چوبیس سالہ جدوجہد کا انجام اگر یہی ہونا تھا تو پھر اسے جاری کیوں رکھا گیا ۔جس زمانے میں خان صاحب کو شہرت ملی بلاشبہ وہ وقت بھی بڑا اہم تھا۔ قوم ذوالفقار علی بھٹو کی نرگسیت سے نکل رہی تھی اور خان صاحب کے پاس کھیل کا میدان تھا اور ملک پر آمریت مسلط تھی۔ عالمی سطح پر بھی بہت کچھ وقوع پذیر ہورہا تھا۔محمد خان جونیجو، بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف صاحب کے ادوار آئے۔ عمران خان صاحب کی شادی ہم پر طویل عرصہ اقتدار میں رہنے والے طاقتور ترین خاندان کی بیٹی جمائمہ سے ہوچکی تھی جو عالمی میڈیا کے ساتھ ساتھ اس خطے میں بھی بہت اہمیت کی حامل گردانی جاتی تھی۔ نواز شریف صاحب کی حکومت تھی کہ ایک واہمہ لاحق ہوا کہ موصوف سیاست میں ہی نہ آ ن ٹپکیں۔اندر کھاتے کھچڑی پکنا شروع ہو گئی۔ ایک سرخ دائرہ لگا دیا گیا، چونکہ عمران خان سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے اور ساتھ جمائمہ بھی ہوتیں۔ میڈیا پر جمائمہ کے خاندان کے تانے بانے انہی طاقتوں کے ساتھ ملائے گئے جو پاکستان میں لعنت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں۔ اسی دوران جمائمہ خان پر ٹائل چوری کا مقدمہ درج ہوا جو عالمی میڈیا میں ہاتھوں ہاتھ بکا ۔ اس سے گولڈ سمتھ خاندان کو بڑی خفگی اٹھانا پڑی جو کہ شاہی خاندان کے بعد برطانیہ کا مشہور ترین اہم خاندان تھا خیر بات اس حد تک بڑھی کہ جمائمہ نے عمران خان سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا۔ اور پھر باہمی رضامندی سے علیحدگی ہوگئی۔ وہاں کے قوانین کے مطابق جمائمہ کو طلاق لینے کے لیے کثیر رقم دینی پڑ رہی تھی مگر خان صاحب نے ایک پاؤنڈ بھی لینے سے انکار کردیا ۔جمائمہ عمران خان صاحب کے دو بیٹوں کی ماں بھی تھیں جو اب جوان ہو چکے ہیں۔ اب آتے ہیں دوسری طرف خان صاحب کو اس بات کا شدید رنج و غصہ تھا جو کہ برصغیر کے مزاج کے عین مطابق بنتا تھا، برطانیہ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ مگر ہمارے معاشرے میں کسی کا گھر اجاڑنا بدترین حرکت شمار ہوتی ہے بلکہ بات دشمنی تک چلی جاتی ہے۔ خان صاحب سیاست میں قدم رکھتے ہیں اور ایک مخصوص لہجہ اپناتے ہیں جس میں دن بدن سختی اور تلخی بڑھتی جاتی ہے۔ پھر چینل کا دور آ جاتا ہے کبھی ایک چینل کبھی دوسرے چینل پر ان دنوں لگتا تھا کہ خان صاحب کو کوئی اور کام ہی نہیں ۔بے نظیر بھٹو کے متعلق ان کا لب ولہجہ کافی حد تک نرم تھا مگر نواز شریف اور نواز لیگ اور ان کے احباب ان کی ہٹ لسٹ پر ہوتے تھے ۔دونوں پارٹیوں سے بیزار لوگ اور بے نظیر کی وفات کے بعد پارٹی سے بدظن کچھ خاموش لوگ جو کبھی بھی سیاست کا حصہ نہیں تھے مگر عمران خان کے ساتھ ہوتے گئے۔ لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا حیران کن طور پر ایلیٹ کلاس بھی پہلی دفعہ سڑکوں پر ان کے ساتھ نظر آئی۔ شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں کسی نے اتنے دنوں جلسے جلوس کیے ہوں جتنے خان صاحب کر چکے ہیں ۔دوسری طرف عوام کافی حد تک دو پارٹی نظام سے تنگ آچکے تھے لہذا جدید میڈیا کی آمد نے خان صاحب کو چار چاند لگا دیے۔ ان حالات میں جب ملک معاشی طور پر انتہائی سست روی سے چل رہا تھا کوئی بہتری کی صورت نظر نہیں آرہی تھی تو مقتدرہ کی نظر ان پر پڑی اور انہیں ایک موقع دینے کا فیصلہ ہوا۔ بلاشبہ انکی نظرکرم سابقین سے زیادہ تھی یعنی پورا موقع دیا گیا کہ آپ کام کریں، ملک کو آگے لے کر چلیں۔ مگر وہ لاوا جو بہت پرانا تھا جسے برصغیری کبھی بھی فراموش نہیں کرتے وہ اسی سرشت کی وجہ سے اپنی ضد پر اڑ گئے کہ میں انہیں نشان عبرت بناوٗں گا چاہے جو مرضی ہو جائے۔ حالانکہ بہت سے لوگوں نے اور لانے والوں نے باور کروایا کہ آپ اس پر وقت ضائع کر رہے ہیں، اپنا کام کریں اس پر توجہ دیں یہ خود بخود ختم ہو جائیں گے ۔ظاہر ہے ان دونوں پارٹیوں کے بھی اندرونی اور بیرونی سہولت کار تھے جو انہوں نے اقتدار کے دوران بنائے تھے جس کی وجہ سے انہیں نشان عبرت بنانا ناممکن تھا۔ خان صاحب کی ضد، ایک دفعہ تو ساروں کو اندر کر دیا چلو بس کر دیں ،سینے میں ٹھنڈ ڈالنے کے لئے یہی کافی تھا مگر غصہ ایسا تھا کہ یہ سانس بھی کیوں لے رہے ہیں۔ بھلا ایسے کیسے ممکن تھا اس کا نقصان یہ ہوا کہ یہ غصہ آگے پوری پارٹی پر بھی غالب آگیا اور پارٹی بھی وہ جو نوجوانوں کی کثیر تعداد رکھتی ہے۔ وہ لوگ ایک ایک کرکے رہا ہوتے گئے اور منہ چڑانے لگے۔ غصہ اور شدید ہوا اتنا شدید کے اپنے ہی لانے والوں پر برہم ہو گئے ۔ یہ تھی ریڈلائن۔ بدقسمتی یہ کہ ایسا کرتے ہوئے خان صاحب بھول گئے کہ یہ غصہ نیچے تک چلا جائے گا 24 سال میں وہ ایک جمہوری پارٹی جس میں اکثریت سابقہ پارٹیوں کے لوگوں کی تھی مزاحمتی پارٹی کی شکل اختیار کرنے لگی ۔قومی اسمبلی سے استعفے، صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے خوفناک اور اپنی طویل جدوجہد پر پانی پھیرنے والے فیصلے سے صاف نظر آ رہا تھا کہ خان صاحب آگ سے کھیلنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ چاہتے تو خاموش ہوجاتے اگر انہوں نے اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ نہ کیا ہوتا تو باہر جلسے کر رہے ہوتے اندر ان کا نظام معطل کر چکے ہوتے مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ ہجوم کو کنٹرول کرنا بہت بڑا فن ہے ۔ریاست بھی ہجوم پر طاقت استعمال کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتی ہے مگر خان صاحب ہجوم کی نفسیات سے آگاہ نہیں تھے۔ جب وہ اکثر کہتے ہیں کہ مجھ سے زیادہ یورپ کی جمہوری سیاست کو کون سمجھتا ہے تو صاف مطلب یہ کہ برصغیر کی سیاست سے وہ قطعی ناآشنا ہیں۔ یہاں کی سیاست لچک کی متلاشی ہے جسے خان صاحب منافقت، ریاکاری، جھوٹ کہتے ہیں ۔ ایسے نظام کو جامد ہونا ہی تھا۔ خان صاحب کی گرفتاری پر جو ردعمل آیا ہے وہ سیاسی خودکشی تھا۔ جس سے وہ لاکھ دامن چھڑا ئیں یہ داغ آسانی سے نہیں جائیں گے ۔کاش وہ اپنے کام پر توجہ دیتے ۔کوئی ایک منصوبہ پکڑتے بھلے انرجی کے بحران کے حل کا ہی ہوتا ۔قوم سے کہتے اور میں کچھ نہیں کروں گا یہ جانے عدالتیں جانے ،نیب جانے میں اپنا کام کروں گا ۔آج بجلی کا بحران ختم ہوتا تو انڈسٹری چل رہی ہوتی اور ان کے پاس ایک نعرہ ہوتا۔ اصل بات یہ ہے کہ ان سیاستدانوں کو اقتدار سے نکالنے کا موجب بھی عمران خان صاحب تھے اور انہیں دوبارہ اقتدار میں لانے کی وجہ بھی عمران خان ہی ہیں۔ ویسے ایک سبق بھی ہے اس میں کہ کسی کا گھر نہیں اجاڑنا چاہیے۔