عمران خان نے انتخابات میں کامیابی کے بعد متوقع وزیراعظم کی حیثیت سے قوم سے غیر رسمی خطاب میں اپنی متوقع حکومت کی خارجہ پالیسی کے اہم نکات واضح کئے تھے جن میں افغانستان میں امن کی خواہش اور اس میں حتی القدور معاونت، بھارت کے ساتھ پرامن تعلقات اور اسے کشمیر سمیت دیگر معاملات پہ مذاکرات اور بہتر تعلقات کی پیشکش، امریکہ کو مزید ڈو مور سے گریز کا مشورہ اور آئندہ کسی کی بھی جنگ کا حصہ نہ بننے کا عزم اور تمام مسلمان ممالک کے ساتھ برادرانہ تعلقات کے عزائم کا اظہار کیا تھا۔انصاف کی بات تو یہی ہے کہ اب تک عمران خان خارجہ پالیسی سے متعلق اپنے پالیسی بیان پہ نہ صرف قائم ہیں بلکہ نہایت سرعت سے اسی سمت میں معاملات نبٹا رہے ہیں۔اپنی پالیسی کے عین مطابق انہوں نے نیک کام کی شروعات بھارت سے کیں اور اپنی تقریب حلف برداری میں نووجوت سنگھ سدھو کو مدعو کرلیا۔ وہ بھنگڑے ڈالتے آئے اور جنرل باجوہ سے بغلگیر ہوکر چلے گئے ۔یہ ایسا کاری وار تھا کہ متعصب بھارتی میڈیا اور مودی سرکار اپنی بوٹیاں نوچنے کے سوا کچھ نہ کرسکے۔ رہی سہی کسر کرتار پور بارڈر کھول کر پوری کردی گئی اور سکھ یاتریوں نے ہاتھ پھیلا پھیلا کر عمران خان اور پاکستان کے حق میں دعائیں کیں۔پہلا باونسر تھا تو دوسرا ان سوئنگ ۔ سرحد پار ایسی بے چینی پھیلی کہ بھارتی پنجاب کی ریاستی کابینہ کے رکن سکھجندر سنگھ نے قراداد پیش کی کہ پاکستان کے ساتھ کرتارپور کے بدلے کسی اور علاقے کا معاہدہ کرلیا جائے۔اس طرح پاکستان نے دنیا بھر کو مذہبی رواداری اور امن کا پیغام دیا جس کا جواب بھارت نے اس طرح دیا کہ سشما سوراج نہ صرف کرتارپور افتتاحی تقریب میں شریک نہیں ہوئیں بلکہ اگلے ہی روز مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار نے جبر واستبداد کا نیا سلسلہ شروع کردیا جو ہنوز جاری ہے اور جس سے بھارت عالمی سطح پہ مسلسل بدنامیاں سمیٹ رہا ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی گزشتہ حکومت جو بھارت کے ساتھ نرم رویہ رکھنے کے سلسلے میں بدنام تھی،کشمیر ایشو کو مکمل نظر انداز کئے بیٹھی تھی۔ عمران خان حکومت نے نہ صرف کشمیر ایشو کو میڈیا پہ نمایاں کوریج دی بلکہ بارہا یہ واضح اعلان کیا کہ مسئلہ کشمیر پاک بھارت تعلقات میں بنیادی تنازعہ ہے جسے حل کئے بغیر بات نہیں بنے گی۔اس دو رویہ پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارت سفارتی محاذ پہ مکمل بیک فٹ پہ جاچکا ہے جبکہ عمران خا ن کے بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کے عزم کا اظہار اپنی جگہ موجود ہے۔یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر ملک کی خارجہ پالیسی کی کچھ سرخ لکیریں ہوتی ہیں۔ بھارت ہماری خارجہ پالیسی کی سب سے گہری سرخ لکیر ہے۔ اس کے ساتھ ہمارا بنیادی مسئلہ،کشمیر اور پانی کا تنازعہ موجود ہے اور ہم تین اعلانیہ جنگیں اور کئی ایک غیر اعلانیہ جنگیں کرچکے ہیں۔ یہ بھی امر واقعہ ہے کہ ہمارے دفاعی بجٹ کا بڑا حصہ بھارت سے ہی دفاع میں خرچ ہوتا ہے۔اس سے آگے کچھ بھی کہنا ایک سرخ لکیر عبور کرنا ہوگا لیکن اگر عمران خان بھارت کے ساتھ امن ڈپلومیسی چلانا چاہتے ہیں تو یہ طے ہے کہ انہیں اس سلسلے میں فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے۔نواز شریف کے خاندان نے بھارت کے ساتھ ذاتی کاروبار ی تعلقات قائم کر رکھے تھے اور یہ بھی طے ہے کہ ایک روایتی دشمن ملک میں حکمرانوں کے ذاتی کاروبار ملکی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ ہوتے ہیں۔ عمران خان کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں یہ خدشہ کسی بالادست قوت کو نہیں ہے۔ عمران خان کی خارجہ پالیسی کا اہم ترین نکتہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کی تشکیل نو ہے۔ وہ صحافتی بزرجمہرجنہیں اب الہام ہوا ہے کہ دنیا بدل رہی ہے،امریکہ کمزور پڑ رہا ہے اور اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ افغانستان پہ سوویت روس نے حملہ بھی ہم سے پوچھ کر نہیں کیا تھا لیکن ہم نے حالات سے فائدہ اٹھایا اور پاکستان کو جوہری طاقت بنا لیا۔ افغانستان پہ امریکی حملہ بھی ہم سے مشاورت کے بعد نہیں ہوا تھا لیکن ہم نے حالات کا درست ادراک نہیں کیا اور نقصان اٹھایا۔ قومیں اسی طرح حالات سے فائدہ یا نقصان اٹھاتی ہیں یہی ان کا کمال ہوتا ہے۔عمران خان کا اصولی موقف افغانستان اور طالبان کے حوالے سے ہمیشہ واضح رہا ہے جس پہ وہ وزیراعظم بننے کے بعد زیادہ شدت سے کاربند ہوگئے ہیں اور وہ یہ کہ یہ ہماری جنگ نہیں تھی ۔حالات اور امریکہ دونوں نے ان کا یہ موقف تسلیم کرلیا۔قسمت ان کی ہمیشہ سے اچھی ہے کہ امریکہ خود اس بے مصرف جنگ سے اکتا گیا ہے۔طالبان کو مذاکرات کی میز پہ لانے میں پاکستان کا اہم کردار امریکہ نے مجبورا اور مصلحتا ہی سہی تسلیم کیا اور ساری دنیا میں اسے سراہا گیا۔نتائج تو فریقین کی مرضی پہ موقوف ہیں۔امر واقعہ یہ ہے کہ بھارت جس نے افغانستان سے پاکستان کو سائڈ لائن کیا تھا اب خود عزت بچانے کی فکر میں ہے۔یہ پاکستان کی سفارتی کامیابی نہیں تو اور کیا ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ایک نئی نہج پہ ہیں۔ آج سعودی سرمایہ کار پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کررہے ہیں اور سعودی عرب پاکستان کا سب سے بڑا غیر ملکی سرمایہ کار بن گیا ہے۔عمران خان کو بھیک مانگنے کا طعنہ دینے والوں کو ایک بار اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہئے۔شاید شرم آجائے۔ خطے میں سعودی عرب کے روایتی حریف ایران نے گو چاہ بہار کا کنٹرول پاکستان کے حریف بھارت کے حوالے کردیا ہے اس کے باوجود ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات متوازن حد تک نارمل ہیں او ر میر جاویہ اور سیستان بلوچستان سرحد پہ ایران پاکستان فری اکنامک زون جلد ہی کام شروع کردے گا اور پانچ بلین ڈالر کی دو طرفہ اضافی تجارت ممکن ہوجائے گی۔قطر سے جس کا عرب ممالک نے بائیکاٹ کیا ہوا ہے ، عمران خان پاکستانیوں کے لیئے مفت ویزے اور نوکریاں حاصل کرلی ہیں ۔ترکی اور امارات کے ساتھ تعلقات کی ایک نئی مثال قائم ہوئی ہے ۔دیکھا جائے تو مقامی تنازعات سے بچتے ہوئے عمران خان نے پاکستان کے لئے کم وقت میں زیادہ ثمرات سمیٹ لئے ہیں یعنی اچھی سفارتکاری کو معاشی استحکام کے لئے کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ سب سے مقدم پہلو یہ ہے کہ پاکستان اب مغرب کے تسلط سے آزاد ہوکر اپنی خارجہ پالیسی کے ایک بنیادی نکتے یعنی مسلم ممالک سے برادرانہ تعلقات کی شاہراہ پہ ایک بار پھر قدم جما چکا ہے۔شاید کچھ لوگوں کو یہی بات پسند نہیں آرہی وہی جنہیں محض چار ماہ میں یہ سفارتی کامیابیاں نظر نہیں آرہیں۔