کراچی کے اوسط درجے کے علاقے براہیم حیدری کورنگی کامیر حسن ریڑھی بان تھا لیکن کچھ عرصے سے کام نہ ملنے کی وجہ سے بہت افسردہ اور غمگین تھا، وہ جب بھی گھر آتا اس کے معصوم بچے دوڑ کراسے اس وجہ سے لپٹ جاتے کہ شایدآج بابا کچھ کھانے کو لائے ہوں ، میر حسن کی آنکھوں میں آنسو لیکن ہاتھ خالی ہوتے۔میر حسن کانام تو امیروں جیسا تھا مگر وہ اپنے نام جیسی تقدیر پانے میں ناکام رہاتھا۔غربت اور بے چارگی نے اس کے گھرانے کو اپنے چنگل میں لے رکھا تھا۔وہ واجبی سا پڑھا لکھاتھا، کسی دفتر میں یا کوئی سرکاری نوکری ملنانہ تو اس کے مقدر میں تھا اور نہ ہی کوئی کاروبار کرنے کے قابل تھا۔ شادی کے بعد اس نے محنت مزدوری شروع کردی ۔ دوسال پہلے بے روزگاری،مہنگائی کے عفریت نے غریبوں کی بستیوں کا رخ کیا تو میر حسن بھی ان کی لپیٹ میں آگیا۔ اب تین ماہ سے محنت مزدوری بھی ملنا مشکل ہو گئی تھی اور میر حسن کے کچے گھروندے میں نوبت فاقوں تک آپہنچی تھی،بچے بلک بلک کر بابا سے روٹی کے علاوہ سردی میں جسم ڈھانپنے کے لئے گرم کپڑے بھی مانگنے لگے تھے۔35سالہ میر حسن بیوی اور بچوں کی حسرت بھری نگاہوں کی تاب نہ لا کر کھانا اور بچوں کے لئے گرم کپڑے لانے کا وعدہ کرکے چپکے سے گھر سے نکل جاتا، وہ سارا دن بے سمت اِدھر ادھر بھٹکتا رہتا،کہیں بھی اس کی امید بر نہیں آئی اور وہ مایوسیوں کے اندھے کنوئیں میں اترتا چلا جاتا۔وہ کئی روز تک روزگار کی تلاش میں سرگرداں رہا لیکن نہ تو اسے کہیں روزگار میسر آسکا اور نہ ہی کسی نے اسے کچھ ادھار دیا۔وہ روز ایک نئے دروازے پر دستک دیتا اور ملتجی نگاہوں سے چند روپوں کا سوال کرتا لیکن وہ ہر دروازے سے نامراد لوٹتا۔ اب تو اس کے پائوں میں چھالے پڑ گئے تھے۔ پھر ایک روز اسے اچانک خیال آیا کہ وہ وزیر اعظم عمران خان سے رجوع کرے ،انہیں خط لکھے کہ مجھے روزگار اور گھر دو۔ اسے پتہ تھا کہ وزیر اعظم عمران خان دوسرے بادشاہوں سے مختلف ہیں،وہ کتنی اچھی تقریریں کرتے ہیں اور اپنی شعلہ بیانی سے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں،وہ غریبوں کی یاوری کرتے ہیںیقینا اس کی سنیں گے ،اسے یقین تھا کہ وہ ضروراس کی دادرسی کریں گے اور وہ ایک نئی زندگی کی راہ پر چل پڑیں گے۔ میر حسن کے دماغ میں امیدوں کے جگنوجگمگانے لگے۔جیسے ہی میر حسن کو وزیر اعظم کو خط لکھ کر ان سے مدد مانگنے کا خیال آیا تو خوشی اور امید کی ایک لہر اس کے پورے بدن میں پھیل گئی۔ میر حسن نے کہیں سے ایک کورا کاغذ ڈھونڈا اور اپنے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں عمران خان کو امداد اور گھر کے لئے درخواست لکھی۔ اس سے اپنے بچوں کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی تھی،وہ جب بھی گھر جاتا سردی سے ٹھٹھرتے اور بھوک سے بلکتے بچے کھانے اور گرم کپڑوں کا مطالبہ دہراتے ۔وہ بچوں کی جائز خواہشات پوری نہ کر سکنے پر شرمندگی محسوس کرتا اور خود کو دل ہی دل میں خود کوکوستا۔ہر طرف سے مایوس ہو کر میر حسن نے ایک بڑا فیصلہ کرڈالا، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کر لے گا لیکن اپنے بھوکے اور مناسب لباس سے محروم بچوں کا سامنا نہیں کرے گا۔ نئے سال کے نویں روزمیر حسن نے کہیں سے تھوڑے سے پیٹرول کا انتظام کیا اور ماچس لے کر قریبی قبرستان جا گھسا۔جہاں اس نے پیٹرول اپنے بدن پر چھڑک کر اسے آگ دکھا دی۔ذراسی دیر میں اس کے پورے بدن کو شعلوں نے لپیٹ لیا۔ قبرستان کی ویرانی میں کوئی فوری طور پر اس کی جان بچانے کونہ آ سکا۔کسی راہگیر نے ایک شخص کے شعلوں میںجھلسنے کامنظردیکھا تو شور مچا کر اردگرد سے لوگوں کومدد کے لئے پکارا لیکن اب بہت دیر ہوچکی تھی، اس کے جسم کا بیشتر حصہ جھلس گیاتھا۔ میر حسن کو اسپتال لے جایا گیا ۔ڈاکٹروں نے اس کی زندگی سے متعلق مایوسی کااظہار کیا،اس کے باوجود انہوں نے اپنے تئیں اس کو بچانے کی کوشش کی لیکن وہ جانبر نہ ہو سکا اور چل بسا۔ عملے نے بتایا کہ کہ میر حسن کو جب اسپتال لایا گیا تو اس کے جسم کا 60 فیصد حصہ جل چکاتھا،ایسی صورت میں اس کا بچنا محال تھا۔میر حسن کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ وہ 3 ماہ سے بے روزگار تھا اور مہنگائی سے تنگ تھا، اس نے خودکشی سے قبل وزیراعظم عمران خان سے اپیل کی کہ اہل خانہ کو گھر اور روزگار فراہم کیا جائے۔میر حسن کا خط وزیر اعظم تک تونہ پہنچ سکا لیکن اوپرسے اس کے لئے موت کاپروانہ ضرور آگیا۔ شہر قائد میںمیر حسن کی خود کشی 2020ء کا پہلا واقعہ ہے۔سندھ میں خودکشی کے اعداد و شمار نے حکومت اور سماج کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے، 5 برس کے دوران سندھ میں 1300 سے زائد افراد نے اپنے ہاتھوں اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرلیا۔ ان واقعات میںاہم پہلویہ ہے کہ خودکشیوں کے زیادہ تر واقعات عمر کوٹ، تھرپارکر اور میر پور خاص میںہوئے، ان 5سالوں میںصرف عمر کوٹ، میر پور خاص اور تھر پار کر میںخودکشیوں کے 646 واقعات رپورٹ ہوئے۔صرف پچھلے ایک سال میں ان تین اضلاع میں 160 افراد نے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرلیااور ان میں زیادہ تعداد نوجوانوں اور خواتین کی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ میں میرپورخاص وہ ڈویژن ہے جہاں 5 برسوں کے دوران خودکشی کے سب سے زیادہ واقعات ہوئے اور 646 افراد نے اپنے ہاتھوں سے ہی اپنی جان لے لی ان میں سے 356 خواتین اور 290 مرد تھے۔ خودکشیوں کے اعدود و شمار کے گراف میں حیدرآباد ڈویژن دوسرے نمبر پرہے جہاں مجموعی طور پر 299 افراد نے خودکشی کی، جن میں 183 مرد اور 116 خواتین تھی۔ نواب شاہ ڈویژن میں 181 افراد نے خودکشی کی جن میں 106 مرد اور 75 خواتین تھیں۔اسی طرح لاڑکانہ ڈویژن میں 48 افراد نے خودکشی جن میں 36 مرد اور 12 خواتین تھیں۔ سکھر ڈویژن میں خودکشیوں کا رجحان سب سے کم رہا جہاں 4 مرد وںاور 2 خواتین نے خودکشی کی جب کہ کراچی میں پچھلے پانچ سال کے دوران 107 افراد نے خودکشی کی جس میں 82 مرد اور 25 خواتین تھیں۔ اس الم ناک کہانی کی خاص بات یہ ہے کہ خودکشی کرنے والے ان افراد میں سے 702 افراد 21 سے 40 سال کی عمر میں تھے۔صحرائے تھرکو امن کی سرزمین قراردیا جاتا ہے ،وہاں خودکشیوں کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے ۔ تھرپارکرمیںگزشتہ برس کے دوران 77 افراد نے خود کشیاں کیں جن میں 47 خواتین بھی شامل ہیں،جہاںجنوری میں 3، فروری میں 4، مارچ میں 3 اور اپریل میں 2 خواتین نے اپنی زندگی کاخاتمہ کیا۔ مئی کے مہینے میں 3، جون اور جولائی میں 6،6 جب کہ اگست، ستمبر اور اکتوبر میں 4،4 خواتین نے خودکشی کی۔ نومبر میں 6 خواتین اور دسمبر میں 4 خواتین کی خودکشیوں کی رپورٹ سامنے آ چکی ہے۔غربت ، بے روزگاری اور دوسرے سماجی مسائل نے معاشرے کی چولیں ہلا کررکھ دی ہیں۔نظام کی کمزوریوں اور حکومتوں کی ناکامیوں نے پاکستان جیسی عظیم مملکت خداداد کو غربت اور افلاس کی تصویر بنا دیا ہے۔ہم 73برسوں سے پاکستان کے عام آدمی کو ایندھن کے طور پر استعمال کررہے ہیں لیکن اس کی زندگی میں رنگ بھرنے کی بجائے اسے مایوسی اور افسردگی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔ ابراہیم حیدری کورنگی کے میر حسن کا وزیراعظم عمران خان کے نام خط حکمرانوں کے نام ایک ایف آئی آر کے مترادف ہے،اگراس ملک کے حکمران اب بھی نہ جاگے تومستقبل میں عوام کے ہاتھ بالا دست قوتوں کے گریبانوں پر ہوں گے۔