کچھ صحافتی برزجمروں نے تہیہ کررکھا ہے کہ کسی کام کا کریڈٹ عمران خان کو نہیں دینا ہے۔ یہ وہ عظیم صحافتی لائٹ ہاوس ہیں جن کی مستعار روشنی میں گزشتہ حکومتیں آنکھ پر پٹی باندھے اقتدار کی کشتیاں امن و شانتی سے کھیتی رہی ہیں۔معاف کیجیے گا ان میں سے کچھ نے تو باقاعدہ ان کشتیوں کے لئے چپو کا کام بھی دیا ہے۔ان ہی میں سے چند کو جمہوریت ہر آن خطرے میں محسوس ہوتی ہے کیونکہ عمران خان برسراقتدار آگئے ہیں۔ میثاق جمہوریت کی گاڑی کس روانی سے شاہراہ دستور پہ بگٹٹ دوڑتی پھر رہی تھی کہ اچانک عمران خان کا اسپیڈ بریکر راستے میں آگیا ۔ سارا مزہ کرکرا ہوگیا۔ وہی الیکشن جو اس سے قبل غالبا اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بغیر صاف شفاف ہوا کرتے تھے اچانک میچ فکسنگ نظر آنے لگے کیونکہ یہ تو ممکن ہی نہیں تھا کہ عمران خان باری لے جائے لہٰذا جمہوری عمل اور رجلان کار دلیل کی موت مارے گئے یعنی یکایک اور بری طرح۔ان ہی میں سے کچھ کا مسئلہ صرف روز ابر و شب ماہتاب میں آب مستی کی بلاتعطل فراہمی ہے جو کسی دور میں لاہور کی سڑکوں پہ پانی کی طرح بہا کرتا تھا۔کیا ہی بھلے تھے وہ دن جب ہر روز روز عید تھا ہر شب شب برات۔ ادھر سے جام لنڈھاتے نکلے تو ادھر جام لنڈھاتے پائے گئے۔جہاں میں اہل جم صورت خورشید جیتے تھے۔ صحافت کے یہ عظیم شناورثا بت کردیں گے کہ نپولین واٹر لو کی جنگ کبھی نہ ہارتا اگر جم خانہ لاہور کا نمازی بیرا جام کو ہاتھ لگا کر پینے والوں کا دھرم بھرشٹ نہ کردیتا۔انہیں مے سے غرض محض نشاط ہے ،بے خودی تو روکھن میں ساتھ آتی ہے۔ ان میں سے کچھ وہ ہیں جو عمران خان کے برسراقتدار آجانے کو من جانب اللہ ،تقدیر کا لکھا مان کر مارے باندھے قبول کرلیتے ہیں لہٰذا تنقید میں بھی تحمل کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ یوں سمجھئے پل صراط پہ بادل نخواستہ متوازن چلنے کی کوشش کررہے ہیں کہ قاری کے پیٹ کا پانی نہ ہلنے پائے۔یہ مہان لوگ ہیں۔ان کا لا شعورگزرے برسوں میں ایسا ٹرینڈ ہوگیا ہے کہ یہ صبح اٹھتے ہی دائیں ہاتھ سے ٹٹول کر عینک لگا لیتے ہیں اور اٹھ کر بیٹھتے ہی پائوں سے ٹٹول کر چپل پہن لیتے ہیں۔ جس دن ہر دو نے جگہ تبدیل کرلی یعنی اول الذکر نے آخر الذکر سے، تو ان کی دنیا اندھیر ہوجاتی ہے۔یہ تو حکومت ہی تبدیلی کے نام پہ آئی ہے۔ان کی اذیت فطری بھی ہے اور دوگنی بھی۔مجھے ان کی نیت پہ ہرگز شک نہیں۔فطرت پہ کیا شک کرنا۔انہوں نے خون آشام تحریکیں دیکھی ہیں۔ آمروں کے خلاف تحریکیں چلائی ہیں۔جمہوری آمروں کے خلاف بھی یہی کیا ہے تاوقتیکہ وہ کیفر کرداریعنی تختہ دار تک نہ پہنچ گیا۔پھر اسلام کے نام پہ گیارہ سال آمریت جھیلی ہے۔ اس آمریت کا طرفہ تماشہ یہ تھا کہ اس آب زم زم میں اسلام پسندوں نے بھی غسل صحت کیا اور ترقی پسندوں نے بھی۔پھر مشرف کا دور آیا اور وکلا تحریک چلی۔این آر او ہوا اور پینسٹھ لوگوں کا مبینہ قاتل سندھ میں گورنر لگا گٹار بجاتا رہا۔ بھٹو کی بیٹی اسی این آر او کے تحت پاکستان آئی جس کے شوہر نامدار نے مسٹر ٹین پرسنٹ ہونے کا شرف حاصل کیا۔یہ خیال ہی عبث ہے کہ انہیں اپنے نصف بہتر کے کرتوتو ں کا علم نہیں تھا۔ مجھ سے زیادہ باخبر لوگ صحافت کے میدان کے شہسوار ہیں ان سے کیا کہنا کہ مسٹر ٹین پرسنٹ ایک ملاقات کے کتنے دھروالیتے تھے۔اسی این آر او کے ساتھ میثاق جمہوریت بھی ہوا جس میں یہ طے کرلیا گیا تھا کہ پاکستان میں اب دو جماعتی نظام چلے گا۔اس دوئی میں کسی تیسرے کی گنجائش نہیں تھی۔اس پہ سب راضی تھے۔مندرجہ بالا تمام حضرات۔انہیں سکون سا محسوس ہوا کہ اب تحریکیں نہیں چلانی پڑیں گی۔ایک دو بار فوج کو چھیڑ کر چیک بھی کرلیا گیا۔ادھر سے کوئی ریسپانس نہ پا کر مزید سکون محسوس ہوا لیکن جیسا کہ آج ان میں سے ایک نے تسلیم کرلیا کہ دنیا بدل رہی ہے، پاکستان بھی بدل گیا۔ اس تبدیلی میں نہ تحریک چلی، نہ خون بہا نہ کسی کو جمہوریت کے میڈل پہننے اور پہنانے کا موقع ملا۔ ایک سو بیس دن کے دھرنے میں لوگوں کے سوچنے کا انداز بدل گیا۔ انہیں احساس ہوگیا کہ ان کے حقوق کیا ہیں اور کس طرح حاصل کئے جاتے ہیں۔مجھے تحریک انصاف سے کوئی بلا مشروط عشق نہیں ہے۔ ہاں مجھے یہ یقین ہے کہ عمران خان کے بدترین ناقد بھی ہر قسم کا ٹھٹا اڑانے کے باوجود اس پہ کرپشن کا الزام لگانے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ میں بدعنوانی اور لوٹ مار کی غلاظت میں لتھڑے ہوئے لوگوں کے مقابلے میں اس شخص کا ساتھ کیوں نہ دوں جس نے عوام کو یہ شعور دیا کہ وہ کیڑے مکوڑوں سے بلند کچھ شے ہیں اور ان کی ایک عزت نفس ہے جس پہ سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ عمران خان کی ذات تنقید سے بالا ہے نہ اس سے اختلاف کوئی کفر۔ممکن ہے ان میں اس اہلیت کی کمی ہو جو اس ملک کی سیاست میں محاورہ بن گئی ہے۔ ایک بات لیکن سمجھ لینی چاہئے ۔تحریک انصاف کا حامی روایتی خاندانی سیاست ، اقتدار کی ذاتی جنگ اور اس کے نتیجے میں اپنی تجوریاں بھرنے والوں سے تنگ آچکا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ کبھی عمران خان کے ساتھ نہ کھڑا ہوتا۔ وہ جو عمران خان پہ احتساب کے نام پہ انتقامی سیاست کے ذریعے جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کا الزام لگاتے ہیں وہ ان کے کروڑوں ووٹروں کی توہین کرتے ہیں۔جنہیں آج پتا چلا ہے کہ دنیا بدل گئی ہے ان کی خدمت میں میں نے انتخابات سے قبل ہی عرض کیا تھا کہ منی لانڈرنگ اب ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہے اور بدلتے عالمی منظرنامے میں لوٹ مار کرنے والوں کو حساب دینا ہوگا۔ پاناما پیپرز اسی سلسلے کی کڑی تھی اور اس کا اجرا اسی بدلتے تناظر میں تھا۔انہوں نے کیسے سمجھ لیا تھا کہ پاکستان اس سے محفوظ رہے گا۔آج نواز شریف اپنے کئے کی جو سزا بھگت رہے ہیں وہ پاناما پیپرز کا ہی تسلسل ہے۔ اس میں عمران خان کا یہ کردار ضرور ہے کہ اس ایشو کو انہوں نے مرنے نہیں دیا اور ایک سو بیس دن کے دھرنے میں پاکستان کے بچے بچے کو رٹا دیا کہ اس کا حق کون کہاں کھاتا رہا ہے۔کسی کو احتساب پہ اعتراض ہے تو کھل کر کہے کہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے۔ اگر یک طرفہ احتساب پہ اعتراض ہے تو عدلیہ سے رجوع کرے۔عمران خان نے بھی اپوزیشن میں رہتے ہوئے یہی کیا تھا اور عدلیہ کا بظاہر اپنے خلاف آنے والا فیصلہ تسلیم کیا تھا جس پہ فریق ثانی نے مٹھائیاں بانٹی تھیں۔ کل عدالتوں کو کینگرو کورٹس کہنے والے ، چمک کا طعنہ دینے والے اور عدلیہ پہ حملے کرنے والے اگر آج عدالتی فیصلوں کو تسلیم کررہے ہیں تو یہ روایت بھی تحریک انصاف کی ڈالی ہوئی ہے ورنہ اس ملک میں یہ کلچر کب تھا۔ چار ماہ کی حکومت نے کتنے چہرے بے نقاب کردئیے ہیں۔