مکرمی! عورت مارچ کی آرگنائزنگ کمیٹی کی طرف سے اس سال بھی 8 مارچ کو عورت مارچ کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اسی معاملہ کو لے کر سینٹ میں مولانا فیض محمد اور شیری رحمان کے مابین کافی بحث مباحثہ ہوا۔ گزشتہ سال عورت مارچ میں غیر مہذب اور غیر ذمہ دار نعروں اور گفتگو کو دیکھتے ہوئے منیر احمد نامی شخص اپنے وکیل اظہر صدیق کے توسط سے لاہور ہائی کورٹ جا پہنچے جہاں انہوں نے اس مارچ کو روکنے کی استدعا کی لیکن ہائی کورٹ نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے مشروط طور پر عورت مارچ کی اجازت دے دی۔ یقینا کورٹ کا یہ اقدام مستحسن اقدام ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کو قانونی حدود میں رہتے ہوئے مہذب انداز میں احتجاج کا حق حاصل ہے۔ سوال یہ ہے کہ کونسا "جسم اور کس کی مرضی" وہ جسم جو جسے دنیا میں لانے کے لئے ہم خود قادر بھی نہیں بلکہ یہ تو قادر مطلق کی امانت ہے۔ کو نسا جسم جس کی سانسیں آپکے اختیار میں نہیں۔ کو نسا جسم جو ایک دن یوں مٹی کے نیچے دب کر مٹی میں مل جانا ہے کہ اس جسم کی ہڈیاں بھی خاک ہو جائیں گی۔ میری استدعا ہوگی اس منش کے افراد سے کہ خدا کے لئے خدا کے سامنے باغی بن کے کھڑے نہ ہوں۔ یہ جسم تب تک قابل رشک ہے جب تک یہ خدا کے تابع ہے۔جب تک یہ جسم حیا کی چادر میں لپٹا رہے گا محفوظ رہے گا اور اللہ نہ کرے اگر جسم اپنے رب کا نافرمان ہو گیا تو یقین کرئیے اللہ کا عذاب معاشی اور اخلاقی بدحالی کی صورت میں نازل ہوتا رہے گا۔ (حافظ محمد شعیب ندیم مدینہ منورہ)