بیان کر دیاہے کہ جاگتے رہنا وزیر اعظم پر نہ رہنا‘ کیا کہا جائے’خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے‘ مذاق اڑانے والے بھی حد کرتے ہیں! اب بتائیے کہ خان صاحب اس بدبخت کرونا کا کیا کر سکتے ہیں۔ امریکہ چین اور یورپ کے لوگ سپر انداز ہو گئے ہیں ۔ پورے یورپ میں ہو کا عالم ہے اور میڈیا پر نفسی نفسی کی صدا ہے، گویا حشر بپا ہے۔ شیر سامنے آجائے تو بندہ کیا کر سکتا۔ پھر تو جو کرے گا شیر ہی کرے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک حوالے سے خان صاحب نے درست کیا کہ قوم کو غلط فہمی میں نہیں رکھا بلکہ الرٹ کر دیا ہے کہ اپنا اپنا بندوست کر لیں۔ خان صاحب کا مراد علی شاہ سے موازنہ کیا جارہا ہے کہ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ حکومت مقدور بھر مریضوں کی مدد کرے گی۔ میڈیکل ایمرجنسی کے تحت ٹیسٹ فری ہیں‘ سکھر اور نواب شاہ میں آئسو لیشن سنٹر ہزار ہزار مریضوں کے لئے قائم کر دیے گئے ہیں۔ جبکہ خان صاحب نے کہا کہ یہ کروں گا اور وہ بنائوں گا ، دیکھنے والے یہ بھی تو دیکھیں کہ خان صاحب وزیر اعظم ہیں انہیں پورے ملک کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا ہے اور ملک غریب ہے‘ وسائل نہیں اور اس پر بے تحاشہ قرض۔ سب کچھ تو ڈاکو اور چور کھا پی کر باہر بھاگ گئے، خان صاحب کو یاد نہیں رہا کہ یہ کرونا بھی انہی کی چھوڑی ہوئی نحوست کے باعث پاکستان میں آیا۔ خان صاحب قوم کو بار بار ریلیف دینا چاہتے ہیں مگر حالات ہیں کہ بار بار مہنگائی لے آتے ہیں۔ یہ انہی بھاگے ہوئے لٹیروں کے معاہدے ہیں جو اثر پذیر ہیں۔ اب کہنے والے کہتے ہیں کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں ریکارڈ کم ہو گئی ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ ہماری قوت خرید بھی تو کم رہ گئی ہے۔ چھوڑو ان باتوں کو آپ ہمت کریں ۔ راستے خود نکل آئیں گے: کس نے سیکھا ہے نقش پا رکھنا پیر اٹھایا تو آ گیا رکھنا ویسے گھبرانے کی ضرورت واقعی نہیں ہے کہ خان صاحب قوم کے ساتھ مل کر کرونا سے لڑیں گے۔ کچھ لوگوں کو ویسے ہی بولنے اور تنقید کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ خان صاحب کا یہ بیانیہ کہ حکومت کچھ نہیں کر سکتی کوئی نیا بیانیہ ہرگز نہیں ہے۔ خان صاحب پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ نوکریاں نہیں دے سکتے‘ سکون صرف قبر میں ممکن ہے اور انہیں مہنگائی کا احساس ہے۔ اصل میں خان صاحب خود انحصاری کے سنہرے نعرے کے ساتھ مشکل بلکہ ناپسندیدہ فیصلے کر رہے ہیں وہ قائد اعظم کے تتبع میں حکومت یعنی غریب حکومت پر ہرگز بوجھ نہیں ڈالیں گے۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ انہوں نے بے روزگاری کا حل یہ نکالا کہ طعام خانے کھول دے اور اس کے بعد آرام گاہیں ہیں کہ قیلولہ کیا جا سکے۔ درآمدات کم سے کم کر دیں۔ خیر چھوڑیں اس بات کو یہ دیکھیں کہ طعام گاہیں اور آرام گاہیں بھی انہوں نے مخیر حضرات سے بنوائیں ہیں۔ حکومت کا بوجھ نہیں بڑھنے دیا اور تو اور چینی اور آٹے کی اگر سمگلنگ ہوئی ہے اور اس میں موجود ان کے کرتا دھرتا تھے تو یہ سب کچھ بھی باہر باہر اور بالا بالا ہوا۔ حکومت کا نقصان نہیں ہوا۔ آپ اس خوشی میں آصف شفیع کے شعری مجموعے ’’پیار سزاواں‘‘ کے دوسرے ایڈیشن سے دو تین شعر پڑھیے اور سردھنیے: رُکھاں وانگوں سایہ کر لوکاں دے کم آیا کر شکلاں دھوکہ دیندیاں نیں شکلاں تے نہ جایا کر تیر جدوں کوئی چل جاندا اے نال ہواواں رَل جاندا اے میرے پیارے قارئین! شعروں سے بریک لینا ایک خوشگوار عمل ہے۔ میں آپ کو دوبارہ موضوع کی طرف لا کر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جہاں وبا سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر ضروری ہیں وہیں کچھ اور کام ضروری ہیں جن کا تعلق مکمل طور پر ہمارے ارادے کے ساتھ ہے۔ معروضی صورت حال تو سب بتاتے ہیں کہ ہاتھ اچھی طرح دھونے ہیں‘ میل جول کم کرنا ہے اور سلام تک ہاتھ سے نہیں لینا وغیرہ وغیرہ ،مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ آپ نے اپنے آپ کو بھی تیار کرنا ہے کہ آپ کے اندر قوت مدافعت بڑھ سکے۔ اپنی طاقت کو بحال رکھنا ہے‘ کھانے پینے میں ایک مطابقت رکھنی ہے۔اپنے آپ کو ایگزاسٹ نہیں کرنا۔ یعنی بے مقصد کاموں میں خود کو بے کار میں نہیں تھکانا۔ موسم میں تمازت آئے گی تو قدرتی طور پر بھی آپ کی قوت مدافعت بڑھے گی اور وائرس سست پڑ جائے گا۔ یہ وقتی سی آزمائش ہے انشاء اللہ جلد گزر جائے گی۔ مجھے خیال آیا کہ یہ جو آئسولیشن ہے یہ بھی تو آرام کر کے توانائی یکجا کرنے کا موقع ہے۔ یعنی اس میں خود بھی بندہ محفوظ رہتا ہے اور دوسرے بھی۔ الگ تھلگ رہ کر خود کو سم اپ کرنا یعنی محتمع کرنا بھی ایک اچھا عمل ہے۔ یہ قرنطینہ یعنی کا تذکرہ کر رہا ہے‘ یہی ہے کہ وبا کے مریض کو تنہا رکھا جائے کہا جاتا ہے کہ بہت صدیاں پہلے یہ رائج تھا کہ دور دراز سے آنے والوں کو چالیس دن تک تنہائی میں رکھا جاتا تھا۔ یہ چالیس دن والی بات بھی کمال ہے کہ تبلیغی جماعت والے بھی چلہ لگانے یعنی چالیس دن گزارنے کی بات کرتے ہیں کہ بندہ جب تک دینی ماحول میں نہیں رہے گا دین اور تبلیغ کی اہمیت نہیں سمجھ سکتا۔ عام طور پر ہمزاد قید کرنے والے بھی چلہ کاٹتے ہیں۔ مگر وبا کا شکار یا شکار ہونے سے بچنے کے لئے چالیس دن تک الگ تھلگ رہنا اصل میں ایک قسم کا یوگہ ہے کہ تنہا رہ کر اپنے آپ کو توانائی مہیا کی جائے۔ جو بھی ہے مزارات تک بند ہو گئے ہیں۔ ان کا کیا بنے گا جو اپنی کھا کر مالک کے لئے آتے تھے۔ یہ بھی اچھا ہے کہ قیدیوں کی کچھ سزا معاف کر دی گئی ہے مگر اتفاق ہے کہ سعد اور سلمان رفیق میرٹ پر باہر آ گئے ہیں۔ عدلیہ نے دلچسپ بات کی کہ کوئی نیب قانون کا مذاق نہ اڑائے۔ سراج الحق نے سب سے اچھی بات کی کہ اس افراتفری میں مزدور بے کار ہے۔ کم آمدن والوں کے بجلی گیس کے بل معاف کئے جائیں۔ یہی بات خان صاحب نے عالمی برادری سے کہی ہے کہ عالمی برادری پاکستان کے قرضے معاف کرے۔