وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری کا یہ فرمان کہ ’’عوام حکومت سے نوکریاں نہ مانگے‘‘ سن کر فیض احمد فیض کی غزل کا یہ مصرع نوک زباں پر آ گیا: مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ مراد یہ کہ انتخابی مہم کے دوران کئے گئے وعدے ہمیں یاد مت دلائو۔ اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے، ہمارے ہی نہیں حکومت کے مہرباں بھی ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ فواد چودھری صاحب بھی‘ شیخ رشید کی تقلید میں نیوز میکر بننے کی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں۔ کبھی وہ چاند کے طلوع و غروب پر طبع آزمائی کرتے ہیں اور کبھی معیشت کے نشیب و فراز اور روٹی مانگتے عوام پر چاند ماری کا شوق فرماتے ہیں۔ وہ کوئی نہ کوئی چونکا دینے والی بات کرتے ہیں تاکہ خبروں کی زینت بنتے رہیں۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فواد چودھری نے آن واحد میں خوابوں کا وہ شیش محل زمیں بوس کر دیا، جو عمران خان نے بڑی محنت سے تعمیر کیا تھا۔ چودھری صاحب نے کہا کہ عوام حکومت سے نوکریاں نہ مانگے۔ روزگار دینا حکومت کا نہیں نجی شعبے کا کام ہے۔400محکمے بند کرنے پر غور رہے ہیں۔ مزید برآں یہ بھی فرمایا کہ ہم روزگار دلانے لگ جائیں تو معیشت برباد ہو جائے گی۔ پی پی‘ نون لیگ نے نوکریوں کی بندر بانٹ سے اداروں کو تباہ کیا۔ جس نجی شعبے کا فواد چودھری ذکر کر رہے ہیں اس کی تباہ حالی کا جائزہ بھی لیں گے۔ سوال یہ ہے کہ جناب عمران خان نے اپنی انتخابی مہم کے دوران عوام کو ایک کروڑ نوکریاں دلانے کا وعدہ نہیں کیا تھا؟ کیا انہوں نے غریبوں کے لئے 50لاکھ گھر تعمیر کرنے کی نوید نہیں سنائی تھی؟ کیا انہوں نے بے وسیلہ لوگوں کو وسیلہ روزگار مہیا کرنے کا عہد نہیں کیا تھا؟کیا فواد چودھری نے یک جنبش لب پی ٹی آئی کے انتخابی عہدو پیمان پر خط تنسیخ پھیر دیا ہے اور سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے جناب عمران خانے کے وعدے میں ایسی کوئی بات نہ تھی کہ نوکریاں دینا پرائیویٹ سیکٹر کا کام ہے۔ اس وقت کاروباری نجی شعبے کا جو حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ تاجر بیچارے کبھی اسلام آباد میں صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں کبھی فیصل آباد میں شٹر ڈائون۔ ہڑتال کرتے ہیں کبھی جا کر آرمی چیف سے ملاقات کرتے ہیں آرمی چیف ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان کے زخم تو تب بھریں گے جب تاجروں کے بقول حکومت اپنی ’’ظالمانہ پالیسیوں‘‘ کو واپس لے گی ہمارا ذاتی تجربہ بھی یہ ہے ٹیکس کے معاملات سہل بنانے کی بجائے انتہائی پیچیدہ بنا دیے گئے۔ میرا بیٹا باہر سے ایک اکائونٹ میں کچھ رقم بھیجتا ہے ٹیکس ریٹرن کے لئے میں نے اپنے بنک کے منیجر سے کہا کہ آپ یہ سرٹیفکیٹ دیں کہ ان کے بیٹے کی طرف سے یہ رقم زرمبادلہ کی شکل میں آئی ہے۔ بنک منیجر نے کہا کہ سر اب یہ سرٹیفکیٹ کراچی سے آئے گا۔ یقین کیجیے دو ماہ گزر گئے ہیں مگر یہ سرٹیفکیٹ بنک کے ہیڈ آفس سے نہیں آیا۔ مگر 21ویں میں ای بنکنگ کے اس دور میں بھی ہماری 18ویں صدی والی سوچ قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے اور یہ انقلابی حکومت بھی اس سوچ کو بدلنے میں بے بس دکھائی دیتی ہے۔ 13اکتوبر کو ورلڈ بنک کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2020ء میں شرح نمو صرف 2.4رہے گی جبکہ مہنگائی میں 13فیصد اضافہ ہو گا۔ ایسا ہی ایک جائزہ آئی ایم ایف نے 15اکتوبر کو لیا ہے جس کے مطابق 2020ء میں گروتھ ریٹ 2.4فیصد رہے گا۔ ان دونوں عالمی اداروں نے سردست پاکستانی معیشت میں بہتری اور مہنگائی میں کمی کے کسی امکان کی نشاندہی نہیں کی ہے۔ تحریک انصاف کے انتہائی بااثر رہنما جہانگیر ترین نے گزشتہ روز اعتراف کیا ہے کہ مہنگائی ہے۔ انہوں نے عوام کو دلاسا دیتے ہوئے کہا کہ سال چھ ماہ مزید صبر کریں حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ لوگ مرغی اور چوزے پا لیں تو معیشت بہتر ہو سکتی ہے۔ زرعی ترقی کا عالمی و انقلابی شعور رکھنے اور اس شعور کو اپنی زرعی اراضی پر بروئے کار لانے اور صحرائوں کو نخلستانوں میں بدلنے اور بے آب و گیاہ زمینوں کو گل گلزار بنانے والے جہانگیر ترین کی طرف سے مرغیاں چوزے پالنے کی سوچ سے معیشت کی بدحالی کو خوش حالی میں بدلنے کی بات باعث حیرت ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے برسر اقتدار آتے ہی ہم نے بڑی تفصیل سے اس جدید زرعی ٹیکنالوجی کا جائزہ لیا تھا۔ جو جناب ترین نے اپنے زرعی رقبے پر اپنائی ہے۔ ہم نے انہیں توجہ دلائی تھی کہ وہ دوسرے سارے ضروری کام ازقسم سیاسی جوڑ توڑ کو چھوڑ کر اپنی تمام تر توانائیاں ملکی معیشت کو جدید ٹیکنالوجی کے سانچے میں ڈھالنے کیلئے سرگرم عمل ہو جائیں مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر جہانگیر ترین ابھی تک اس طرف مائل نہیں ہو سکے۔ فواد چودھری نے کہا کہ ہم 400محکمے بندکرنے پر غور کر رہے ہیں۔ ایک کروڑ نوکریاں دینا تو کجا اس وقت تک کم ازکم 20سے 25لاکھ افراد ملازمتوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ ٹیکسوں کی بھر مار سے موٹر انڈسٹری شدید بحران کا شکار ہو چکی ہے۔ آئے روز یہ کمپنیاں مجبورا ہزاروں کی تعداد میں اپنے کارکنوں کو فارغ کر رہی ہیں۔ فیصل آباد میں ٹیکسٹائل انڈسٹری مدتوں سے بحرانوں کی زد میں ہے۔ موجودہ حکومت کی غیر دوستانہ معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں فیصل آباد سے بے روزگارہونے والے کارکنوں کی تعداد ہزاروں نہیں لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان کے اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی سنگدلانہ شرائط کی بنا پر مزید لاکھوں افراد بے روزگار ہوں گے۔ صنعت و تجارت کا جام پہیہ حرکت میں آئے گا اور رفتار پکڑے گا تو ازخود معیشت پھلے پھولے گی۔ روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیداہوں گے۔ پیداوار بڑھے گی۔ طلب کے مقابلے میں رسد میں اضافہ ہو گا تو لامحالہ اشیاء کی قیمتیں نیچے آ جائیں گی۔ عمران خان برسر اقتدار آنے سے پہلے پارلیمنٹ کے تقدس اور اس کی بالادستی کے گن گاتے تھے۔ ہر ہفتے خود کو احتساب کے لئے ایوان میں پیش کر کے سوالوں کے جواب دینے کی خوشنما باتیں کرتے تھے۔ مگر کشمیر جیسے مسئلے پر بھی ایک واجبی سا مشترکہ اجلاس ہوا اور اس کے بعد اللہ اللہ خیر سلا۔ جہاں تک گڈ گورننس کا تعلق ہے اس کا کہیں وجود نہیں۔ ڈینگی پنجاب سے تقریباً معدوم ہو چکا تھا۔ مگر اس برس ڈینگی نے بطور خاص پنجاب میں اودھم مچا رکھا ہے، راولپنڈی ‘ اسلام آباد اور لاہور وغیرہ میں ہزار ہا لوگ اس کا شکار ہوئے ہیں۔ جن میں درجنوں بیچارے موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب جناب بزدار ڈینگی چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے جارحانہ احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرسکے اور نہ ہی عوام کو خوفناک اذیت سے نجات دلا سکتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں کئی روزسے جونیئر ڈاکٹر ہڑتال پر ہیں اور ہسپتالوں میں مریضوں کی حالت زار دیکھی نہیں جاتی۔ یہ وہی ڈاکٹر ہیں جو پچھلی حکومت کے دور میں اگر احتجاج کرتے تھے تو جناب عمران خان ان سے اظہار یکجہتی ہمدردی کے لئے ان کے ہڑتالی کیمپوں میں جایا کرتے تھے۔ جناب فواد چودھری اور پی ٹی آئی کی حکومت کو باورکرانا چاہئے کہ اگر حکومت کا کام روزگار دینا نہیں تو پھر حکومت کا کام چلتے ہوئے محکمے بند کرنا اور لوگوں کو بے روزگار کرنا بھی نہیں۔ بے روزگاری کا علاج لنگر خانے نہیں مزید کارخانے ہیں۔ مگر یہاں تو چلتے ہوئے کارخانے بھی بند ہو رہے ہیں۔ کاروبار جتنا پھلے پھولے گا روزگار اتنا ہی بڑھے گا۔ کیا فواد چودھری کے بیان سے یہ سمجھا جائے کہ حکومت نے ایک کروڑ نوکریوں والی کمٹمنٹ پر بھی یو ٹرن لے لیا ہے۔