اس ملک میں اگر کوئی شخص کرپٹ عناصر کا احتساب کر سکتا ہے تو وہ عمران خان ہے ۔ عمران خان کے علاوہ کوئی ایسا سیاست دان نہیں جو اقتدار میں بھی آ سکے اور اس میں احتساب کا یہ بھاری پتھر اٹھانے کی ہمت بھی ہو۔لیکن سوال یہ ہے کیا عمران خان ایک بامعنی اور ٹھوس احتساب کر پائیں گے؟اپ چاہیں تو اس میں ایک اور سوال کا اضافہ بھی کر سکتے ہیں۔ وہ یہ کہ اگر عمران پر اتنا ہی اعتماد ہے تو پھر یہ اندیشہ کیوں؟ مناسب ہو گا اعتماد اور اندیشے ، دونوں پر بات کر لی جائے۔ عمران پر یہ اعتماد کیوں ہے؟ اس کی وجوہات بہت سادہ اور نہایت واضح ہیں۔ عمران خان خود کرپٹ نہیں۔ کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت گواہ ہے کہ اقتدار کو انہوں نے دولت کے انبار اکٹھے کرنے کا وسیلہ نہیں سمجھا۔ انہوںنے یہاں بیوی اور بچوں کے لیے قارون کے خزانوں سے بھری سلطنت چھوڑنے کا کوئی منصوبہ نہیں بنا رکھا۔ان کے کندھے کرپشن اور حرام کے مال کے وزن سے جھکے ہوئے نہیں ہیں۔ان کے نامہ اعمال میں ایسا کچھ نہیں کہ وہ کسی کے ہاتھوں بلیک میل ہو جائیں۔ان کے یہاں ایسے کوئی دھندے نہیں کہ وہ خورشید شاہ اور حمزہ شہباز کی یہ دھمکیاں سن کر کانپنے لگیں کہ کل اقتدار ہمارے پاس ہو گا تو تمہارا کیا بنے گا۔انہوں نے کوئی ایسی واردات نہیں ڈال رکھی کہ مستقبل کے اندیشوں سے گھبرا جائیں۔ اپنے نامہ اعمال کے حوالے سے وہ ایک بے خوف وزیر اعظم ہیں۔ عمران خان کو اقتدار ملا تو اس کی ایک وجہ احتساب کا نعرہ ہے۔ عمران یہ وعدہ کر کے آئے ہیں کہ جنہوں نے ملک کو لوٹ کھایا وہ ان کا احتساب کریں گے۔یہ نعرہ ان کی طاقت بھی ہے۔ ان کی یہ طاقت ان پر اعتماد کی دوسری وجہ ہے۔وہ اگر بے رحم احتساب بھی شروع کر دیں تو ان کے خلاف سڑکوں پر آ کر ان کے اعصاب کو چٹخانا اور انہیں پسپائی پر مجبور کر نا فی الوقت کسی کے لیے ممکن نہیں۔وہ جتنا بے رحم احتساب کریں گے ان کی مقبولیت میں اتنا ہی اضافہ ہو گا۔ لوگ اسی کام کی ان سے توقع رکھتے ہیں اس لیے مظلومیت کی آڑ میں کوئی بھی تماشا لگانا ممکن نہیں۔ان کے وابستگان پاکستان کو بدلنے کی آس میں مہنگائی کا بھی یہ کہہ کر دفاع کر رہے ہیں کہ ملک کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنا ہے تو مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔وہ کسی کرپٹ پر تعزیر کے برستے کوڑے پر کیسے بد مزہ ہوسکتے ہیں۔امکان یہ ہے وہ جتنا بے رحم ہوں گے اتنا ہی مقبول ہوں گے۔ کیونکہ عوام الناس کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔عمران کے اعتماد کا یہ عالم ہے کہ تجاوزات کے خلاف مہم کی زد میں ان کی اپنی پارٹی کے لوگ بھی آ گئے ہیں اور کسی میں ہمت نہیں وہ مزاحمت کر سکے۔پہلی بار ریاست کی عملداری نظر آ رہی ہے۔ احتساب کے حوالے سے عمران پراعتماد کی تیسری وجہ ان کا ٹیم کا انتخاب ہے۔عمران خان نے احتساب کے عمل کے لیے جس شخص کا بطور مشیر انتخاب کیا ہے اس کا نام بیرسٹر شہزاد اکبر ہے۔میری رائے میں یہ ایک بہترین انتخاب ہے۔بیرسٹر شہزاد اکبر اپنے کام سے کام رکھنے والا قانون دان ہے جس کی عمومی شہرت اچھی نہیں ، بہت اچھی ہے۔ دیانت دار اور جرات مند آدمی ۔اس شعبے میں اب بچے ہی کتنے ہیں جن کے بارے میں آپ اس اعتماد سے گواہی دے سکیں ۔ پھر یہ بیرسٹر شہزاد اکبر نیب کے معاملات کو بھی بخوبی جانتے ہیں۔وہ نیب کے لیگل کنسلٹنٹ اور سپیشل پراسیکیوٹر رہ چکے ہیں۔ان کے بارے میں حسن ظن ہے کہ وہ جنس بازار نہیں۔ موجودہ حالات میں یہ عمران خان ہی نہیں جو انجمن فروغ کرپشن کو نکیل ڈال سکتے ہیں۔لیکن اس اعتماد کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا وہ اس بھاری پتھر کو اٹھا پائیں گے؟اب ہم اس نکتے کی طرف آتے ہیں کہ یہ خدشہ کیوں جنم لے رہا ہے۔ مختصرا میں عرض کیے دیتا ہوں۔ 1۔عمران خان کرپٹ عناصر کے خلاف شدید غصے میں ہیں۔ وہ بار بار کہہ رہے ہیں انہیں چھوڑوں گا نہیں۔یہ جذبہ اگر چہ بہت نیک ہے اور امید ہے وہ بالکل کوئی کمپرومائز نہیں کریں گے لیکن ڈر ہے یہ غصہ کہیں انصاف اور انتقام کے درمیان باریک سے فرق کو ختم نہ کر دے۔ شریف برادران کے بارے میں ان کے جذبات کوئی راز کی بات نہیں۔ اس تلخی میں ان کے کچھ ذاتی حوالے بھی ہیں جن کا وہ اکثر اظہار بھی کر جاتے ہیں اور وہ بھی بھرے جلسوں میں۔ اس فرق کو قائم رکھنا کوئی معمولی کام نہیں۔ یہ بہت مشکل کام ہے ۔دعا ہے کہ وہ اس فرق کو قائم رکھ پائیں اور خدشہ ہے کہیں یہ فرق ختم نہ ہو جائے۔ 2۔احتساب کا کوڑا اگر صرف شریف خاندان کی کمر پر برستا رہا تب بھی سوال اٹھیں گے اور اس فہرست میں اگر ساتھ آصف علی زرداری بھی شامل ہو گئے تب بھی سوالات ختم نہیں ہوں گے۔ایسا نہیں ہے کہ سارے کرپٹ عمران کی مخالف جماعتوں میں ہیں اور سارے متقی اور نیک لوگ عمران کے حلیف ہیں۔ احتساب کے عمل کا بھرم صرف اسی صورت میں قائم رہ پائے گا جب قانون سب کی دہلیز پر دستک دے۔ خود تحریک انصاف میں ایسے لوگ موجود ہیں جو نیب کو مطلوب ہیں اور تحریک انصاف کی حلیف جماعتوں میں سے تو کچھ ایسے ہیں جو اس وقت اہم عہدوں پر ہیں اور ماضی میں ان کے خلاف نیب میں درخواستیں دینے والا کوئی اور نہیں خود عمران خان تھے۔تو کیا عمران خان ان سب پر تعزیر لاگو کریں گے یا یہ احتساب صرف اپوزیشن کے لیے ہو گا۔یہ سوال اتنا اہم ہے کہ اگر اس کا درست جواب نہ دیا گیا تو احتساب کا سارا عمل اپنی معنویت کھو بیٹھے گا۔ 3۔احتساب کی مختلف شکلیں ہیں۔ناجائز تجاوزات کے خلاف کارروائی کو بھی میں احتساب ہی سمجھتا ہوں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ دارالحکومت میں کئی گھر ، کئی عمارات ، کئی ہوٹل گرائے جا چکے۔ ایک رہائشی کالونی بھی سنا ہے سی ڈی اے کی زمین پر ہے اور گرائی جانے والی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ کالونی بن رہی تھی، جب زمینوں کا جعلی انتقال ہو رہا تھا تب سی ڈی اے خاموش کیوں رہا۔ اسلام آباد میں باہر کے شہروں سے لوگ آتے ہیں کسی نے کالونی بنتی دیکھی اورجگہ لے لی۔ کیا یہ ریاست اور متعلقہ اداروں کا کام نہیں تھا کہ لوگوں کو آگاہ کرتی کہ کالونی ناجائز ہے ۔ اب ان کے گھر گرائے جا رہے ہیں لیکن جن طاقتور شخصیات نے پلاٹ بیچے ، جن حکمرانوں کی شہہ پر بیچے اور سی ڈی اے کے جن اہلکاروں کی ملی بھگت سے بیچے ان کے خلاف کیا کارروائی ہو گی؟عام آدمی کو زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم کرنے جا ہی رہے ہیں تو یہ تو بتائیے جنہوں نے ان لوگوں کو دھوکہ دے کر یہ پلاٹ بیچے ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ہے؟کیسے ممکن ہے ایک پوری کالونی اور سینکڑوں گھر بن جائیں اور سی ڈی اے کو علم نہ ہو۔ ریاست جب تک کرپٹ ریاستی اہلکاروں کو سزا نہیں دے گی اور عام لوگوں پر قہر بن کر ٹوٹ پڑے گی تو احتساب کا عمل نفرت اور اضطراب بھی پیدا کر سکتا ہے۔ 4۔ احتساب بہت ضروری ہے لیکن اگر یہ کام حکمت کے ساتھ نہ کیا گیا تو آپ کی معیشت تباہ کر دے گا۔کرپشن ہمارے متعلقہ اداروں کی رضامندی سے ہوتی ہے۔ بلکہ یہی ادارے راستہ دکھاتے ہیں کہ یوں کر لیجیے۔اب خدشہ یہ ہے کہ احتساب کے نام پر یہ ادارے اور ان کے اہلکار کاروباری طبقے کو طرح طرح کے نوٹس بھیج کر ہراساں نہ کرنا شروع ہو جائیں۔کرپٹ عناصر کا احتساب ہونا چاہیے لیکن احتساب کے نام پر کاروباری طبقے کو ہراساں کرنا ، انہیں بلاوجہ الجھانا اور پھر اس الجھن سے نکالنے کے لیے رشوت طلب کرنا ۔۔۔۔ ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ اس واردات کا شدید خطرہ موجود ہے ۔ اور اگر ایسا ہوا تو معیشت کے لیے تباہ کن ہو گا۔خوف اور سرمایہ ایک جگہ نہیں رہ سکتے۔ ایسا نہ ہو سرمایہ دار ملک سے پیسے نکال کر بیرون ملک انویسٹ کرنا شروع کر دے۔ امید بھی غیر معمولی ہے اور اندیشے بھی معمولی نہیں۔