گزشتہ چند ہفتوں سے میڈیا میں ایک طوفان برپا ہے کہ تحریک انصاف نے امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔خبر پھیلائی گئی کہ عمران خان کی امریکی سفیر سے ویڈیو لنک پر بات ہوئی۔واشنگٹن میں پی ٹی آئی نے ایک امریکی فرم کی خدمات مستعار لی ہیںتا کہ امریکی میڈیا اور حکام کے سامنے پارٹی کا نقطہ نظر بہتر طریقے سے پیش کیا جاسکے۔پی ٹی آئی کے نقاد ان خبروں کو خوب مسالے لگاکر تجزیہ اور تبصرے کررہے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں توازن اور وقار قائم کرنا محض عمران خان کی خواہش نہیں بلکہ ہر حکمران اور پاکستانی کی رہی ہے۔پاک امریکہ دوستی کے معمار جنرل ایوب خان نے تنگ آکر : Friends not Masters کے عنوان سے کتاب لکھی ۔ جنرل ایوب نے کتاب میں رونا رویا کہ امریکہ برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کے بجائے دھونس جماتاہے۔با الفاظ دیگر پاکستان کے قومی مفادات اور عوامی جذبات کو سمجھنے کی کوشش کرتاہے اور نہ ان کی پروا کرتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف، آصف علی زرداری اور نوازشریف کے دور میں جس تحقیر آمیز لب ولہجے میں امریکی حکام ہدایات جاری کیا کرتے تھے انہوں نے پاکستانیوں کو بہت رنجیدہ کیا۔افغانستان کی جنگ میں پاکستان کا بے پناہ جانی اور مالی نقصان ہوا لیکن امریکی حکام صرف اپنے مفادات کی تکمیل پراصرار کرتے رہے۔ بھول کون سکتاہے کہ تسلسل کے ساتھ ڈو مور کا مطالبہ کیا جاتاتھا۔ پاکستانی حکام کو دورغ گو اور پیسہ کے پجاری قراردیاجاتا۔ انہیں طعنہ دیاجاتاکہ وہ افغانستان میں دوہراکھیل کھیل رہے ہیں۔ امریکہ سے پیسہ بھی ا ینٹھ رہے ہیں اور ڈیلیور بھی نہیں کررہے۔ عمران خان برسراقتدارآئے تو یہ منظر نامہ بدلنے لگا۔ بتدریج پاک امریکہ تعلقات بہترہوئے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان میں گاڑھی چھننے لگی۔افسوس! صدر بائیڈن کے برسراقتدار آنے کے بعد یہ صورت حال بدل گئی۔عمران خان نے نچلے درجے کے امریکی اہلکاروں کے ساتھ ملاقات سے انکار کردیا۔ حتیٰ کہ سی آئی اے کے سربراہ کے دورے پاکستان میں ملاقات کی درخواست کی گئی تو انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنے ہم منصب سے ملیں۔ امریکی حکام ایسے کسی پروٹوکول کے عادی نہیں۔چند برس قبل سابق امریکی سفارت کار Dennis Kux کی پاکستان امریکہ تعلقات کے حوالے سے ایک دلچسپ کتاب The United States and Pakistan, 1947-2000: Disenchanted Allies کے عنوان سے چھپی ۔ مصنف کے بقول امریکی سفارت خانے کی تقریبات میں اعلیٰ پاکستانی حکام کی شرکت معمولی کی بات تھی۔ وزیراعظم لیاقت علی خان تو سفارت کے تھرڈ سیکرٹری کے استقبالیہ میں بھی آجاتے تھے۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنہوں نے پاکستانی وزارت خارجہ اور حکومت کو غیر ملکیوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں ایک ضابط کا پابندکیا جس کی انہیں قیمت چکانا پڑی۔ عمران خان کا نقطہ نظر اصولی طور پر درست ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات دونوں ممالک کے باہمی مفادمیں ہونے چاہیںنہ کہ ایک فریق کے مفاد کی تکمیل کرتے کرتے کمزور فریق مسائل کی دلدل میں مزید الجھ جائے۔ دونوں ممالک کے دوستانہ اور کشیدہ تعلقات کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ معاشی پابندیاں بھی امریکہ نے پاکستان پر لگائیں۔ ایف سولہ جنگی طیاروں کی قیمت لے کر انہیں پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار کیا۔مسئلہ کشمیر کے حل میں مدد فراہم کرنے کے بجائے نائن الیون کے بعد مسلسل بھارت کی پیٹھ ٹھونکی۔ایٹمی پروگرام پر ڈٹ کر پاکستان کی مخالفت کی۔ خود ہتھیار دیتاہے اور نہ ٹیکنالوجی لیکن چین سے جو تعاو ن یا مدد ملتی ہے اس پر بھارت کا ہمنوا بن کر پاکستان کی ناک میں دم کردیتاہے۔ ان تمام شکایات کے باوجود یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ امریکہ دنیا کا سب سے طاقت ور ملک ہے۔ جب چاہتاہے پاکستان کی طرح کے کمزور ملکوں کا حقہ پانی بند کردیتاہے۔ عالمی مالیاتی ادارے اس کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی لاٹھی ہیں۔ مشرق وسطی کے دوست ممالک بالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر امریکی پالیسیوں سے ہم آہنگ رہتے ہیںاور ان ممالک سے گریز کرتے ہیں جو امریکہ کی گڈ بکس میں نہیں۔یعنی ہاتھی کے پاؤں میں سب کے پاؤں۔ پاکستان کی داخلی سیاست کا رخ متعین کرنے میں جہاں پاکستانی اداروں کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں وہاں امریکہ اور سعودی عرب کے کردار سے بھی انکار ممکن نہیں۔سادہ الفاظ میں اسلام آباد میں اقتدار کا راستہ عوامی مقبولیت سے ہموار نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے کئی ایک داخلی اور خارجی عوامل ہیں جنہیں ہمنوا بنانا پڑتاہے۔ عمران خان ایک عملیت پسند سیاستدان ہیں۔ ماضی میں وہ زندہ نہیں رہتے۔ اگر امریکہ میں پی ٹی آئی نے کسی فرم کی خدمات حاصل کی ہیں تو یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ پاکستان کی سب بڑی اور مقبول سیاسی جماعت کو محض چند سرپھروں کی روح کی تسکین کی خاطر اپنی حکمت عملی مرتب نہیں کرنی بلکہ اسے پاکستان کے بہتر مستبقل کی فکرکرنی ہے۔خیبر پختون خوا حکومت اور وزیراعلیٰ کی امریکی سفیر سے ملاقات بھی ایک مثبت قدم ہے۔ ملکوں، جماعتوں اور اداروں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کوئی مستقل عنصر ہے۔ کل تلک پیپلزپارٹی اور نون لیگ کو صف دشمناں میں شمار کیاجاتاتھا ۔ ان کے ساتھ تال میل رکھنے والوں کو بھی غداری کا سرٹیفیکیٹ دیا جاتاتھا ۔آج وہ نہ صرف برسراقتدار ہیں بلکہ مقتدر حلقوں کی آنکھ کا تارہ ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی ادارے رائے عامہ کی طاقت کے سامنے کھڑا نہیں ہوسکتا۔چودہ اگست کی شب لاہور میں ہونے والے جلسہ نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ عمران خان پاکستان کے سب سے مقبول لیڈر ہیں۔ آدھی آدھی رات تک لوگ ان کا خطاب سننے جلسہ گاہ میں نہ صرف موجود رہتے ہیں بلکہ پورے جوش وخروش کے ساتھ ان کی گفتگو کا جواب بھی دیتے ہیں۔ روز بہ روز خان کی مقبولیت میں اضافہ ہورہاہے۔ الیکشن جلد ہوں یا تاخیر سے ۔عمران خان کا کوئی نقصان نہیں۔ پنجاب جہاں الیکشن کا بڑا دنگل برپا ہوتاہے وہاں پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت ہے جو کامیابی کے ساتھ اپنے پنچے گاڑھ رہی ہے۔ مقبولیت کے جس گھوڑے پر عمران خان سوار ہیں شاہد کوئی سیاستدان ان کی پارٹی چھوڑ نے کا خطرہ مول لے۔ وزیراعلیٰ پرویز الہٰی اور پی ٹی آئی کا سارا فوکس اگلے الیکشن ہیں ۔ وہ عوامی فلاح وبہبود کے منصوں کو ترجیح دے رہے ہیں تاکہ ووٹر ز کا اعتماد حاصل رہے۔دوسری جانب نون کی حکومت کا سکہ مارگلہ کی پہاڑیوں سے شروع ہوکر فیض آباد چوک سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔ملک کو انتشار سے بچانے کا واحد حل یہ ہے کہ شفاف الیکشن ہونے دیئے جائیں جو بھی پارٹی برسراقتدار آئے اسے حکومت کرنے دی جائے۔سازشوں کے ذریعے منتخب حکومتوں کے تختہ الٹنے کا رواج اب ختم ہونا چاہیے۔