یہ تحریر سکول اور کالج کی لیڈی ٹیچرز کے ایک نہایت سنگین مسئلے کے بارے میں ہے۔ میرا اپنا تعلق شعبہ تعلیم سے ہے اور میں نے کالم لیڈی ٹیچرز کو پیش آے والے ان گنت واقعات سن کر لکھا ہے۔ بعض واقعات میں تو میں خود بھی ملوث رہا ہوں کیونکہ میری فیملی میں بھی لیڈی ٹیچرز کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اس کے علاوہ میری ان گنت شاگردیں لیڈی ٹیچرز ہیں۔ چنانچہ وقتاً فوقتاً میرے علم میں ایسے افسوسناک واقعات آتے رہتے ہیں جن کا تعلق سکولوں اور کالجوں کی ہیڈ مسٹریس اور پرنسپلز کی زیادتیوں سے ہے۔ ان واقعات کو سن کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ لڑکیوں کے سکولوں اور کالجوں میں میل ہیڈ ماسٹر اور پرنسپل ہونے چاہئیں(جن کی عمر 50سال سے زیادہ ہو) میں نے مختلف کالجز میں تقریباً 40سال پڑھایا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ کسی پرنسپل نے اپنے کسی سٹاف ممبر سے ایسا سلوک کیا ہو جیسا یہ ہیڈ مسٹریسز اور پرنسپلز اپنی ماتحت ٹیچرز سے کرتی ہیں۔ دفتر کے مرد سٹاف سے تو یہ خواتین خائف رہتی ہیں اور ان سے بات بھی مہذبانہ لہجے میں کرتی ہیں لیکن بے چاری ٹیچرز کی وہ مٹی پلید کرتی ہیں کہ رہے نام اللہ کا۔ جس گھر‘ سکول یا کالج پر کوئی خاتون مسلط ہو جائے‘ اس کا اللہ ہی حافظ ہے۔ افسری اور حکمرانی ان کے بس کا روگ نہیں۔ اس کام کے لئے فراخدلی‘ تحمل‘ میانہ روی ‘ ہمدردی‘ منطقی رویے‘خدا خوفی اور منصف مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے بڑے دکھ سے کہن پڑ رہا ہے کہ ہیڈ مسٹریسز اور پرنسپلز کی بڑی اکثریت میں ان صفات کی شدید کمی دیکھی گئی ہے۔ یہ بات میں نہیں کہتا۔ وہ بے شمار لیڈی ٹیچرز کہتی ہیں جو ان کے نیچے کام کرتی ہیں۔بعض خواتین تو سنگدلی کی اس سطح پر پہنچ جاتی ہیں کہ سن کر دل کانپ اٹھتا ہے۔ بے چاری لیڈی ٹیچرز جن میں سے اکثر کا تعلق لوئر مڈل یا غریب گھرانوں سے ہوتا ہے‘ چپ چاپ یہ زیادتیاں برداشت کر لیتی ہیں‘انتقام کے ڈر سے اعلیٰ حکام سے بھی فریاد نہیں کرتیں اور ایک خوف کی فضا میں کام کرتی رہتی ہیں۔ ادھر ہمارے اعلیٰ افسران کا یہ حال ہے کہ تعلیمی اداروں پر ایسی خواتین کو مسلط کرنے کے بعد وہ بالکل لاپروا ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کبھی ماتحت ٹیچرز سے نہیں پوچھا کہ ان کے مسائل کیا ہیں۔ ہیڈ ماسٹر اور پرنسپل اپنے ماتحت عملے کی ACRلکھتے ہیں۔ لیکن کیا ماتحت عملے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بھی اپنے افسر کی ACRلکھیں؟ کیا قانون صرف ماتحت عملے کے لئے ہے؟میں یہ مطالبہ بھی کروں گا کہ یا تو یہ ACRکا ظالمانہ نظام ختم کر دیا جائے یا پھر یہ حق ماتحتوں کو بھی دیا جائے کہ وہ اپنے افسر کی کارکردگی پر اظہار خیال کر سکیں۔لیڈی ٹیچرز کی شکایات کی فہرست بہت لمبی ہے۔ میں یہاں مختصراً ان کی شکایات کو نقل کئے دیتا۔ میری ان باتوں کی تصدیق ماتحت لیڈر ٹیچرز سے کی جا سکتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سب افسر خواتین ایسی ہیں۔ بہت اچھی ہیڈ مسٹریسز اور پرنسپلز بھی ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ میری تنقید کا ہدف ایسی خواتین نہیں ہیں۔ ان ہیڈ مسٹریسز اور پرنسپلز میں عام طور پر جو مشترکہ عادات پائی جاتی ہیں میں مختصراً ان کا تذکرہ کئے دیتا ہوں۔ یہ خواتین سکول یا کالج کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھ لیتی ہیں۔قاعدے قوانین کو نظر انداز کر کے اپنی مرضی مسلط کرتی ہیں۔ نالائق ‘ کام چور‘ چغل خور اور سازشی قسم کی تین چار ٹیچرز کو(جو بالعموم ہر سکول/کالج میں پائی جاتی ہیں) اپنے ساتھ ملا کر ایک کچن کیبنٹ بنا لیتی ہیں اور پھر سب مل کر شریف اور محنتی اساتذہ کو پریشان کرتی ہیں۔ جن ٹیچرز کے خاوند یا والد اچھے عہدے پر ہوں‘ ان سے ذاتی تعلقات قائم کر لیتی ہیں اور ان کی کوتاہیوں سے صرف نظر کرتی ہیں۔ حکومت سے ملنے والی گرانٹ کا غلط استعمال کرتی ہیں۔ بعض اوقات جعلی رسیدیں بنوا لیتی ہیں۔ زیادہ تر پیسے اپنے دفتر کی تزئین و آرائش پر خرچ کر دیتی ہیں۔ٹیچرز سے گھریلو ملازموں جیسا سلوک کرتی ہیں۔ بعض اوقات کلاس روم میں جا کر طالبات کے سامنے ٹیچرز کی توہین کر ڈالتی ہیں۔ ان کے گھروں میں کوئی فنکشن (شادی وغیرہ) ہو تو چھٹیوں پر چھٹیاں کرتی چلی جاتی ہیں۔تھوڑی دیر کے لئے آ کر رجسٹر پر حاضری لگاتی ہیں اور واپس تشریف لے جاتی ہیں۔اپنی حاضری سٹاف کے رجسٹر میں نہیں لگاتیں بلکہ اپنا ذاتی رجسٹر الگ دفتر میں رکھا ہوتا ہے۔ لیڈی ٹیچرز سے تحفے وصول کرنا ان کا دل پسند مشغلہ ہے۔ وہ ٹچرز جو قیمتی تحائف نہ دے سکیں انہیں بلیک لسٹ کر لیتی ہیں۔ دفتر میں ہو تو ٹیلی فون کو زیادہ تر ذاتی کاموں کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ لوئر سٹاف سے گھریلو کام بھی لیتی ہیں۔ ان کے یوٹیلیٹی بلز ان کے کلرک یا چپڑاسی ادا کرتے ہیں۔ وہ چند ٹیچرز جو ان کے قریب ہوتی ہیں‘ انہیں دوسروں کی جاسوسی کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ اگر کوئی ٹیچر اپنی تعلیمی قابلیت کو بڑھانے کے لئے ایم۔ فِل وغیرہ کرنا چاہے تو انہیں آگ لگ جاتی ہے۔ اس کو ہر طریقے discourageکرتی ہیں۔ ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ یہ ٹیچر اپنی کوالیفکیشن بہتر نہ بنا سکے۔ جس ٹیچرز کو کسی وجہ سے زیادہ ہی تختہ ستم بنانا چاہیں ان کے خلاف لڑکیوں کے والدین سے الٹے سیدھے خط لکھوا کر اوپر بھجوا دیتی ہیں۔ متعلقہ ٹیچر کو اس بات کا پتہ بھی نہیں ہوتا۔ حالانکہ طریق کار یہ ہے کہ جس ٹیچر کے خلاف شکایت ہو‘ پرنسپل اس سے explanationمانگے اور باقاعدہ انکوائری کرے۔ یہ عورتیں سروس رولز سے اس قدر نابلد ہوتی ہیں کہ ٹیچر کو علم بھی نہیں ہوتا اور اس کے خلاف شکایتی خطوط کا پلندہ اوپر پہنچا ہوتا ہے اور یہ خط بالکل جعلی ہوتے ہیں۔ ایسے خطوط کا بنتا ۔۔۔۔۔۔تو کچھ نہیں البتہ متعلقہ استاد کو جب اس سازش کا پتہ چلتا ہے تو اس کا سکون برباد ہو جاتا ہے اور اس کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ جن ٹیچرز سے ناراض ہوتی ہیں،انہیں ACRخراب کرنے کی دھمکی دیتی ہیں اور بعض بے گناہوں کی ACRسچ مچ خراب کر دیتی ہیں۔ وہ ٹیچرز جو ان کے قریب ہوتی ہیں ان کی ACR,sبہترین ہوتی ہیں۔چند بے گناہوں کی ACRبوجہ کینہ پروری خراب کر دیتی ہیں۔جن ٹیچرز کیACRخراب کرتی ہیں وہ بالعموم بہتر ٹیچرز ہوتی ہیں اور اچھی ACR,sوالی ٹیچرز زیادہ تر ان کی ذاتی favouritesہوتی ہیں۔ACRکے مسئلے پر میں الگ سے ایک کالم لکھوں گا۔ عنقریب میں پنجاب کی دو لیڈی پرنسپلز کے بارے میں کالم لکھوں گا اور تفصیل سے عرض کروں گا کہ انہوں نے کالج میں اندھیر نگری مچائی ہوئی ہے۔ میں اپنا یہ مطالبہ دہرائوں گا کہ گرلز سکولز اور کالجز میں مرد پرنسپلز ہونے چاہئیں۔سینئر موسٹ لیڈی ٹیچرز کو وائس پرنسپل بنایا جا سکتا ہے۔ جب تک میرا مطالبہ منظور نہیں ہو جاتا‘ میں یہ مشن جاری رکھوں گا۔میں آخر میں یہ وضاحت بھی کر دوں کہ سب عورتوں میں یہ سب خرابیاں نہیں ہوتیں۔ ہر ایک نے اپنے اپنے حصے کی خرابیاں سمیٹی ہوتی ہیں۔