مجھے اپنے ادارے روزنامہ 92نیوز میں 2018ء کا الیکشن مکمل طورپر کوَر کرنے کا موقع ملا۔یکم جولائی سے چوبیس جولائی تک کم و بیش چھتیس اضلاع کے این اے سطح کے حلقوں کا جائزہ لیا گیا۔چوبیس جولائی کو باسٹھ حلقوںکا مختصر جائزہ دوصفحات میں پرنٹ ہوا،اس میں جیت ہار کے جو اندازے باندھے گئے،اُن میں لگ بھگ چھیالیس حلقوں کے اندازے ٹھیک بیٹھے۔ مولانافضل الرحمن کے دونوں حلقوں کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ مولانا کی پوزیشن کمزور ہے اور یہ دونوں حلقے اُن کے ہاتھ سے نکل جائیں گے،الیکشن نتائج کے بعد ایسا ہی ہوا۔مَیں نے یکم جولائی سے قبل ،جو کہ الیکشن کا مہینہ تھا،ملک کے نمایاں انتخابی سیاست کے ماہرین کے سنڈے میگزین میں انٹرویو بھی کیے،یہ ماہرین انتخابی اُمور میں اَتھارٹی تصور کیے جاتے ہیں۔اِن ماہرین کے زیادہ ترتجزیے پاکستان تحریک انصاف کے حق میں تھے ۔ مزید براں جن حلقوں کو کَور کیا تھا،وہاں کے مقامی سیاسی تجزیہ نگاروں سے روازنہ کی بنیاد پررائے لیتا رہا ،الیکشن سے قبل مَیں اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ عمران خان وزیرِ اعظم بن جائیں گے اور یہ الیکشن بھی مجموعی طورپر’’ عوام کی آواز‘‘ثابت ہوگا۔میرا یہ ماننا ہے کہ ملکی تاریخ کے تمام عام انتخابات کے نتائج مجموعی طورپر ’’عوام کی آواز‘‘ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں دھاندلی تین طرح سے ہوتی آئی ہے۔اس پر پھر کسی اور موقع پر بات ہو گی۔ تمام نوع کی دھاندلی کے باوجود انتخابات کے نتائج ’’عوام کی آواز‘‘ ہی ٹھہرتے ہیں۔ چلیں! اس کی ایک مثال اُنیس سواَٹھاسی کے انتخابات کی لے لیں۔تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود،محترمہ بے نظیر بھٹو کامیاب ہوکررہیں۔دوہزار آٹھ سے دوہزار اَٹھارہ تک کے انتخابات میں دھاندلی ،اُس طرح کارفرمانہ رہی ،جس طرح گذشتہ انتخابات میں ہوتی رہی،بہرحال دھاندلی جس نوعیت کی بھی ہو،وہ ’’عوام کی آواز‘‘کو نہیں دَبا سکتی۔معاملہ یہ ہے کہ انتخابی عمل کے حوالے سے ہمارے ہاں بہت سارے مفروضے ستر کی دہائی سے چلے آرہے ہیں۔مثلاًبعض اُمیدوار الیکٹ ایبلز تصور کیے جاتے ہیں۔ہر بار بڑی پارٹیاں ،ان کو ٹکٹ دینے کی کوشش کرتی ہیں۔یہ دیکھے اور جانے بغیر کہ جس کو الیکٹ ایبلز سمجھ کر ٹکٹ دیا جارہا ہے ،اُس نے آخری الیکشن کب جیتا تھا۔دوہزار اَٹھارہ میں بھی ایسا ہی ہوا،ایسے کئی اُمیدواروں کو ٹکٹ دیے گئے ،جنہوں نے آخری الیکشن دوہزار دوکا جیت رکھاتھا،پھر بعض الیکٹ ایبلز تصور کیے جانے والے اُمیدوار تب تب جیتے ،جب جب اُن کی پارٹی جیتی،تب تب ہارے جب جب اُن کی پارٹی ہاری لیکن اس کے باوجود یہ الیکٹ ایبلز ہیں ،اسی طرح ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ فلاں اُمیدوار گدی نشین ہے اور اس کے پاس عقیدت کا ووٹ بینک ہے ،یوں یہ بھی الیکٹ ایبلز ہے۔اِس نوع کے بعض الیکٹ ایبلزکی ہارجیت کا معاملہ بھی ویسا ہی نکلتا ہے ،جو اُوپر بیان کیا گیا ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں میاں نوا زشریف کی تقریر کے بعد بحث چھڑ چکی ہے ۔میاں نواز شریف پر تنقید کرنے والے یہ سوال اُٹھارہے ہیں کہ اِن کو تین بار وزیرِ اعظم کس نے بنوایا تھا؟اسی طرح عمران خان پر تنقید کرنے والے یہ سوال اُٹھارہے ہیں کہ عمران خان کو،کون لایا تھا؟یوں ’’لانے والوں‘‘کی جانب تنقید کا رُخ موڑا جارہا ہے۔مگر مَیں پھر یہ کہوں گا کہ ’’لانے والوں‘‘کا محض تاثر قائم ہوجاتا ہے ،اصل میں لانے والے عوام ہوتے ہیں۔یہاں دہرانا معیوب نہیں ہوگا کہ ہر انتخابات کے مجموعی نتائج ’’عوام کی آواز‘‘ ہوتے ہیں۔لیکن ایک بہت اہم سوال یہ ہے کہ ’’لانے والوں‘‘پر بیچ میں بات کہاں سے آجاتی ہے؟یہ سوال ہر دَور کے وزیرِ اعظم کی ’’کارکردگی‘‘میں مضمر ہوتا ہے۔اگر وزیرِ اعظم اور اُن کی حکومت اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں ،گڈ گورننس کا خیال رکھیں،پارلیمان کو توقیر دیں ،اپوزیشن جماعتوں کے مطالبات پر سیخ پانہ ہوں اور اُن کو باہمی مشاورت کا حصہ بنائیں تو وزیرِاعظم کے بارے تاثر یہ بنے گا کہ اِن کو عوام لائے ہیں ،اگرچہ عام انتخابات میں دھاندلی کے وہ تمام حربے استعمال کیے گئے ہوں ،جو ماضی میں کیے جاتے رہے ہیں۔حتیٰ کہ اگر وزیرِ اعظم اور اُن کی حکومت عوام کو ڈیلیور کرنے میں ناکام ٹھہرتی ہے ،مگر وہ اپوزیشن کو ناراض نہیں ہونے دیتی اور اپوزیشن جماعتیں نظام کو پٹری سے اُتارنے کی کاوش نہیں کرتیں تو تب بھی ’’عوام کی آواز‘‘کا تاثر قائم ہوگا۔دوہزار آٹھ سے دوہزاراَٹھارہ تک پیپلزپارٹی اور پی ایم ایل این برسرِ اقتدار رہیں ،دونوں پارٹیوں نے بعض موقعوں کو چھوڑکر ایک دوسرے کا ساتھ دیا ،اس عرصہ میں ’’لانے والوں‘‘کا تاثر دَم توڑ گیا۔ وزیرِ اعظم عمران خان جس الیکشن کے بعد وزیرِ اعظم بنے ہیں ، اُس الیکشن کا نتیجہ بھی ’’عوام کی آواز‘‘ کی بدولت تھا، اگرچہ دھاندلی اورر وایتی حربوں سے انکار نہیں۔لیکن اقتدار کے دوبرس کے اندر وزیرِ اعظم عمران خان نے پارلیمان کو اہمیت نہ دی، ایسے لوگوں کی کابینہ بنائی ،جن میں زیادہ تر کی Constituency بھی نہیں،ایک ایسے شخص کو پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ بنایا ،جو ابھی تک خود کو وزیرِ اعلیٰ ثابت کرنے سے قاصر ہے۔وزیرِ اعظم عمران خان نے عوام کو دکھائے کسی ایک خواب کی تعبیر کی طرف اپنا سفر شروع نہیں کیا،مہنگائی بڑھتی چلی جا رہی ہے، لوگ بے روزگار مارے مارے پھِر رہے ہیں،پڑھے لکھے بیروزگار نوجوانوں کی تعداد روزہ بہ روز زیادہ ہورہا ہے ،مستزاد پارٹی کے لوگ ایک دوسرے سے گتھم گتھا رہتے ہیں ،پولیس کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے،پنجاب کے چھے آئی جی تبدیل کرکے بھی، کارکردگی جوں کی تُوں ہے ،ایک نوجوان جس کا ڈی این اے ریکارڈ بھی موجود تھا،کئی دِن سے پنجاب پولیس کے ہتھے نہیں چڑھ رہا۔ جیسے جیسے حالات ابتر ہوتے جائیں گے ، عمران خان پر تنقید زیادہ ہوگی اور یہ تنقید ’’عوام کی آواز‘‘کا گلا دَبا کر یک رُخا تاثر قائم کروانے میں کامیاب ہو جائے گی۔فیصلہ وزیرِ اعظم نے کرنا ہے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر اپنی پالیسیوں اور اندازِ سیاست پر نظر ثانی کرکے خود کو عوام کا وزیرِ اعظم ثابت کرتے ہیں یا پھرمیاں نواز شریف کی طرح اپنا یہ تاثرقائم کرواتے ہیں کہ اِن کو تین بار اسٹیبلشمنٹ نے وزیرِ اعظم بنوایا۔پاکستان تحریک انصاف کے لیے یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔