25سال پہلے عمران خان نے ملک کی دو بڑی جماعتوں کی موجودگی میں اپنی ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ تو اس وقت اندازہ لگانا مشکل تھا کہ ورلڈ کپ کا فاتح کپتان ملک کا وزیر اعظم بن سکتا ہے اور ایسا بلاشبہ ممکن ہوا۔ 2018 کے انتخاب میں عمران خان وزیراعظم بن گئے۔ لیکن کیا کریں ! اس ملک کو وزیراعظم تو نیا مل گیا ، لیکن وزیراعظم کے آس پاس ، دائیں بائیں جو چہرے نظر آتے ہیں۔ وہ ہمیں نئے نہیں ملے۔ تحریک انصاف کے 25 ویں یوم تاسیس کے موقع پر وزیراعظم نے پیغام دیا کہ مجھے اپنے اڑھائی سال کی کارگردکی پر فخر ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے سیاسی جماعتیں جن چیزوں پر تنقید کرتی ہیں۔ پھر جب انہی اقتدار ملتا ہے تو خود وہ ہی کام کرتے ہیں۔ تحریک انصاف نے بھی وہی کیا۔ پھر کہتے ہیں ، ہمیں اپنی کارگردگی پر فخر ہے۔ مثلاً وزیراعظم بننے سے پہلے عمران خان نے سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی کو غیر سیاسی بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن خود آج پی ٹی وی کو اپنے 25 سالہ سیاسی جدوجہد کو پیش کرنے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ دوسری طرف پی ٹی وی نیوز نے بھی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کا کردار ادا کیا۔ اپنے آفیشل ٹوئٹر اکائونٹ سے سات ٹویٹس پر مبنی ایک تھریڈ میں وزیراعظم کو ٹیگ کرکے ان کی خوب سیاسی تشہیر کی۔ بات اب یہ نہیں ہے کہ ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ اپنی تشہیر کے لئے سیاسی وسائل اور ذرائع ابلاغ کا سہارا لیتی رہی ہے۔ لیکن آج آپ اس روایت کو توڑنے کے بجائے پروان چڑھا رہے ہیں۔ جناب پی ٹی وی عوام کے پیسوں پر چلتا ہے۔ پی ٹی آئی کے پیسوں پر نہیں۔ لیکن پھر بھی اڑھائی سالوں بعد آپ کو اپنی کارگردگی پر فخر ہے۔ آپ تو کہا کرتے تھے کہ اگر میں وزیراعظم ہوتا تو اپنی پارٹی کے ایم این ایز اور ایم پی ایز سے کبھی بلیک میل نہ ہوتا۔ میں اپوزیشن میں بیٹھنا قبول کروں گا۔ لیکن جہانگیرترین گروپ نے ذرا پریشر کیا ڈالا کہ ملاقات کرنی پڑ گئی اور تو اور شوگر کمیشن کے سربراہ ڈاکڑ رضوان کو ملاقات سے پہلے ہی ہٹا دیا گیا۔ بلیک میل تو ہو گئے، لیکن پھر بھی آپ کو کارگردگی پر فخر ہے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اسکینڈلز جب سامنے آتے تھے۔ تو عمران خان صاحب خوب آڑے ہاتھوں لیتے تھے۔ آج کل شوگر عمران خان کے سر پر سوار ہے۔ جس کا نشانہ جہانگیر ترین بھی بن رہے ہیں۔ بالکل جس نے کرپشن کی ، اس کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے۔ بلا امتیاز ہونی چاہیے۔ لیکن آدھا تیر ، آدھا بٹیر نہیں ہونی چاہیے۔ کیا خسرو بختیار کی شوگر ملیں نہیں ہیں ؟ کیا فہمیدہ مرزا خاندان کی ملیں نہیں ہیں ؟ کیا ان سب نے سبسڈی کی بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھوئے ہیں۔ لیکن آپ خسرو بختیار سے اس لئے نہیں پوچھیں گے کہ جنوبی پنجاب محاذ کے لوگوں کا گروپ سامنے نہ آجائے۔ آپ فہمیدہ مرزا خاندان سے اس لئے نہیں پوچھیں گے کہ قومی اسمبلی میں آپ کو ان کی حمایت درکار ہے۔ لیکن پھر بھی آپ کو اپنی کارگردگی پر فخر ہے۔ آپ نے معیشت کی بہتری کے لئے کیا دعوے نہیں کیے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز نے ملک کی معیشت تباہ کر کے رکھ دی ہے۔ انہوں نے اپنے ادوار میں ملکی پر قرضوں کا بوجھ ڈالا۔ اعداد وشمار دیکھیں تو پیپلزپارٹی نے اپنے پانچ سالہ دور میں 14.7 ارب ڈالر کے قرضے لیے تھے۔ ن لیگ نے اس میں 34.3 ارب ڈالر کا اضافہ کیا۔ آپ نے جب اقتدار سنبھالا تو اعلان کیا کہ قرضوں میں اضافے کی وجوہات جاننے کے لئے کمیشن بنائوں گا۔ لیکن کمیشن کیا بننا تھا اور اس کمیشن نے کیا کرنا تھا،خود آپ کے دور میں ملک کے بیرونی قرضے تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے۔ اسٹیٹ بنک کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 31 دسمبر 2021 تک ملک کا مجموعی قرضہ 115 ارب تھا۔ لیکن پھربھی آپ کو اپنی کارگردگی پر فخر ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضے لینے پر آپ نے اپنے سیاسی مخالفین کو کیاکچھ نہیں کہا۔ مسلم لیگ ن نے اپنی حکومت میں آئی ایم ایف سے پانچ ارب ڈالرز سے زائد کے قرضے لیے۔ تو آپ نے نا صرف تنقید کی بلکہ ایک تاریخی جملہ کہا کہ ’’خود کشی کر لوں گا، آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا‘‘۔ لیکن پھر نا صرف آپ آئی ایم ایف کے پاس گئے ، بلکہ ان کو راضی کرنے کے لئے آج تک ان کی کئی شرائط مان رہے ہیں۔ بغیر سوچے سمجھے آئے روز بجلی مہنگی کر کے ، عوام کا جینا دو بھر کررہے ہیں۔ لیکن پھر بھی آپ کو اپنی کارگردگی پر فخر ہے۔ وزیر اعظم صاحب یقینا ایسے بے شمار معاملات ہیں ، جن پر بلاشبہ آپ فخر نہیں کرسکتے۔ اگر آپ کو اپنی اڑھائی سالہ کارگردکی پر فخر ہے تو یقینا آپ کے وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی کی فوج آپ کو درست حالات سے آگاہ نہیں کرتی ہو گی۔لہذا جتنا عرصہ رہ گیاہے ، برائے مہربانی اس کو قابل فخر بنائیں۔ فی الحال عوام کس بات پر فخر کریں،وزیراعظم صاحب ! ٭٭٭٭٭