راجن پور سے سابق رکن صوبائی اسمبلی سردار عاطف خان مزاری کو اُن کے اپنے حقیقی بیٹے نے قتل کر دیا ہے۔ نہ صرف ضلع راجن پور بلکہ پورا وسیب سوگوار ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ عاطف خان مزاری کا تعلق جاگیردار گھرانے سے تھا مگر وہ عوامی آدمی تھے، عوام دوست تھے، غریب پرور تھے اور غریبوں کے ساتھ ہی ان کا اٹھنا بیٹھنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قتل کا سنتے ہی ہزاروں افراد اُن کی رہائش گاہ روجھان مزاری پہنچے ہیں اور اُن کا راجن پور کی تاریخ میں سب سے بڑا جنازہ ہوا ہے۔ سردار عاطف خان مزاری کے قتل کی وجوہات ابھی تک مکمل طور پر سامنے نہیں آئیں۔ البتہ ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا پر جو خبریں سامنے آئی ہیں اُن میں تضاد ہے۔ ایک خبر میں ڈی ایس پی کا بیان سامنے آیا ہے کہ اچانک گولی چل گئی۔ خبروں کے مطابق(ن) لیگ کے رہنما اور پنجاب کے سابق پارلیمانی سیکرٹری سردار عاطف خان مزاری رشتہ کے تنازع پر بیٹے کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ سابق ایم پی اے سردار عاطف خان مزاری پر بیٹے نے رشتہ کے تنازع پر فائرنگ کرکے انہیں شدید زخمی کر دیا جنہیں فوری راجن پور ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن خون زیادہ بہہ جانے سے وہ جانبر نہ ہو سکے۔ ذرائع کے مطابق باپ بیٹے میں کافی دنوں سے چپقلش چل رہی تھی جو آج شدت اختیار کر گئی، واقعہ پر پورا علاقہ سوگ کے عالم میں ہے۔ علاوہ ازیں ڈی ایس پی روجھان ثناء اللہ کے مطابق ابتدائی رپورٹ کے مطابق عاطف مزاری کے بیٹے سے اچانک گولی چل گئی اور عاطف مزاری زد میں آگئے، جبکہ ایف آئی آر میں اچانک گولی چلنے کا کوئی تذکرہ نہیں۔ ایف آئی آر کا متن یہ ہے کہ میں زمیندارہ کرتا ہوں امروز قریب 10:00بجے رات میں معہ خضر حیات ولد صفدر حسین قوم مزاری اور خلیل ولد محمد بخش قوم خالطی سکنائے دیہہ اپنے ڈیرا واقع عمر کوٹ پر اپنے والد سردار عاطف حسین خان مزاری ولد سردار لیاقت حسین خان کے ہمراہ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ اسی اثناء میں میرا برادر حقیقی عبدالباسط جس کا ذہنی توازن ٹھیک نہ ہے اور عرصہ دراز سے زیر علاج ہے اچانک مسلح کلاشنکوف آیا اور آتے ہی سیدھا فائر اپنی کلاشنکوف سے کیا جو والد کو سامنے چھاتی پر بائیں طرف لگا جس سے وہ موقع پر خون میں لت پت ہو کر زمین پر گر پڑے جس کو میں نے باہمراہی گواہان جنہوں نے وقوعہ کو بچشم دیکھا آگے بڑھ کر والد کو سنبھالا اور فوراً اپنی گاڑی میں سوار ہو کر علاج معالجہ کیلئے ڈسٹرکٹ ہسپتال راجن پور لے آئے جہاں پر وہ زخموں کی تاب نہ لاکر فوت ہو گئے۔ والد عاطف حسین مزاری میرے برادر حقیقی عبدالباسط مسلح کلاشنکوف کے فائر لگنے سے جاں بحق ہوئے ہیں ۔ بیان دیتا ہوں ضروری قانونی کارروائی عمل میں لائی جاوے جبکہ میں اپنے والد کی نعش کا پوسٹ مارٹم نہ کرانا چاہتا ہوں اور نعش اپنے حقیقی چچا شمشیر علی خان مزاری کے ہمراہ وصول پاکر برائے تجہیز و تکفین روانہ اپنے مسکن کا ہوتا ہوں العبد دستخط انگریزی و نشان انگوٹھہ ریحان حسین مستغیث و تصدیقی دستخط بحروف انگریزی ۔جام پور کے سینئر صحافی آفتاب نواز مستوئی نے مقتول کو فائدہ دینے والی ایف آئی آر پر ایک پوسٹ لگائی ہے جو کہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ پوسٹ میں انہوں نے لکھا ہے کہ پنجاب پولیس کے غریب اور امیر کیلئے الگ الگ پیمانے ہیں۔ سردار عاطف خان مزاری کا تعلق (ن) لیگ سے تھا۔ (ن) لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے سردار عاطف خان مزاری کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مغفرت کی دعا کی ہے اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ پیر آف کوٹ مٹھن شریف اور سرائیکستان صوبہ محاذ کے چیئرمین خواجہ غلام فرید کوریجہ نے کہا کہ (ن) لیگ میں ہونے کے باوجود سردار عاطف خان مزاری سرائیکی صوبہ کے زبردست حامی تھے اور وہ جاگیرداری نظام کے بھی خلاف تھے۔ اُن کی وفات سے عوامی سیاست کو دھچکا لگا ہے۔ معروف سرائیکی رہنما و دانشور عاشق بزدار نے کہا کہ عاطف خان مزاری غریب دوست تھے وہ غریبوں کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے غرباء کی مدد کرتے تھے وہ غریبوں کے قافلے کے ساتھ شہباز قلندر کے عرس پر جاتے تھے۔ ہر سال عمر کوٹ میں سرائیکی مشاعرہ کراتے تھے اور بہت مرتبہ اپنی تقریروں میں انہوں نے کہا کہ اگر غریب کا نام جولاہا، موچی، حجام، میراثی اور کمہار ہے تو میں بھی وہی ہوں۔ میرا مرنا جینا سرداروں اور جاگیرداروں کے ساتھ نہیں بلکہ غریبوں کے ساتھ ہے۔ عاطف خان مزاری وسیب میں کتنے ہر دلعزیز تھے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چاچڑاں کوٹ مٹھن کے درمیان دریائے سندھ پر پل کے لیے احتجاج چل رہا تھا راجن پور کے سردار اور رحیم یار خان کے مخدوم پل کی مخالفت کر رہے تھے لیکن عاطف خان مزاری واحد آدمی تھے جو احتجاج میں شریک ہوئے اور اپنے خطاب کے دوران انہوں نے میاں نوازشریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نشتر گھاٹ کی تعمیر اس خطے کے افراد کیلئے زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ وڈیرے اور جاگیردار اس بناء پر مخالفت کر رہے ہیں کہ عام آدمی کو سہولت نہ ملے۔ اس موقع پر انہوں نے صوبے کی بھی حمایت کی اور خطے کی بہتری کیلئے فنڈز کا مطالبہ کیا۔ ایک واقعہ اس طرح ہے کہ میں خواجہ فرید کے عرس پر گیا ہوا تھا وہاں ڈھول کی تھاپ پر لوگ سرائیکی جھومر کھیل رہے تھے تو ان جھومریوں میں عاطف خان مزاری بھی شامل تھے۔ اُن کی یہ ادائیں ڈی جی خان ڈویژن کے سرداروں، جاگیرداروں اور تمنداروں کو پسند نہ تھیں۔ سردار عاطف خان مزاری کے والد لیاقت خان مزاری بھی عوام دوست اور بہادر انسان تھے۔ اُن کے چچا سردار شوکت خان مزاری پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر رہ چکے ہیں اور وہ ذوالفقار علی بھٹو کے بھی بہت قریب تھے۔ خوبیاں خامیاں تو ہر انسان میں ہوتی ہیں مگر عاطف خان مزاری بہت خوبیوں کے مالک تھے۔ دوسرے سرداروں کے مقابلے میں وہ اپنے وسیب سے بہت محبت کرتے تھے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ خطے کے جاگیردار ووٹ لینے کیلئے سرائیکی بن جاتے ہیں اور کامیابی کے بعد جب اقتدار میں آتے ہیں تو اُن کا حوالہ کوئی اور ہوتا ہے۔ عاطف خان مزاری واحد آدمی تھے جو کہتے تھے ہمارا اول آخر حوالہ اپنا وسیب ہے اور ہم اسی شناخت کیلئے جئیں گے اور اسی کیلئے مریں گے۔ قتل کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں ۔