وزیر اعظم عمران خان کا دورہ چین اختتام کو پہنچا اس سے قبل وہ ایران کا کامیاب دورہ کرکے لوٹے ۔ دورہ ایران کے دوران ان کی زبان کی پھسلن موضوع بن گئی جب انہوں نے مبینہ طور پہ پاکستان میں دہشت گرد گروپوں کی موجودگی کا اعتراف کیا۔ ان کے اس بیان کو بلاول بھٹو لے اڑے اور جی بھر کے ہنگامہ مچایا۔ اسی راگ میں سر ملانے جماعت اسلامی اور نون لیگ بھی شامل ہوگئی۔ مزے کی بات تو یہ تھی کہ بلاول بھٹو خود پاکستان میں دہشت گردی کے محفوظ ٹھکانوںسے متعلق ایک سلگتا بیان دے چکے تھے۔ نون لیگ تو وہ چھلنی ہے جسے سو چھیدوں کے ہوتے ہوئے اصولا اور اخلاقا خاموش رہنا چاہئے ۔ ڈان لیکس اور سرل المیڈا کو ملتان میں دیئے گئے نواز شریف کے انٹرویو کی گونج ابھی فضاوں میں ہی ہے۔ بات بس اتنی تھی کہ عمران خان نے بڑے طریقے سے ایران سے پاکستان میں آپریٹ ہونے والی دہشت گردی کا تذکرہ کردیا۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ پاکستان میں اسی مبینہ عمل کا تذکرہ بھی کیا جائے۔ دنیا آپ کا یکطرفہ موقف سننے پہ کبھی راضی نہیں ہوتی۔یہ بات اس نواز شریف کو سمجھنے میں وقت لگ گیا جس نے واضح طور پہ کہا تھا کہ کیا ہم اپنی دہشت گرد تنظیموں کو اجازت دیں کہ وہ ممبئی میں بم حملے کرکے معصوم لوگوں کو مار ڈالیں۔ سیف انداز بیاں بات بدل دیتا ہے اور نیت بھی وہی کام کرتی ہے۔نیتوں کا حال اللہ جانتا ہے۔ انداز بیاں صاف بتا رہا تھا کہ نیت کیسی تھی۔ ایران میں عمران خان کے اس بیان کو جسے یقینا سیاق و سباق سے الگ کرکے اڑا لیا گیا،ایک واضح مقصد تھا اور وہ تھا ایران کو رام کرکے اس کے ساتھ مکمل اعتمادکی صورتحال میں تجارت کو فروغ دیا جائے۔ ایسا تبھی ممکن ہے جب ایران پاکستان کے اندر مبینہ مداخلت بند کردے۔بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات کسی سے مخفی ہیں نہ ہی وہ سے مخفی رکھنا چاہتا ہے۔ اس کی چاہ بہار بندرگاہ کا کنٹرول بھارت کے پاس ہے۔ اس کا ایران کے ساتھ تجارتی حجم تقریبا منفی پانچ بلین ڈالر کے تجارتی خسارے کے ساتھ چودہ بلین ڈالر ہے جو ایران پہ اقتصادی پابندیوں کے باوجود گزشتہ سال کے مقابلے میں بڑھا ہے جبکہ پاکستان ایران تجارتی حجم کچھ اضافے کے ساتھ تین سال میں چھ سو ملین ڈالرسے صرف ایک اعشاریہ تین بلین ڈالر ہوا ہے۔نواز شریف دور، 2015 میں پاکستان اور ایران نے تہران میں ہونے والی ساتویں پاکستان ایران مشترکہ تجارتی کمیشن کی میٹنگ میں پانچ سال میں تجارتی حجم پانچ بلین ڈالر تک بڑھانے پہ رضامندی ظاہر کی تھی۔ظاہر ہے ایسا ٹیرف میں کمی کرکے اور باہمی تجارت میں حائل رکاوٹوں کو دور کئے بغیر ممکن نہیں تھا۔اس وقت کے وزیر تجارت خرم دستگیر نے ایران سے 2006 کے پاکستان ایران ترجیحی تجارت معاہدے کے تحت ایران سے دونوں ممالک کے درمیان نان ٹیرف رکاوٹوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان زرعی مصنوعات سے متعلق مشترکہ سرمایہ کاری پہ بھی اتفاق ہوا تھا۔اہم بات یہ تھی کہ انفراسٹرکچر یعنی ریلوے، سڑکیں اور دیگر ذرائع نقل وحمل تعمیر کیے جانے اور نئی تجارتی پوسٹوں کے قیام پہ بھی سمجھوتہ طے پایا تھا۔ اس سب کے باوجود تین سال تک ایران اور پاکستان کے درمیان تجارتی حجم کا نہ بڑھ پانا کس کی غفلت تھی؟اگر یہ کوئی بیرونی دبائو تھا جو شریف خاندان پہ کچھ زیادہ ہی تھا کہ ان کو پناہ کہیں اورہی ملتی تھی تو ایران کے ساتھ جھوٹے سچے وعدے کرنے کی کیا ضرورت تھی۔اگر ایران وعدہ خلافی کا مرتکب ہوا تھا تو اس پہ بھی بات کی جانی چاہئے تھی لیکن اس خاندان کے نزدیک غالبا ذاتی معیشت ملکی معیشت سے زیاہ اہم تھی۔ اگر یہ تجارتی حجم سرحدی تنازعات اور ایک دوسرے کی سرحدوں میں مبینہ مداخلت کی وجہ سے متاثر ہوا تو کیا اس مسئلے کو اب بھی حل نہیں ہونا چاہئے۔ یہی وہ مسئلہ ہے جس کے حل کے لئے عمران خان نے دورہ ایران میں وہ بات کہی جسے اڑا لیا گیا اور خوب شور مچایا گیا۔پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے لیکن ایران پہ امریکی پابندیوں کے تناظر میں یہ آسان کام نہیں ہے۔بھارت سمیت دیگر ممالک کو ایران کے ساتھ تجارت کے لئے چھ ماہ کا استثنا دیا گیا تھا جو ختم ہوچکا ہے ۔پاکستان کے لئے امریکہ سے موجودہ کشیدہ حالات میں استثنا طلب کرنا ممکن نہیں ہے ۔ اس کے باوجود اس کی کوشش کی جاسکتی ہے جو کم سے کم ایران کو مطمئن ضرور کرسکتی ہے۔اس منصوبے سے متعلق گزشتہ حکومت نے ایران کو جو ایران پہ امریکی اقتصادی پابندیوں کے باعث تعطل کا شکار ہے،کے متعلق انہوں نے ایران کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اس کا گوادر سے نواب شاہ تک کا حصہ سی پیک کا منصوبہ بن چکا ہے البتہ گوادر سے ایران کی سرحد تک اس کی تکمیل کا عدہ کیا گیا تھا۔ ایران اپنے حصے کی پائپ لائن مکمل کرچکا ہے۔ دوسری طرف وزیراعظم عمران خا ن کے مشیر تجارت رزاق داود نے واضح طور پہ کہا ہے کہ ایران کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدہ نہیں بلکہ ترجیحی تجارتی معاہدہ کیا جائے گا جس کا حال میں نے اوپر لکھا ہے کہ وہ کتنا موثر رہا۔ مسئلہ معاہدوں کی نوعیت سے زیادہ ان پہ عمل درآمد کی جرأت کا ہے۔ یہ جرات گزشتہ حکومت نہیں دکھا سکی۔ عمران خان نے امریکہ کو کئی بار شٹ اپ کال دی اور ایران کا دو روزہ دورہ بڑے دھڑلے کے ساتھ کرڈالا۔ ایران میں اس وقت تیل کی ادائیگیوں کے سلسلے میں اماراتی، چینی، ترک اور بھارتی بینک کام کررہے ہیں اور امریکہ نے ان کی طرف سے آنکھیں بند کررکھی ہیں۔ پاکستان اپنا بینکنگ چینل کھولنے کی پہلے تو ہمت نہیں کرپایا۔ اب اس کا وقت آگیا ہے کہ امریکی پابندیا ں اسی طرح ایک طرف رکھ دی جائیں جیسے باقی دنیا نے رکھی ہیں اور صرف پاکستان کے مفاد میں فیصلے کئے جائیں۔پاکستانی ایکسپورٹروں نے ایران کے ساتھ تجارت کے لیے چینی بینکوں کے استعمال کی تجویز بھی دی ہے۔اس سے بہتر ہے کہ پاکستان اپنا بینکنگ چینل قائم کرے تاکہ اسمگلنگ وغیرہ کے معاملات بھی ہینڈل ہوسکیں۔بینکنگ چینل نہ ہونے کی وجہ سے سرحدوں سے تجارتی سامان کی نقل وحمل کا درست ریکارڈ ربھی ممکن نہیں ہو پاتا۔ گزشہ دور حکومت میں ایران نے پاکستان میں ملی بینک کھولنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا لیکن اسٹیٹ بینک نے اسے اجازت نہیں دی۔اب چونکہ معاملات ٹریک پہ آرہے ہیں اور سعودی عرب میں بھی ایک غیر روایتی حکمران برسراقتدار ہے جس کے نزدیک امداد سے زیادہ سرمایہ کاری اہم ہے تو اس موقع سے عمران خان تو پورا فائدہ اٹھانے کے موڈ میں نظر آرہے ہیں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ سرحدوں سے مداخلت کا راستہ سب سے پہلے روکا جائے۔اقتصادی پابندیوں میں گھرے ایران کو بھی اس کا ادراک کرنا ہوگا۔بھارت کے ساتھ وہ بے شک پینگیں بڑھائے لیکن پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات خود اس کے لئے خطرہ ہیں یہ اسے سمجھنا ہوگا۔ (جاری ہے)