یقینا شاعری کھیل نہیں ہے اور نہ کھیل شاعری۔ مگر کہیں نہ کہیں دونوں ایک دوسرے کو یاد ضرور کرتے ہیں۔ میرا مطلب کہیں شاعری پر کھیل کا اور کہیں کھیل پر شاعری کا گمان ہونے لگتا ہے۔ مثلاً اگر آپ نے برائن لارا کو کھیلتے دیکھا ہو تو میری بات آپ کی سمجھ میں آ سکتی ہے۔ صرف کورڈرائیو ہی نہیں وہ بال کو ڈک کرتے ہوئے یعنی روکتے ہوئے ہی شاعری کرتا تھا۔ اس کا فٹ ،کلائیوں کا استعمال اور کمر کی لچک ۔ دوسرا کھلاڑی ماجد خاں تھا جو اپنے اسی شاعرانہ انداز کے باعث دنیا کے 10بڑے بیٹسمین کا پسندیدہ سٹائلش پلیئر تھا۔ آپ یقینا سوچ رہے ہونگے کہ آج اس موضوع کے چننے کا باعث کیا ہے! جی تو وجہ یہ بنی کہ فیس بک پر میں نے محترم اسلم ملک کی ایک پوسٹ دیکھی جس میں عمران نذیر کی کرکٹ میں غیر موجودگی کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ ظاہر ہے ایک میں ہی نہیں کرکٹ میں دلچسپی رکھنے والا ہر شخص سوچتا تھا کہ ٹوئنٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا بادشاہ عمران نذیر آخر کدھر چلا گیا کہ اتہ پتہ نہیں ۔ عمران نذیر وہ کھلاڑی ہے جس نے آئی پی ایل میں دھومیں مچا دی تھیں۔ ایک میچ میں تو اس نے 17چھکے مارے تھے۔ ایک انڈین مبصر نے کہا تھا اور خوب کہا تھا کہ ’’بھلا یہ بھی کوئی کھیلنے کا طریقہ۔ یہ تو بدتمیزی ہے۔ کہ بالروں کا بھرکس نکال دیا جائے یہ تو سیدھی سادی مار دھاڑ ہے‘‘ یہ دلچسپ تبصرہ تھا۔ وہ تو ٹیسٹ اور ون ڈے کو بھی ٹوئنٹی ٹوئنٹی سمجھ کر کھیلتا تھا یہ ایک انداز تھا کہ ’’آپ نہیں یا گاہک نہیں‘‘ میری ایک یاد بھی اس سے وابستہ ہے کہ ایک مرتبہ پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں اسے اور مجھے مہمانان خصوصی کے طور پر بلایا گیا۔ میری خوشی دہر ی تھی کہ میں اپنے ہی ادارے میں مہمان آیا جہاں سے میں پڑھ کر نکلا تھا۔ دوسرا عمران نذیر میرا فیورٹ فائٹر تھا۔ ہم دونوں کو سوال جواب کے لئے بٹھایا گیا۔ عمران نذیر سے شاعری سنانے کی فرمائش کی گئی تو وہ شرما کر کہنے لگا‘ شاعری تو شاہ صاحب سے سنیں‘ میں نے کہا کہ عمران نذیر ہمارا ہیرو ہے وہ بلا زمین پر کم ہی رکھتا ہے اور اس کے ہوتے ہوئے بالرز پریشان ہی رہتے ہیں دفاعی فیلڈ لیتے ہیں۔ معزز قارئین آپ یہ نہ سمجھیے کہ میرا تعلق کرکٹ سے نہیں۔ جناب ! یونیورسٹی ریزیڈینشل ٹیم کی طرف سے میں اور حامد میر اوپن کرتے رہے ہیں۔ یہی نہیں جب میں یونیورسٹی میں سپورٹس کی بنیاد پر ایم بی اے میں داخلہ لینے آیا تو ٹرائل دینے والوںمیں رمیض راجا بھی تھا اور میں بغیر ٹرائل ہی واپس گھر چلا گیا کہ مجھے راجا کے مقام کا اور اپنی اوقات کا معلوم تھا۔ بعدازاں میں نے راجا کو بتایا تو وہ بہت ہنسا اور کہنے لگا ٹرائل تو آپ کو دینا چاہیے تھا‘‘ آپ سوچ رہے ہونگے کہ عمران نذیر کی غیر موجودگی کی وجہ بتانا میں بھول گیا۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ ابھی بتاتا ہوں۔ یہ نوجوان عمران نذیر بالکل چیتے کی طرح کا فگر رکھتا ہے۔ وہ چاق و چوبند تو تھا ہی۔ دوسرا وہ ٹک کر نہیں کھیل سکتا۔ اسے بار بار چانس ملتا رہا مگر وہ اپنے انداز کو نہ چھوڑ سکا اور مار دھاڑ میں وکٹ گنوا بیٹھتا۔ آپ اس کا موازنہ شاہد آفریدی سے کر سکتے ہیں۔ دونوں ہی ناظرین کے دل دھڑکائے رکھتے ہیں۔ اسلم ملک صاحب نے لکھا ہے کہ کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ چاق و چوبند کھلاڑی اچانک ایک بیماری کی گرفت میں آ گیا اور بات ایںجارسید کہ وہ بلا تو کیا اٹھاتا اس کے لئے چائے کا کپ اٹھانا دشوار ہو گیا مگر اس نے ہمت نہیں ہاری اور اللہ سے پرامید رہا کہ وہ ایک دن دوبارہ ضرور کھیلے گا۔ بیماری کی شروعات 2013ء میں دبئی میں کھیلتے وقت کلائی میں ہونے والی درد سے شروع ہوئی۔ کرکٹ بورڈ کے میڈیکل پینل نے سرتوڑ کوشش کی کہ وہ ٹھیک ہو جائے۔ درد پورے جسم میں پھیل گیا۔ روحانی علاج بھی کروائے۔ مختصر یہ کہ خوش قسمتی سے عمران نذیر کی ملاقات ایک پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر سے ہوئی۔ ڈاکٹر نے عمران سے کہا کہ امریکہ جانے کی ضرورت نہیں ۔ اللہ نے کرم کیا اور اس ڈاکٹر کی ہدایات اور علاج کے باعث عمران نذیر صحت یاب ہو گیا اور اب اس کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف کھیل میں واپس آئے گا بلکہ اس بیماری کے شکار لوگوں کے لئے کچھ کرے گا۔ اللہ نے پاکستان کو کیسا کیسا ٹیلنٹ دیاہے۔ یہیں مجھے مشہور فزیو تھراپسٹ یوسف ربانی یاد آیا۔وہ کتنا منکسر المزاج شخص ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ایک مرتبہ جان شیر خان نے ٹی وی پر اپنے ساتھ ڈاکٹر یوسف ربانی کو بٹھایا اور بتایا کہ اگر وہ دوبارہ کھیلنے کے قابل ہوتا ہے تو اللہ کی مہربانی ہے کہ اسے یوسف ربانی جیسا ڈاکٹر میسر آ گیا۔ پھر مجھے بگ برادر ڈاکٹر خالد جمیل یاد آئے کہ وہ تو خود معذوری کا شکار ہوئے کنگ ایڈورڈ کالج کا رول نمبر 1‘ بیسٹ ڈبیٹر اور بیسٹ اتھلیٹ حادثے کا شکار ہوا تو نچلا دھڑ بے حس ہو گیا۔ اس کے بعد کیا ہوا کبھی آپ ان کی کتاب تیسرا جنم پڑھ کر دیکھیں میں نے کتاب پڑھی تو پھر اپنے اشک ہی پونچھتا رہا۔ توبہ ہے۔ کیا کتاب ہے۔ ایک بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ جس کلاس فیلو نے انہیں کہا تھا کہ ’’خالد تم ٹھیک ہو جائو‘ میں تمہارے ساتھ ہوں ‘ تمہاری ہوں‘‘ اس خیال نے بھی ان کے اندر وہ قوت پیدا کی کہ وہ معذوری سے لڑے اور ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور پھر بیساکھیوں کے سہارے چلنے لگے۔ جب وہ اس کلاس فیلو کے پاس کراچی پہنچے تو بات یہ کھلی کہ اس نے کہا ’’خالد اگر میں تمہیں اس وقت یوں تسلی نہ دیتی تو تم اتنی جلدی صحت یاب نہ ہوتے۔ ظاہر ہے یہ جواب تلوار کے گھائو سے زیادہ شدید تھا: وہ مجھ کو چھوڑ گیا تو مجھے یقیں آیا کوئی بھی شخص ضروری نہیں کسی کے لئے کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ زندگی میں اونچ نیچ آتی ہے۔ ناامید نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ سے لو لگانا چاہیے۔ اللہ کرم کر دیتاہے۔ ناامیدی تو ویسے ہی کفر ہے۔ شفا من جانب اللہ: میری سوچوں کا تصور ہے وہی ذات کہ جو جہاں ہوتے نہیں اسباب بنا دیتی ہے کرکٹ سے بات چلی تھی تو چلیے آخر میں ہم بائولر محمد عباس کو ٹیسٹ کیپ ملنے پر مباکباد دیتے ہیں۔ اس ہونہار بائولر کو باؤلنگ کرواتے بھی دیکھا ہے اور تجزیہ کاروں سے اس کی تعریف بھی بہت سنی ہے۔ انضمام الحق پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ٹیلنٹ سے فائدہ اٹھایا جائے اسی لئے نئے کھلاڑیوں کو ٹیسٹ کیا گیا۔ تبھی تو آسٹریلیا سے ہم سیریز ہارے۔ اصل تو ورلڈ کپ کے لئے تیاری تھی جس کے بارے میں انضمام الحق کہتے ہیں کہ وہ فائنل کھیلیں گے اللہ ان کی خواہش قبول کرے۔ ہم تو اپنی کرکٹ ٹیم کے لئے نیک تمنائیں رکھتے ہیں خدا کرے کہ وسیم اکرم اور وقار یونس جیسے لوگ ایک بار پھر ہمیں میسر آئیں۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: تب کہیں جا کے حقیقت کی طرف آیا میں اس نے آنکھوں سے مری خواب گزارے