اسلام آباد (لیڈی رپورٹر،این این آئی) اسلام آباد ہائیکورٹ نے عالمی وبا کورونا وائرس کے پیش نظر نجی ہوٹلز کو قرنطینہ سنٹر میں تبدیل کرنے کے سرکاری احکامات کے خلاف دائر درخواست خارج کر دی ۔ گزشتہ روزاسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اﷲ نے ہوٹلز کو قرنطینہ سنٹرزمیں تبدیل کرنے کے احکامات کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔ دوران سماعت درخواست گزار نجی ہوٹل مالک کے وکیل سکندر بشیرنے موقف اپنایا کہ حکومت پرائیویٹ جائیدادوں کو کیوں قرنطینہ بنا رہی ہے ؟ ۔ این ڈی ایم اے کی جانب سے ہوٹل ہو قرنطینہ بنانے کے احکامات جاری کئے گئے جس کا انہیں اختیار ہی نہیں ہے ۔وکیل نجی ہوٹل کے مطابق حکومت نجی پراپرٹی کی بجائے وزیراعظم کا گھر قرنطینہ سنٹرکے طور پر کیوں استعمال نہیں کرتی۔وکیل نے کہاکہ اگر آئینی ایمرجنسی بھی نافذ ہو جائے تو بھی بنیادی حقوق کو معطل نہیں کیا جا سکتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت ایمرجنسی معاملات کی ایکسپرٹ نہیں کہ کورونا سے کیسے نمٹا جائے تو مداخلت کیسے کرے ؟ کیا اس صورتحال میں کسی دوسرے ملک کی عدالتوں نے حکومتی معاملات میں مداخلت کی؟۔ جس پر وکیل درخواست گزار نے موقف اپنا یا کہ مجھے نہیں پتہ کہ دوسرے ممالک میں کیا ہو رہا ہے مجھے آئین پاکستان کے تحت اپنے حقوق چاہئیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر پرائیویٹ ہوٹل یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے انہیں نقصان ہوگا تو وہ بعد میں ہرجانے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر عوامی تحفظ کی بات ہو تو اس کے لئے حکومت میرا گھر بھی استعمال کر سکتی ہے ، حکومت جو کر رہی ہے عوام کے تحفظ کے لئے کر رہی ہے عدالت کیسے مداخلت کر سکتی ہے ۔ عدالت نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ بعد ازاں فیصلہ سناتے ہوئے تھری فور سٹار ہوٹلز کو ہنگامی صورتحال میں قرنطینہ بنانے کے حکومتی احکامات کے خلاف دائر درخواست مسترد کردی ۔عدالت نے شہری چودھری عبدالرحمان ناصر کی درخواست مسترد کرنے کا تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہ بحران کی شدت تقاضا کرتی ہے کہ عدالت حکومت کے پالیسی معاملات اور ایگزیکٹوز کے فیصلوں میں مداخلت سے گریز کرے ۔