لکھتے لکھاتے بیس برس ہوچکے ہیں ،ان دو دہائیوں پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے اشک آہوں بے سکونی اضطراب اورسیاسی نیتاؤں کے وعدوں دعوئوں کے سوا کچھ نہیں ملتا ،ان برسوں میں ہر آنے والا دن گزرے دن سے زیادہ تلخ کڑوا اور تیزابی رہا،اگرکل کوئی کراہ رہاتھا توآنے والے کل اسے درد کی شدت سے چلاتے دیکھا، کل کسی کی آنکھوں میں نمی تھی تو اگلے روز اسے خون کے آنسو روتے دیکھا، زندگی کہیں خوبصورت اور رنگین ہوتی ہوگی مملکت خدادد میں اسے بے رنگ ہی پایاجس میںرنگ بھرنے کے لئے کبھی جیالوں نے وعدے کئے اور کبھی لیگیوں نے دعوے،اقتدار پر شب خون مارنے والے بھی کب کسی سے پیچھے رہے میرے عزیز ہم وطنو! کے انداز تخاطب کے بعد قوم کو یہی سننے کو ملا کہ ملک بس دیوالیہ ہونے کو تھا ،سرکار کے خزانے میں چوہے پھر رہے تھے،سرحدوں پر خطرات کسی گدھ کی طرح منڈلا رہے تھے شکر کریں ملک بچا لیا گیا ۔۔۔میرے لکھنے لکھانے کی دو دہائیوں میں ان سے پیوستہ دو دہائیاں اور شامل کر لی جائیں تو بھی صورتحال کم وبیش یہی ملے گی اس تمام عرصے میں جب بھی کسی حکومت کا تختہ الٹاگیا میرے دل کو یک گونہ سکون سا ملا کہ ان کڑے دنوں کا سبب ان ہی حکمرانوں کو سمجھتا تھابے نظیر ہو ں نوازشریف یا پرویز مشرف ان کی گاڑی سے جھنڈا اترنے پر میں نے لوگوں کو باچھیں پھیلائے یا اس تبدیلی سے لاتعلقی اختیار کئے دیکھا ۔ اب ایک بار پھر حکومت کو گھر بھیجنے کی باتیں ہو رہی ہیں ،اپوزیشن دو برس بعد یہ طے کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے کہ ’’کپتان‘‘ کواب مزید وقت نہیں دینا ،اپوزیشن کی نظر میں یہ بدترین نااہل حکومت ہے امن و امان ،بے روزگاری،کرپشن ،سیاسی انتقام،اور قرضوں کے اژدھے پاکستان کو جکڑ ے ہوئے ہیں ،اپوزیشن نے مولانا فضل الرحمٰن کو نجات دہندہ مان کر انکی سربراہی میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے’’ ساڑھے بارہ جماعتی اتحاد‘‘ بھی تشکیل دیا ہے جس میں پشتون تحفظ موومنٹ بھی شامل ہے جسکی اپوزیشن تصدیق اور تردید سے انکاری ہے۔ پی ڈی ایم کے ایک رہنما نے اس بارے میں سوال پر مجھے کہا کہ وہ اس پر کوئی بات نہیں کرنا چاہیں گے لیکن انہوں نے اشارتا بتایا کہ مولانا فضل الرحمٰن پشتون تحفظ موومنٹ کی موجودگی سے خوش نہیں ہیں اور وہ موقع دیکھ کرکسی تند خو ٹکٹ چیکر کی طرح انہیںبنا ٹکٹ سفر پر اپوزیشن ایکسپریس سے نکال باہر کریں گے لیکن اس کے لئے انہیں بلاول ہاؤس کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑے گاجواس وقت پشتون تحفظ موومنٹ کے سب سے بڑے پشتیبان ہیں مولانا سفر کے آغاز میں ہی’’ پھوٹ پڑ گئی ‘‘ کی بریکنگ میڈیا کے ہاتھ میں دے کر نیوز شو کے لئے موضوع کی تلاش میں سرگرداں نیوز اینکروں کی مشکل آسان کرنا نہیں چاہتے ،میڈیا پہلے ہی احتجاجی تحریک کا کوئٹہ کی جگہ گوجرانوالہ سے آغاز اور عہدوں کی تقسیم پرشورے کے تیزاب میں سوال بھگوئے بیٹھا ہے ۔ اپوزیشن ایک ایسے وقت میں پہلوانوں کے شہر سے اپنی تحریک کا آغاز کرنے جارہی ہے جب حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کی قیادت کے لئے پرتولنے والی مریم نواز پارٹی میں اختلاف کوپہلی بار ’’اپروچ کا فرق‘‘کہہ کر تسلیم کرچکی ہیں اورپیپلز پارٹی استعفوں کے معاملے پر کھلی ہچکچاہٹ کا شکار ہیںیہ بات پی ڈی ایم کی قیادت بھی جانتی ہے لیکن مولانا کو انہی وسوسوں اور اندیشوں کے ساتھ آگے بڑھنا ہے اور ملک کو ’’بحران‘‘ سے نکالنا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اسکے بعد کیا ہوگا؟ پوری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے اپوزیشن کو حکومت میں کچھ اچھا نظر نہیں آتاانہیں جوتوں میں دال بٹتی دکھائی دیتی ہے اور ’’پوزیشن‘‘ والوں کو اپوزیشن مستردشدہ نااہل، نکمی لگتی ہے جن کے دیئے ہوئے زخموں پر وہ اینٹی بائیوٹک رکھ رہے ہوتے ہیںیہاں بھی یہی دوا دارو دم ٹکور ہو رہا ہے لیکن مرض بڑھتاگیا جوں جوں دوا کی ۔۔۔ عوام کے دکھ کم نہیں ہورہے ،مہنگائی کے عفریت نے جس طرح سے بے روزگاری کے مارے اور خط غربت کے نیچے زندگی بسر کرنے والے پانچ کروڑ پاکستانیوں کو جکڑا ہے سو جکڑا ہے س بار تو متوسط طبقے کی بھی چیخیں نکل گئی ہیں اس وقت صورتحال پریشان کن نہیں تشویشناک ہوچکی ہے قرضوں کی لت رنگ لارہی ہے سود کی ناگنیں پھن اٹھائے ہوئے ہیں ،پاکستا ن پر اس وقت 110ارب ڈالر کے بیرونی قرضے واجب الادا ہیں،2008ء میں بیرونی قرضہ ساڑھے 45ارب ڈالر تھاجو صرف پانچ برسوں میں 61ارب ڈالر تک پہنچ گیا اورپھر قرضوں کے اس عفریت نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اگلے پانچ برسوں تک یہ 61ارب ڈالر کا قرضہ 95ارب ڈالرہوچکا تھا اور 31مارچ 2020تک اسکا حجم 110ارب ڈالر تھا ،قرضوں کے ا س حمام میں کیا جیالے اور کیا لیگی متوالے سب ہی ننگے تھے ،موجودہ حکومت نے بھی کپڑے اتار کر کنڈی پر لٹکا دیئے،خیر سے حکومت دو برسوں میں اندرونی اور بیرونی ذرائع سے 36,000ارب روپے کا قرضہ لے چکی ہے ، صورتحال یہ ہے کہ چھتیس کھرب روپے کا یہ قرضہ پاکستان کی مجموعی آمدنی کا87فیصد تک جاپہنچا ہے،2018ء میں تحریک انصاف کے برسراقتدار ہونے سے پہلے یہ قرضہ 25ہزارکھرب اور ملکی جی ڈی پی کا72فیصد تھا دو سالوں میں حکومت نے شبانہ روز محنت کرکے اس میں 15فیصدکا اضافہ کیا۔ اس وقت ہمارا سب سے برا مسئلہ قرضوں کی یہی دلدل ہے جس میں ہم فی سیکنڈ کے حساب سے دھنس رہے ہیں ،عمرا ن خان کی گاڑی سے جھنڈا اور انہیں تخت سے اتارنے کے لئے اپوزیشن کو مضطرب ہونے کا اور عوام کو مہنگائی ،لاقانونیت ،بے روزگاری ،توانائی کے بحران پر ماتم کرنے کا پورا پورا حق ہے مگر سوال یہ ہے کہ اپوزیشن میں شامل سابقہ حکومتوں نے کون سی دودھ کی نہریں بہارکھی تھیں اور کون سی شہد کی جھیلیں بھر رکھی تھیں ہینڈسم کپتان کی جگہ کوئی اور آبھی جائے تواس دلدل سے نکلنے کی صورت کیا ہوگی ؟قصہ کوتاہ کل بھی عوام کے ہاتھ ہوں گے اور اپنا سینہ ہوگا جو سینہ کوبی کل جاری تھی وہ جاری رہے گی مجھے تویہی ہوتا نظر آرہا ہے آپ کو شک ہے تو آپکے اس شک پر صدقے اور قربان ۔