کبھی کبھی ذرائع بھی تیزی دکھا جاتے ہیں۔ جس روز یہ خبر ٹی وی پر چلی کہ اوگرا نے تیل کی قیمت گیارہ روپے لٹر بڑھانے کی سفارش کی ہے۔ اسی روز‘ چند ہی گھنٹوں کے بعد یعنی پیچھے پیچھے ذرائع کی یہ خبر بھی ٹویٹر پر چلی کہ حکومت نے نرخ چھ روپے فی لٹر بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور اوگرا سے کہا ہے کہ تم گیارہ روپے کی سفارش کرنا۔ ہم یہ عوام دشمن سفارش مسترد کر دیں گے اور حدف عوام دوست اضافہ منظور کریں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ عوام کو نرخوں میں عوام دوست اضافہ مبارک۔ ٭٭٭٭٭ وقت بدلتا ہے تو بسا اوقات یا کبھی کبھار قانون بھی بدل جاتا ہے۔ قانون بدلنے کا نوٹیفکیشن کبھی ہوتا ہے کبھی نہیں ہوتا۔ موسم بھی تو ایسا ہی کرتا ہے۔ اس سال سردیاں اتنی لمبی اور اتنی بارش آلود ہو گئیں کہ لگا جیسے ساون اب سے سال میں دو بار آیا کرے گا۔ دو مہینے کے لئے جون جولائی میں اور چار مہینے کے لئے نومبر دسمبر جنوری فروری میں۔ لیکن گزشتہ ہفتے کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوئے بغیر اچانک ہی گرمیاں شروع ہو گئیں۔ ایک رات پہلے کمبل لے کر سو گئے تھے‘ دوسری رات پنکھا چلا کر‘ اگرچہ تھوڑی ہی دیر بعد آنے والے بل کی سوچ نے جھر جُھری سی طاری کر دی۔ جھرجھری سے سردی کی لہر آئی اور پنکھا بند کر دیا۔ پچھلے پانچ سال قوم کو یہ اصول رات دن ذہن نشین کرایا جاتا رہا کہ اے لوگو‘ مہنگائی کرپشن کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی اور پھر قوم کو جب یہ عمرانی قاعدہ اچھی طرح ازبر ہو گیا تو اچانک‘ کسی نوٹیفکیشن کے بغیر قانون بدل گیا۔ نیا قانون یہ ہے کہ اے لوگو‘ جب بھی مہنگائی بڑھے تو سمجھ لو ‘ وزیر اعظم ایماندار ہے۔ ٭٭٭٭٭ تیل کا مسئلہ بھی عجیب ہے۔ دنیا کی منڈیوں میں اس کی قیمت کئی برسوں سے کم ہو رہی ہے اور یہ کوڑیوں کے بھائو بک رہا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں ایک بار پھر سستا ہوا۔ یہاں مہنگا ہوئے چلا جا رہا ہے اور کل ہی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یہ حیرت افزا خبر سنائی ہے کہ دنیا میں تیل مہنگا ہو رہا ہے۔ اب دنیا کی مانیں یا وزیر خارجہ کی؟کچھ سیانے کہہ گئے ہیں‘ زمانے کی مت سنو‘ زمانے کو اپنی سنائو۔ ویسے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وزیر خارجہ وطن عزیز ہی کو دنیا کہہ رہے ہوں۔ بہرحال‘ مناسب ہے کہ وزیر خارجہ کا سچ مان لیا جائے‘ دنیا کا ’’جھوٹ‘‘ مسترد کر دیا جائے‘ دنیا تو ہے ہی جھوٹی زمانے بھر کی۔ ٭٭٭٭٭ وفاقی کابینہ میں ایک اور وزیر کا اضافہ ہو گیا اور اب خیر سے یہ 44رکنی ہو گئی ہے۔ مشیر‘ معاون قسم کے وزیر الگ ہیں۔ یہ اضافہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کا ہے جو تین عشروں سے پارلیمانی امور کی گتھیاں سلجھانے کا شاندار تجربہ رکھتے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں انہوں نے ایک پارلیمانی گتھی کھول کر اس میں سے ایک خرگوش بھی برآمد کیا تھا۔ پیپلزپارٹی برہم ہے۔ کہتی ہے کہ مشرف کا ایک اور وزیر آ گیا۔ ایک فہرست شائع ہوئی تھی کہ مشرف دور کے 20وزیر ہیں‘ اب یہ اکیسویں بھی آ گئے۔ کابینہ میں چھ کی کسر اور پوری ہو جائے تو ہاف سنچری ہو جائے اور وہ ہونے والی ہے۔ ایک وزارت مونس الٰہی کی زیر التوا ہے‘ متحدہ کی دو اور بی این پی کی ایک‘ یہ التوا ختم ہو گا تو اڑتالیس کی ہو جائے گی۔ یاد آیا‘ ایک وزارت زیر ولادت ہے‘ غربت مکائو کے محکمہ کی۔ ٭٭٭٭٭ غربت مکائو وزارت کی ایک دلچسپ کہانی ایک کالم نویس نے اپنے کالم میں لکھی۔ آپ تحریک انصاف کے حامیوں میں سے ہیں‘ عمران خاں سے اچھی یاداللہ ہے۔ کہانی غلط ہونے کا امکان کم ہے۔ کہانی کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ ایک وزیر صاحب اپنی جاننے والی خاتون کو کسی وزیر کا مشیر لگوانے کا وعدہ کر بیٹھے۔ اب جتنے وزیر ہیں اس کے مشیر پورے ہیں چنانچہ وزیر اعظم کو پٹی پڑھائی کہ غربت مکائو کی وزارت بھی بنائو‘ پھر اس خاتون کو اس وزیر کا مشیر لگائو۔ یوں ’’احساس‘‘ نامی وزارت کی داغ بیل ڈالی گئی۔ ٭٭٭٭٭ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ وہ 30لاکھ کا جلوس لے کر آئیں گے اور اسلام آباد کو جام کر دیں گے۔ وہ سرگودھا میں ایک بڑے مارچ سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات میں ڈاکہ مارا گیا اور جعلی حکومت مسلط کر دی گئی۔ مولانا ڈیڑھ دو ماہ سے بڑے بڑے ملین مارچ کر رہے ہیں اور اخباری حضرات کہتے ہیں کہ ہر مارچ میں کئی لاکھ کا مجمع ہوتا ہے جو حیرت کی بات ہے۔ پہلے کبھی ایسے سلسلہ وار جلسے یا مارچ دیکھنے میں نہیں آئے جن میں سے ہر ایک کا مجمع لاکھوں کا ہو۔ لگتا ہے کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے لوگ اپنی اپنی قیادت سے کچھ مایوس ہیں اور مولانا کے جلسوں میں آ رہے ہیں۔ ویسے مولانا کے اپنے پیرو کار بھی کم نہیں ہیں لیکن یہ اتنے بڑے بڑے اجتماعات میں سارے محض وہی تو نہیں ہو سکتے۔ ان اجتماعات کا حجم اپنی جگہ لیکن مولانا کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ وہ لاکھوں کا ہجوم لا کر اسلام آباد کو جام کر دیں گے۔ تیس کیا‘ پچاس لاکھ لے آئیں تب بھی کچھ نہیں ہو سکتا۔ کامیابی کے لئے گنتی کوئی معنی نہیں رکھتی‘ معنی صرف ایک چیز کے ہیں اور وہ ہے دست غیب۔ دست غیب ہو تو پانچ سات ہزار کا دھرنا بھی کافی ہے‘ نہ ہو تو کروڑوں عوام بھی ردی کی ٹوکری سے زیادہ کچھ نہیں۔ ٭٭٭٭٭ حکومت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام بدلنا چاہتی ہے جس پر پیپلز پارٹی غصے میں ہے۔ حکومت مسلم لیگ کے بنائے گئے منصوبوں کی تختیاں اکھاڑ کر اپنی تختیاں لگا رہی ہے‘ اس پر مسلم لیگ ناراض ہے۔ مسئلے کا حل کوئی بھی نہیں۔ کسی دوسری پارٹی کی حکومت ہوتی تو اسے دھمکی دی جا سکتی تھی کہ تم ایسا کرو گے تو ہم بھی برسر اقتدار آ کر تمہارے منصوبوں کے نام اور تختیاں بدل دیں گے لیکن تحریک انصاف کی حکومت کو تو یہ دھمکی دی ہی نہیں جا سکتی۔