دن رات کے شور نے بالآخر مجھ جیسے سخت جان کو بھی ہلا ڈالا۔بہت ہاتھ پاؤں مارے ،معاملے کو ٹالنے اورمحنت سے دور رہنے کی بہت کوشش کی ، کسی دانا سے سنا تھا، محنت جوانوں کی موت ہوتی ہے ،ادھر مگر یلغار ایسی تھی کہ تاب نہ لا سکا۔اگرچہ بیداری میں مشقت تھی مگر جاگنا ہی پڑا۔چنانچہ جی کڑا کرکے، اسلام نے عورت پرجو ’’ظلم‘‘ ڈھائے ،ان کا جائزہ لینے کی ٹھان ہی لی۔ویسے بھی آپ جانئے ،آخر کب تک کوئی محض عقیدت کے بھرے میں جی سکتا ہے۔ادھر نئی دنیا کی چکا چوند سے متاثر ہمارے دوست آئے روز دروازہ یا دیوار آن کھٹکھٹاتے ہیں کہ اٹھو ،ہماری تازہ کامیابیوں کے مقابل اپنا پرانا اسلام نکالو۔ نئے پیمانوں کے مطابق ناپ تول کے چیک کرو اور بتاؤ تمھارے پلے کچھ بچا بھی یا تم اور تمھارا اسلام گئے کام سے؟ چنانچہ وقت آتا ہے کہ چیزیں دیکھنا ، سوچنا اور ماننا پڑتی ہیں۔ چنانچہ ٹھان کی اب جو ہو سو ہو یہ معاملہ دیکھا ہی جا ئے گا۔ ضرور دیکھا جائے گاکہ آخر اسلام کے اتنا دم گھونٹ دینے کے باجود مسلمان عورت اب تک زندہ کیسے رہ پائی۔گو وسوسوں نے اس راہ ِ تحقیق سے روکنا چاہا کہ اگر یہ پل صراط اتنا ہی ناقابلِ عبور ہوتا اتنی گھٹن اور حقوق کی ایسی دھاندلی کے باجود غیر مسلم عورت اسلام کی طرف لپکتی کیوں چلی آتی؟ دراصل دفتر میں ، میں جہاں بیٹھتا ہوں ، گردن گھما کے دیکھوں تو ایک کتاب کرسٹیان بیکر کی نظر آتی ہے، کرسٹیان بیکرکی لکھی ہوئی ۔ کرسٹیان بیکر یورپ کے سب سے بڑے میوزک شو کی ہر دلعزیز پریزنٹر تھیں۔وہ جو کہتے ہیں کہ کروڑوں دلوں میں دھڑکن کی طرح سمائی ہوئی تھیں ، یعنی یورپ بھر سے کروڑوں لوگ اس کے پروانے عرف فین تھے۔دل میں وسوسہ آیا کہ یہاں یورپ کے مقابلے میں سب اندھیرا تھا تویہ کیوں مسلمان ہو گئی ؟ کیا اس نے خود کشی کا ارادہ باندھ رکھا تھا؟ جو مسلمان ہونے چل دی؟ چلئے یہ کام کر ہی گزری تھی تو چپ رہتی۔ حد ہے کہ جدید دنیا کے نزدیک ایسا خوفناک کام کرنے کے بعداس پر فخریہ اس کا اظہار بھی کیا۔ پوری کتاب لکھ ماری، فرام ایم ٹی وی ٹو مکہ۔یعنی ایم ٹی وی سے مکہ تک کا سفر۔آخر اس کی کیا مت ماری گئی تھی کہ ہر مے رکھتے یورپ کے میخانے سے یہ زم زم پینے مکہ چل دی ؟ کروڑوں دلوں پر راج کرنے والی کو آخر یہ سوجھی بھی تو کیوں کہ آج زمانہ تو وہ ہے کہ فیس بک، یوٹیوب یا ٹوئٹر پر سو سے ہزار تک لائکس دینے والے فینز( پروانے) مل جائیں تو آدمی معاشرے میں عزت سے اور سر اٹھا کے جینے کے قابل ہو جاتاہے۔ اور لا محالہ دنیا کی ہر چیز اور خصوصا اسلام پر رائے دینے کے قابل بھی ۔عالم تو یہ ہے کہ روشن جمہوری دور ہے، اگر سوشل میڈیا کی پوسٹ میں دن بارہ بجے لکھ دیا گیا کہ اب اوراس وقت سے ٹھیک رات شروع ہوتی ہے ، اور پڑھے بے پڑھے یا روا روی میں یار لوگوں نے اسے لائک فرما دیا تو باور کر لیا جائے گا کہ ثابت ہوا اور دنیا نے کھلے دل سے تسلیم کر لیا کہ دن بارہ بجے سے رات شروع ہو گئی۔ وسوسات جب آتے ہیں تو کونسا گن کے یا پوچھ کے آتے ہیں ،یعنی لورین بوتھ کے قبول ِ اسلام کا وسوسہ بھی ہمیں اس نیک کام سے روکنے چلا آیا۔ ویسے نہیں معلوم سابقہ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی سالی لورین بوتھ نے اپنے قبولِ اسلام سے پہلے ہمارے ان دوستوں سے مشورہ بھی کر لیا تھا یا خود ہی اتنا بڑا فیصلہ کر ڈالاتھا؟ روشنیوں کی دنیا سے بقول ہمارے لبرل احباب کے’ اسلام کی گھٹن ‘میں چھلانگ لگانے کی یہی غلطی معروف آئرش گلوکارہ شنیڈ اوکونر بھی کر چکی ہیں۔ پھر معلوم نہیں ایسی خوفناک غلطی برطانوی صحافی ایوان ریڈلی نے بھی کیسے کر ڈالی؟پتہ نہیں دنیا کی مختلف خواتین کو اپنی آزادی اب اتنی عزیز آخر کیوں نہیں رہی؟ ممکن ہے، ایوان ریڈلی کا قبولِ اسلام بھی طالبان کی مشہورِ زمانہ شدت پسندی ہی کا نتیجہ ہو۔ پتہ نہیں یہ طالبان کی قید سے اب تک چھوٹی بھی ہے یا نہیں ؟خیر ایسے وسوسے اور چند خواتین کی ایسی غلطیاں ہمیں ہمارے عزم سے روک نہیں سکتیںاورکسی صورت ہم اسلام کے عورت پر روا رکھے گئے’’ ظلم‘‘ پر خاموش نہیں رہ سکتے ہیں۔ چنانچہ اس پر آواز اٹھانے کا عزم کرکے لیپ ٹاپ سیدھا کر لیا اور اس سے پہلے کہ عورت پر اسلام کی طرف سے ہونے والے تمام ’’ظلم‘‘ ترتیب وار اس علمی و عقلی مضمون میں سپردِ کی بورڈ کرتے یکایک ایک اور خیال نما وسوسہ آگیا ، وہ یہ کہ تحریر اس قدر سخت چیز سے شروع نہیں کرنی چاہئے ، ورنہ لوگ سخت وحشت زدہ رہ جائیں گے۔ یہ ایک جدید دور ہے ، سمارٹ اور نازک عہد ، لوگ خود بھی اور ان کے نظریات بھی بہت حساس اور نازک ہو چکے ہیں ، لوگوں کے اعصاب بھی اب پہلے جیسے نہیں رہے، اب تو خیر حکومت نے پابندی لگا دی ورنہ شہر بھر کے در ودیوار انسانی اعصاب کی مردانہ کمزوریوں کی عکاسی کرتے دنیا دیکھا کرتی تھی۔ اب گو ان کے نوشتہ ٔ دیوار کرنے پر پابندی عائد ہے مگر محض پابندی لگا دینے سے حقیقتیں بدل کب جاتی ہیں ۔ چنانچہ رفاہِ عامہ ملحوظ رکھتے ہوئے، بہتر یہی سمجھا کہ براہِ راست اسلام کے عورت پر توڑے گئے ’’ظلم‘‘ کے بیان سے پہلے مغر بی اور غیر اسلامی سکالر ز کے عورت کو پیش کیے گئے گل ہائے عقیدت و محبت اور اقوالِ زریں پیش کر دئیے جائیں۔ تاکہ تمہید خوشگوار ہو جائے ۔وہ کیا کہتے ہیں مشتے از خروارے کے تحت چند صرف چند ایک۔مسیحی تصور کی ترجمانی کرتے ہوئے، حضرت ترتولیان(Tertullian)فرماتے ہیں:’’ عورت شیطان کے آنے کا دروازہ، شجر ممنوع کی طرف لے جانے والی، خدا کے قانون کو توڑنے والی اور خدا کی تصویرمر د کو غارت کرنے والی ہے۔‘‘ گو دنیائے عیسائیت کی عورت کے متعلق ایسی ساری ہمدردی اور خیر خواہی اس ہندوستانی فنونِ لطیفہ کے ایک عمل کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتی ،جس میں شوہرکے مرنے پر اس کی ہندوستانی زندہ بیوی کو شوہر کی چتا کے ساتھ ہی نذرِ آتش کر کے راحت پہنچا دی جاتی تھی ۔پھر بھی ایک نمونہ ہندوستانی تہذیب سے عورت کے متعلق مزید بھی پیش کیا جاتاہے۔ستیارتھ پرکاش کے مطابق ’’تقدیر، طوفان، موت، جہنم، زہر، زہریلے سانپ میں سے کوئی اس قدر خراب نہیںہو سکتا،جتنی کہ عورت۔روسی کہاوت کے مطابق ، دس عورتوں میں ایک روح ہوتی ہے۔اسپینی ضرب المثل کے مطابق ۔’’بری عورت سے بچنا چاہیے، مگر اچھی صورت پر کبھی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔‘‘کہیں ہم عربوں کی عورت سے محبت بھول نہ جائیں کہ وہ اس کے پیدا ہوتے ہی اسے دفناکے ہاتھ جھاڑ لیتے تھے۔یقینا اتنے سے ہی آپ کی طبیعت شاد ہو اٹھی ہو گئی ، چنانچہ باقی آئندہ۔