چلیے مان لیا کہ ان کی ٹیم اچھی نہیں‘ ان سے حکومتی کارکردگی بہتر نہ ہو سکی‘ ان کا دور حکومت معاشی بدحالی‘ بے روزگاری اور مہنگائی ختم کرنے میں ناکام رہا؟، ایسا کیوں ہوا؟ یقینا اس کی بھی وجوہات ہیں۔ جب تک ملکی معیشت اچھی نہ ہو نہ تو حکومت کے ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچ پاتے ہیں اور پھر نہ ہی روزگار کے مواقع میسر آتے ہیں۔ ملک میں سیاسی استحکام بھی بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے‘ موجودہ حکومت کی دو اڑھائی سال کی کارکردگی اپنی جگہ پر یقینا اہم ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ تیس چالیس سال سے جس نظام کے تحت اس مملکت کو چلایا گیا چند خاندانوں میں جکڑ کر قومی معیشت کو تباہ کیا گیا ملک معاشی طور پر تباہ مگر دوسری جانب ان خاندانوں کے ذاتی کاروبار اندرون ملک اور بیرون ملک خوب پروان چڑھے۔ ملک کے اندر زیادہ تر شوگر ملوں کے علاوہ دیگر انڈسٹریز میں بھی ان ہی خاندانوںکا غلبہ ہے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے شریف خاندان اور زرداری خاندان کے اثاثے اور جائیدادیں کتنے تھے؟ اور پھر اقتدار میں آ کر ان دونوں خاندانوں کی دولت میں اچانک اضافہ کیسے ہوتا گیا؟ قومی سطح کے ترقیاتی منصوبوں میں غیر ملکی فرموں کو ٹھیکے دیئے گئے‘ ان کا کمیشن کون وصول کرتا تھا؟ اس کمیشن کی ادائیگی کہاں ہوتی تھی اس کی تمام تفصیل اب تحقیقاتی اداروں کے پاس موجود ہے۔ ایک طویل عرصے تک دو جماعتی حکومتی سرکس کا دور عروج پر رہا۔ دونوں جماعتوں کے قائدین نے ایک دوسرے کے پوشیدہ کاروبار کو بھی دوام بخشا اور ایک دوسرے کی عوامی سطح پر مخالفت بھی کی اور پھر ساتھ ہی اپنی اولادوں کو بھی اقتدار تک رسائی دلائی۔ اس ضمن میں حکومتی وسائل اور بیوروکریسی کو اپنے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر استعمال کیا جاتا رہا۔ اب جس نظام کے تحت مملکت خداداد پاکستان بدستور چلائی جا رہی ہے اس نظام کے تحت جو بھی بیوروکریٹس اور عوامی نمائندے میسر ہیں ان ہی سے حکوتمی امور چلانے پڑ رہے ہیں جب تک موجوہ نظام کا تسلسل جاری رہتا ہے اس نظام کے تحت پاکستان میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی ممکن نہیں ۔ یہ نظام اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے۔ تمام ادارے اسی نظام کے تابع ہیں حتیٰ کہ پورے کا پورا عدالتی نظام بھی مفلوج کر کے رکھ دیا گیا‘ اب کسی کو عدالت سزا دے‘ ضمانت دے دے‘ جیل سے باہر ہسپتال منتقل کردیا جائے یا پھر سزا یافتہ ہونے کے باوجود بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی جائے اس پورے عمل میں عوام کی دلچسپی کم ہو چکی ہے۔ عام شہری تو الیکشن لڑ کر پارلیمنٹ کا حصہ بننے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ یہ دولت کا کھیل ہے جوکہ پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے۔ سیاست کا روبار کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ عمران خاں جیسے آدمی جوکہ کسی بھی سیاسی خاندان سے تعلق نہ رکھتے ہوئے بھی وزارت عظمیٰ تک آ پہنچے۔ ان کا کوئی کاروباری پس منظر نہیں تھا انہوں نے پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے لیے اپنا سیاسی سفر شروع کیا جس نے چند خاندانوں کی حکومتی اجارہ داری کو ختم کرنے میں بھرپور کردار کیا۔ یہ ہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ تمام روایتی سیاسی قوتیں عمران خاں کے خلاف صف آرا ہیں۔ حکومت کی ناقص کارکردگی اپنی جگہ پر یقینا اہم مسئلہ ہے لیکن پارلیمنٹ اور دیگر سیاسی فورمز پر عمران حکومت سے تعاون نہ کرنا‘ انتظامی اور انتخابی اصلاحات پر بھی حکومت وقت کے ساتھ قومی امور پر اپنا عملی کردار ادا نہ کرنا حیران کن ہے۔ محض کرپشن کے مقدمات سے نجات حاصل کرنا‘ لوٹی ہوئی قومی دولت واپس نہ کرنا یہ وہ عوامل ہیں کہ جو ماضی کے حکمرانوں کو آپس کے سیاسی اختلافات کے باوجود ایک صفحہ پر لے آئے ہیں۔ صرف اور صرف عمران خاں کی مخالفت ان کا ایجنڈا ہے۔ عمران خاں نے وزیراعظم سیکرٹریٹ اور خود وزیراعظم ہائوس کے اخراجات میں ریکارڈ سطح کی کمی کی ہے۔ ماضی میں وزیراعظم ہائوس اور وزیراعظم سیکرٹریٹ کے روزانہ کے کھانے کے اخراجات کی تفصیل وزارت خزانہ کے ریکارڈ سے دیکھی جا سکتی ہے۔ آج کے اور ماضی کے اخراجات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اسی طرح وزیراعظم کے غیر ملکی دوروں کے اخراجات کی موجودہ تفصیل اور ماضی کے وزرائے اعظم کے دوروں کی اخراجات کے بارے میں بھی بہت زیادہ فرق ہے۔ خود وزیراعظم عمران خاں کسی طرح سے بھی کسی قسم کی بدعنوانی میں ملوث نہیں۔ لندن میں سفارتی تقریبات میں اکثر ہائی پروفائل شخصیات سے ملاقات کا موقع ملتا رہا ہے۔ ایک سفارتی تقریب میں برطانیہ کے سابق وزیراعظم جان میجر سے بات کرنے کا موقع ملا تھا۔ جان میجر جوکہ خود بھی کرکٹ سے دلچسپی رکھتے ہیں انہوں نے عمران خاں کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا تھا ان میں کرکٹ کے علاوہ عمران خاں کے سیاسی مستقبل کے بارے میں کہا گیا تھاکہ اگر پاکستان میں عمران خاں کو وزیراعظم بننے کا موقع مل جاتا ہے تو پھر پاکستان میں یقینا ہر سطح پر کامیابیاں حاصل ہوں گی ۔ برطانیہ میں 2009ء میں Christopher Sandford نے عمران خاں کی سوانح عمری شائع کی تھی انہوں نے اس سوانح عمری کی ابتدا عمران خاں کے ان الفاظ سے کی تھی: Its not a Question of Aspiration. I know, God Willing, One day i am going to succeed. And that's not very far away. اس سوانح عمری کے صفحہ نمبر 35 پر بتایا گیا ہے کہ جب عمران خاں طالبعلمی کے ابتدائی دنوں میں برطانیہ میں تھے ان دنوں پاکستان میں کرنسی کے بحران کے زمانے میں حکومت نے پاکستان سے باہر کرنسی لے جانے پر پابندی عائد کردی تھی اور برطانوی 15 پائونڈ کے برابر سالانہ کرنسی بیرون ملک لے جانے کی اجازت تھی اس دوران عمران خاں نے اپنا جیب خرچ چلانے کی غرض سے سائوتھ لندن کے علاقے میں واقع ایک ریسٹورنٹ جوکہ Little woods store کے نام سے مشہور تھا وہاں کرسمس کی چھٹیوں کے دوران تھوڑے وقت کے لیے بطور ڈش واشر کام بھی کیا۔ آج یہ آدمی کرکٹ کی دنیا میں اپنا نام پیدا کر کے پاکستان کو نئی پہچان دے گیا ہے اور اب وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہے۔ پوری دنیا میں اسے منفرد اور اعلیٰ عزت و احترام سے جانا جاتا ہے۔ صحت کے شعبے میں ان کی خدمات کو عالمی سطح پر سراہا جاتا ہے نہ تو ان کے بیرون ملک اثاثے ہیں اور نہ ہی بے نامی جائیدادیں۔ کسی قسم کی مالی کرپشن کا کوئی دھبہ اس کی ذات پر نہیں ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کا قومی خزانہ خالی ملا تھا پورا ملک غیر ملکی قرضوں میں جکڑا ہوا تھا گو کہ ابھی تک قومی معیشت پوری طرح بحال نہیں ہو سکی ہے لیکن امید کرنی چاہیے کہ آنے والے برسوں میں یقینًا پاکستان کی معیشت سنبھل جائے گی۔ شرط یہ ہے کہ کرپشن کے ناسور کو ختم کرنا ہو گا اور موجودہ نظام کو مکمل طور پر بدلنا ہوگا۔ جنگی اور انقلابی بنیادوں پر اصلاحات نافذ کرنا ہوں گی اور بدعنوان شخصیات کو مثالی سزائیں دلوا کر عبرت کا نشان بنانا ہوگا۔ یہ سب عمران خاں ہی کر سکتے ہیں۔