کئی دنوں سے حرف و معنی کی دْنیا پہ خْشک سالی سی تھی یا پھر شاید ہنگامہ ہائے زندگی میں تخلیقی یکسوئی کی کیفیت پیدا ہی نہیں ہو رہی تھی سو کالم تعطل کا شکار ہوتا چلا گیا۔ بس یونہی بے سود و ثمر مصروفیات کا انبار اپنی گرفت میں لیے رہا ، اک گردشِ بے مایہ تھی جو گھیرے میں لیے رہی۔ کبھی کبھی تو انسان سلسلہ ہائے روز وشب میں ایسے الجھتا ہے کہ حکایت کیا شکایت کا موقع نہیں ملتا۔ ایسے میں ہم ہجرت زدوں کو سر سبز درختوں کے درمیان بل کھاتے راستوں پر گاڑی دوڑاتے ہوئے اکثر خورشید رضوی صاحب کے یہ شعر بہت یاد آتے ہیں ؎ وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جْڑ سکی یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا گئے جو کْھلی کْھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں یہ جو زہرخند سلام تھے مجھے کھا گئے وہ تو بھلا ہو ارشاد عارف صاحب کا کہ انہوںنے اپنی مخصوص شائستگی کے ساتھ احساس دلایا کہ ’کالم کہانی‘ کی صورت میں یہ ادبی و صحافتی عرضِ حال بھی میرے فرائض میں شامل ہے۔ ان کے فون کے فوراً بعد ہی سعید سے کہا کہ دیکھیے یہ آپ کی صحرائی لکھنے والی بیوی ایک آدھ دن کو اپنے حصّے کی خاموشی چاہتی ہے تاکہ ذات سے کائنات تک مکالمہ وضع ہو سکے تو جواباًوہ حیرت بھری معصومیت سے بولے ’’ مَیں تو خود سوچ میں ہوں کہ تْم لکھ کیوں نہیں رہیں؟‘‘۔۔ شادی کے رشتہ میں دوستی کے پہلو کا سب سے بڑا نقصان یہی ہے کہ کبھی کبھی تو طعنہ و طنز کی سہولت سے استفادہ کرنا بھی ممکن نہیں رہتا۔ بات سے بات نکلی ہے تویاد آیا کہ کچھ عرصہ پہلے ’ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘ والے معروف شاعر شعیب بن عزیز صاحب کاسڈنی آنا ہوا۔ وہ ہمارے ہی مہمان تھے سو ہمارے گھر میں قیام کیا۔ بہت خوشگوار وقت گزرا اور حسبِ معمول تفریح کے لیے اہم مقامات پر بھی جاتے رہے۔ سعید نے کیونکہ چھٹیاں لی ہوئی تھیں اس لیے ایک وقت میں دونوں اکٹھے تھے جو کہ مغربی طرزِ زندگی میں کم کم ہی ہوتا ہے۔ شعیب صاحب کی پختہ عادت ہے کہ چائے صرف اپنے ہاتھ کی بنی پیتے ہیں، کسی اور کی بنائی گئی چائے کو شرفِ قبولیت نہیں بخشتے۔ سو ہمارے کچن میں اپنی پسند کے برتن منتخب کرکے بہت اہتمام سے چائے بناتے اور محبت سے پِلاتے۔ ایک روز یوں ہی چائے کا دور چل رہا تھا کہ شعیب صاحب کہنے لگے ’’میرا دعویٰ ہے کہ مَیں شادی شْدہ جوڑے کو دْور سے آتے ہوئے دیکھ کر بتا سکتا ہوں کہ ان دونوں میں سے مظلوم کون ہے؟ لیکن اس ہفتہ بھر میں مَیں یہ نہیں جان سکا کہ آپ دونوں میں سے مظلوم کون ہے ؟‘‘۔ مَیں نے گزارش کی کہ جناب ایسی صورتِ حال میں دونوں ہی مظلوم ہوتے ہیں۔ آسٹریلیا میں آج کل جس طرف دیکھو دْور دْور تک بہارکے رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔ یوں تو پورے مْلک میں ہی سبزہ و گْل کی ٹولیاں سرگوشیوں میں مصروف نظر آتی ہیں مگر سڈنی میں تو جیسے کاسنی رنگ کی بہار آتی ہے،اس دلربا رنگ کے چھوٹے بڑے پْھول دھرتی سے بادلوں تک عجب سحر انگیز سا منظر نامہ سجا دیتے ہیں۔ یہاں ’جیکے رینڈا‘ کے درخت جب پتّوں سے اپنے وجود کو آزاد کرکے کاسنی پْھولوں کی پوشاکیں پہنتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر جانب عشق کی خوشبو رقص کررہی ہو۔ سْنا ہے لیڈی ڈیانا کو یہ پْھول بیحد پسند تھے اور وہ جب بہار موسم میں یہاں آئیں تو ان خوشنما درختوں سے جھڑتی کاسنی پتیوں سے اَٹے ہوئے خوبصورت رستوں پر چہل قدمی سے لطف اندوز ہوتی رہیں۔۔ مَن چلی شہزادی کا رنگِ نیاز مندی۔ کرّہ ارض پر قدرت کے دستِ ہنر کے معجزے تو جا بجا ملتے ہیں لیکن سڈنی میں یہ موسم انوکھے اور حسین پرندوں سے مْلاقات کا موسم بھی ہوتا ہے بالخصوص طوطے ، فاختہ، مینا، کوئل اور ان گنت مقامی پرندے ہمہ وقت جشنِ بہاراں برپا کرنے میں مگن رہتے ہیں۔ بعض علاقے ایسے ہیں جہاں پنجرے بنا کر ان دلفریب پرندوں کو پالنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی بس آپ ان کی خوراک و پانی ختم نہ ہونے دیں یہ صبح سے شام تک اپنے قرب سے آپ کے گھر آنگن کو مہکائے رکھیں گے۔ سْنا ہے کہ بہار موسم وحشتوں کی خبر بھی لاتا ہے لیکن کون جانے کہ کس کے دل پر کون سا لمحہ زخم بنتا ہے اور کب اندمال۔ برسوں پہلے سْنا ہوا ایک شعر یاد آگیا ، شاعر کا حوالہ تلاش کرنے کوشش تو مگر بے سود ٹھہری سو شعر دیکھیے ؎ اِس رْت میں تو ہر ہاتھ کی شْنوائی ہوئی ہے عاشق کے گریباں پہ بہار آئی ہوئی ہے گریباں کا ذکر آیا تو آجکل عمران خان کے گریباں پہ بھی بہار آئی ہوئی ہے۔ عقلِ آدم بھی عجب ہے کوئی نہیں جانتا کہ کب کس سمت میں نکل پڑے۔ حیرت تو تب ہوتی ہے کہ وہ طبقہ جو گزشتہ بیس برس سے بغیر دیکھے بھالے برادری اور دیگر فروعی مفادات کی بنیاد پر مْلک سے انتہائی غیر مخلص گروہوں کو اپنے ووٹوں سے نوازتا رہا ہے اچانک اتنا باشعور ہو گیا کہ نئی حکومت کے پہلے ہفتے میں ہی ہر طرح کی اصلاحات چاہتا ہے، گویا بوئیں گے کیکر لیکن اْتاریں گے آم۔ اور ہمارے چند اہلِ فکر و دانش نے دْنیائے فکر و دانش کو بازیچہ اطفال بنا کر رکھ دیا ہے جہاں شب و روز اک تماشہ جاری ہے کہ جو ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ اخلاقیات کا درس دینے والے بڑے اہتمام کے ساتھ کبھی یکمْشت اور کبھی رفتہ رفتہ اخلاقیات کے قتل میں مصروف ہیں۔ پورے حلق سے چیخ کرجھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کرتے ہوئے یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ان کے اپنے چہروں کے خدّو خال کیسے بگڑ جاتے ہیں۔ چند ہفتے ہوئے کہ ایک بزرگ صحافی جن کی تکریم اک زمانہ کرتا آیا ہے فرما رہے تھے کہ ایک خاتون کے جادو ٹونے کی وجہ سے شریف خاندان پر مشکلات ٹوٹ رہی ہیں۔جیّد علمائے دین کے مطابق ’استخارہ‘ کا عمل ذاتِ باری تعالیٰ سے مشورہ کرنا ہے، ایک دن اپنے تئیں بر گزیدہ دانشور سے سْننے میں آیا کہ ایک خاتون مْسلسل استخارہ کرتی ہیں تو اسی لیے شریف خاندان کا خسارہ ہو جاتا ہے یعنی دینِ اسلام کے بنیادی پہلوئوں سے بھی آگاہی نہیں مگر فتویٰ ضرور دیں گے کیونکہ انہیں حادثاتی طور پر ایک فورم میسر آ گیا ہے۔خواہ ذکر کسی ڈی ایس پی کا ہو ، پی آئی اے والے سینیٹر کا ہو، شہباز شریف کی گرفتاری کا ہو یا ہیلی کاپٹر کا بات کسی نہ کسی طرح بْشریٰ بی بی تک پہنچ ہی جائے گی جن کا جْرم یہ ہے کہ وہ وزیرِ اعظم کی بیوی ہیں۔ اس صدی میں بھی ہم لاکھ باہر کی یونیورسٹیوں سے ڈگریاں اکٹھی کر لائیں عورت کے نام و مقام کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے باز نہیں آ سکتے۔ کسی اور سے کیا شکایت ہو کہ جہاں عورت ہی اپنی صنف کی عزّت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایک اور منصوبہ جس کی کامیابی و ناکامی کا تو وقت کے ساتھ ہی پتہ چلے گا مگر جس شام وزیرِ اعظم نے ’’ نیا پاکستان ہائوسنگ سوسائٹی‘‘ کا اعلان کیا تو یہ سوچ کر ہنسی آگئی کہ آج ایک اور رات ’مخصوص‘ اہلِ فکر و دانش پہ بھاری گزرے گی۔ آخر سخت محنت کرنا پڑتی ہے، اب یہ اتنا بھی کارِ سہل نہیں ہے کہ الزامات کی نئی نئی کہانیاں ترتیب دینا پھر سلسلہ در سلسلہ ان کا تعلق بْشریٰ بی بی ، ٹیرین، جمائما حتیٰ کہ پالتو کْتّے’ شیرو‘ سے جوڑنا اور کبھی کبھی عثمان بْزدار سے… اس تمام صورتِ حال پر پروین شاکر صاحبہ کا ایک شعر بطور حرفِ آخر، اے میری گْل زمیں تجھے چاہ تھی اِک کتاب کی اہلِ کتاب نے مگر کیا تیرا حال کر دیا