عمران خان کو کیا کرنا چاہیے؟صرف دو کام۔ مزید سنجیدگی اور اہل الرائے سے مشورہ۔ یہ اہل الرائے کون ہوتے ہیں جنہیں کسی حکمران کا ڈر ہوتا ہے اور نہ اس سے کوئی لالچ۔ وہ اپنی عقل و فکر اور اپنے ضمیر کے مطابق مشورہ دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم نیک و بد حضور کوسمجھائے دیتے ہیں۔ اگوں تیرے بھاگ لچھیئے۔ اپوزیشن کیا کہہ رہی ہے۔ میڈیا کیا چیخ و پکار کر رہا ہے اس کو تو چھوڑیئے۔ چیف جسٹس کی بات سنیئے جنہوں نے خود تبدیلی کے خوش نما نعرے سے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ ایسی توقعات اکیلے چیف جسٹس صاحب کو نہیں کروڑوں پاکستانیوں کو بھی ہیں جن میں ہم جیسے فقیر بھی شامل ہیں۔ جنہوں نے گزشتہ ایک دہائی سے قلم و زبان سے تحریک انصاف کے موقف کی نہ صرف تائید کی بلکہ اس کی حمایت میں دلائل کے انبار بھی لگا دیئے۔ چیف جسٹس کہتے ہیں کہ حالات بہت خراب ہیں، مہنگائی سے لوگ پریشان ہیں، 50 لاکھ گھر بنانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں۔ کبوتروں کا پنجرہ بھی بنائیں تو بہت سوچ و بچار کرنا پڑتی ہے۔ اتنے گھر محض اعلان سے نہیں بن جائیں گے۔ ان کے لیے ہوم ورک، منصوبہ بندی اور سرمایہ چاہیے۔ پہلے کچی آبادیوں کی حالت تو بہتر کریں۔ کیا وہ انسان نہیں کیڑے مکوڑے ہیں۔ چیف جسٹس کے تھوڑے کو بہت سمجھنا چاہیے اور دانا و بینا لوگ کہہ گئے ہیں کہ عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ وزیراعظم اور ان کے وزیر اطلاعات نے جو لب و لہجہ اختیار کر رکھا ہے۔ یہ لب و لہجہ صرف دو مواقع پر اختیار کیا جاتا ہے ایک تو انتخابی مہم کے دوران دوسرے جب آپ اپوزیشن میں ہوں۔ نہ جانے وزیراعظم ہائوس میں اخبارات کے بغور مطالعے کا کوئی اہتمام ہے یا نہیں اور مجھے نہیں معلوم کہ وزیراعظم عمران خان براہ راست نماز فجر کے بعد اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں یا نہیں۔ بانی پاکستان جہاں کہیں ہوتے صبح کا آغاز اخبارات کے مطالعے سے کرتے اور اہم خبروں اور مضامین کو انڈرلائن کرتے۔ اگرچہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے تاہم جناب وزیراعظم کے لیے میرا مشورہ یہ ہوگا کہ وہ صرف اور صرف دو امور پر توجہ مرکوز کریں۔ ایک معیشت دوسرے خارجہ تعلقات۔ باقی ہر کام اس کام کے نگران پر چھوڑ دیں۔ یہ بھی دانش مندوں کا قول ہے کہ ادھورا اعتماد بے اعتمادی کے مترادف ہے۔ ایک اور بات بھی کہ بروقت فیصلہ ہی فیصلہ ہوتا ہے۔ وقت گزر جانے کے بعد دوڑنا بھاگنا بے وقت کی راگنی کہلاتا ہے۔ ہمیں ماہر اقتصادیات ہونے کا کوئی دعویٰ نہیں، البتہ معمولی معاشی سوجھ بوجھ اور پاکستان کے زمینی حقائق کے پیش نظر پانچ ہفتے پہلے عرض کیا تھا کہ بالآخر آپ کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ اس لیے تاخیر نہ کیجئے کہیں زیادہ دیر نہ ہوجائے اور پھر ہنگامی صورت حال کے پیش نظر ہمیں آئی ایم ایف کی طرف سے زیادہ کڑی شرائط کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔ مجھے افسوس ہے کہ میرے خدشات درست ثابت ہورہے ہیں۔ کیا اسد عمر کو معلوم نہیں کہ آئی ایم ایف ایک مستقل ادارہ ہے مگر آزاد اور خودمختار نہیں۔ ادھر پاکستان نے باقاعدہ سرجھکا کر آئی ایم ایف کو بیل آئوٹ پیکیج کی درخواست دی ادھر امریکی سٹیٹ بینک کی ترجمان نے اپنی بریفنگ کے دوران گزشتہ روز یعنی جمعرات کو کہا کہ پاکستان کے قرضوں کی صورت حال کو جانچیں گے۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان ہیتھر نارت نے کہا کہ پاکستان اس حالت کو بھاری چینی قرضوں کی بنا پر پہنچا ہے۔ اس سے پہلے گزشتہ ماہ یہی بات امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہی تھی۔ اب ہمیں ایسی کڑوی کسیلی باتیں سر جھکا کر سننا پڑیں گی کیونکہ بھیک کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں کے پاس کوئی اور چوائس نہیں ہوتی۔ ابتر معیشت اور گنجلک خارجہ تعلقات کے نازک رشتوں نے ہمیں ایک دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ پہلے تو امریکہ نے کہا تھا کہ سی پیک پر اسے کوئی اعتراض نہیں مگر اب امریکہ بھی بھارت کی بولی بولنے لگا ہے۔ انہیں لاکھ سمجھائیں کہ یہ ایک معاشی پروگرام ہے کوئی سیاسی و تزویراتی منصوبہ نہیں، پاکستان سمیت خطے کے دوسرے ممالک کی خوشحالی کے لیے ہے کسی ملک کی دشمنی کے لیے ہرگز نہیں مگر مودی جی کے اعصاب پر پاکستان کا ڈر خوف ہی بہت تھا اور اب انہوں نے چین کا ڈربھی اپنے اوپر طاری کر رکھا ہے۔ ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ چین ہمارا وہ دوست ہے جو بہار و خزاں کا دوست ہے اور ہر طرح کے اچھے برے حالات میں پاکستان کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑا رہتا ہے۔ چین کا رویہ امریکہ کی طرح نہیں کہ ذرا میں لگائے زخم ذرا میں دے مرہم سی پیک منصوبے پر کوئی آنچ نہیں آنی چاہیے۔ اگر سی پیک کے کسی حصے کو ریویو کرنے کی ضرورت تھی بھی تو یہ کام نہایت خاموشی سے چین اور پاکستان کے مشیروں کے باہمی مشورے اور گفت و شنید سے انجام پانا چاہیے تھا نہ کہ اس پر حکومتی نمائندوں کی طرف سے بلند آہنگ تبصرے کئے جاتے۔ ایک طرف وزیراعظم فرماتے ہیں کہ بیوروکریسی بے خوف و خطر کام کرے۔ وہ قانون کے مطابق اپنے معاملات نمٹانے میں خودمختار ہے مگر دسری طرف آئی جی پنجاب کو ایک ماہ تین روز کے بعد ہی اپنے عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے اور وزیراطلاعات فرماتے ہیں کہ انہیں جو ٹاسک دیا گیا تھا وہ انہوں نے پورا نہیں کیا اس لیے انہیں جانا پڑا۔ اس پر چیف الیکشن کمیشن نے حکومت کے ضمنی انتخاب سے عین پہلے کئے گئے اس اقدام کو خلاف قانون قرار دیا اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو حکم دیا کہ وہ آئی جی پنجاب کے تبادلے کے احکامات واپس لے۔ حکومت کے ایما پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور الیکشن کمیشن کو لکھا کہ ہم تبادلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ اب ملک کے دو اہم اداروں کے درمیان ٹھنی ہوئی ہے۔ کسی بھی حکومت کے لیے سازگار سیاسی ماحول بے حد ضروری ہوتا ہے کیونکہ معاشی ترقی اور بیرونی سرمایہ کاری کرنے اور زیادہ سے زیادہ برآمدات کی تیاری کے لیے سیاسی استحکام اور پرامن حالات بنیادی شرط کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سوائے سکنڈنے نیوین ممالک کے جہاں پرامن سیاسی و معاشی حالات ہیں۔ ان ممالک میں شاذ و نادر ہی شاید کوئی کرپشن کا مقدمہ قائم ہوتا ہو۔ باقی دنیا میں جہاں کہیں چلے جائیں وہاں سیاست دانوں، تاجروں اور افسروں کے خلاف عدالتوں میں مالی بدعنوانی وغیرہ کے مقدمات زیرسماعت ہوتے ہیں مگر ان کی میڈیا کوریج نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ان ملکوں میں مختلف امور مملکت میں سے بدعنوانی کے خلاف جدوجہد بھی ایک جزوی کام کے طور پر جاری رہتی ہے۔ یہاں یہ محسوس ہوتا ہے کہ نئی حکومت سارا کار وبار حکومت پر چھوڑ کر کرپشن کے خاتمے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہی ہے۔ ایک طرف وزیراعظم فرماتے ہیں کہ نیب بیوروکریسی کو ہراساں نہ کرے۔ دوسری طرف وزیراعظم لاہور میں فرما گئے ہیں کہ میں چیئرمین ہوتا تو اس وقت تک پچاس فرعون پکڑ چکا ہونا۔ انہوں نے خود مختار نیب کو یہ بھی تلقین کرنا ضروری سمجھا کہ وہ اپنی رفتار تیز تر کرے۔ حضوروالا! آپ نیب کو اپنا کام کرنے دیں۔ نیب نے بڑ بڑا کر اس طرح رفتار تیز کی کہ بین الاقوامی شہرت یافتہ اساتذہ کرام اور سابق وائس چانسلروں کی پکڑ دھکڑ شروع کردی۔ ڈاکٹر محمد اکرم چودھری کو ہتھکڑیاں لگا کرنیب عدالت میں پیش کیا گیا اور اب پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر مجاہد کامران کو بھی مختلف الزامات میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ان حالات میں کون Pro active ہو کر کام کرے گا، ہر کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ قدم اٹھانے سے پہلے ہزار بار سوچے گا کہ کل کلاں مجھے نیب میں دھرنہ لیا جائے۔ ایک معاصر میں سہیل وڑائچ نے دوچار روز پہلے لکھا تھا کہ عمران خان کو چلنے دو، ہماری یہی دلی خواہش ہے مگر عمران خان شب و روز ماضی کی ’’کھدائی‘‘ چھوڑ کر آگے چلیں۔