ایک خبر کے مطابق دائرہ دین پناہ میں زمانہ جاہلیت کی یاد تازہ ہو گئی ، جن نکالنے کے بہانے جعلی پیر تشدد کرنے کے ساتھ گرم راڈ سے عورت کے جسم کے مختلف اعضا داغتا رہا ، عورت چیخ پکار کرتی تو خاوند تشدد کے ذریعے چُپ کرانے کی کوشش کرتا رہا ۔ حالت غیر ہونے پر خاوند اپنی بیوی کو والدین کے گھر چھوڑ کر فرار ہو گیا ۔ اس دردناک واقعے کی تفصیل اس طرح ہے کہ تھانہ دائرہ دین پناہ ضلع مظفر گڑھ کے موضع کھائی سوئم کی زاہدہ بی بی کی شادی اعجاز بریار نامی شخص سے ہوئی ، 2 بچے بھی ہوئے ، وہ بیمار رہتی ،جبکہ اسکا شوہراس پر الزام لگاتا کہ تم پر جنات کا سایہ ہے ۔وہ اکثر اپنی بیوی پر شک اور تشدد کرتا اور علاقے کے ایک جعلی پیر کے پاس لے گیا اور اپنے ہمراہیوں کے ساتھ زمانہ جاہلیت کی یاد تازہ کرا دی ۔متاثرہ خاتون کے بھائی کی درخواست پر تھانہ دائرہ دین پناہ پولیس نے جعلی پیر ، عورت کے خاوند اور اسکے ساتھیوں کے خلاف مقدمہ نمبر 198/20 زیر دفعہ 354/337 درج کرکے قانونی کاروائی شروع کر دی ہے۔ عورت پر ظلم ، یہ پہلا واقعہ نہیں ، اس طرح کے مظالم کی داستانیں جگہ جگہ بکھری پڑی ہے ۔ ہر جگہ عورت ظلم کا شکار ہوتی ہے ۔ کہنے کو صنفی امتیاز کے بغیر ہر انسان کو برابر کے حقوق حاصل ہیں مگر عملی طور پر عورت کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے مذہب اسلام میں عورت پیغمبر نہیں بن سکی مگر وہ پیغمبر کی ماں ضرور ہے ۔ جنات کے حوالے سے جعلی اور ڈبہ پیروں کے قصے کہانیاں زبان زدِ خاص و عام ہیں ۔ جعلی پیروں نے بہت دکانداری کر لی ہے ، ذاتی اغراض و ہوس زر کیلئے انسانیت پر بہت ظلم کئے ۔ کورونا وائرس نے بہت سے جعل سازوں کے نقاب اتار دیئے ، یہ تو کہتے تھے کہ کائنات کی ہر مرض کا ہم علاج کرتے ہیں ، اب یہ کورونا کے خوف سے گھروں میں چھپ کر کیوں بیٹھے ہیں ۔ اس طرح کے واقعات جہالت کی بناء پر ہوتے ہیں ،سرکارؐ کی آمد سے پہلے عرب میں بیٹی کو زندہ درگو کیا جاتا تھا ، یہ بھی جہالت کی بناء پر تھا ، وسیب میں اس طرح کے واقعات کے خاتمے کیلئے تعلیم اور تعلیمی اداروں کے قیام کے ساتھ ساتھ بیروزگاری کا خاتمہ اور وسیب کے لوگوں کو اختیار دینا ضروری ہے تاکہ وہ غربت اور جہالت کی قید سے آزاد ہو سکیں ۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ پوری دنیا میں میل شاؤنزم ہے لیکن یورپ نے بہت حد تک عورت کو جزوی احترام دیدیا ہے۔ ترقی پذیر دنیا میں آج بھی عورت کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے اور پاکستان میں بھی عورت صنفی امتیاز کا شکار ہے۔ کالا کالی کے ہر آئے روز واقعات ہوتے ہیں اور کالا کالی کے نام پر عورت کو قتل کیا جاتا ہے ۔ ’’ کالا کالی ‘‘ کی رسم کو کسی علاقے کیلئے قانون یا کسی قوم میں ثقافتی وراثت قرار دینا تو درست نہیں ، مگر بد قسمتی سے پاکستان کے کچھ حصوں میں اس گندی رسم کا نفاذ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس رسم کو مختلف علاقوں میں کس علاقے میں کون سے نام سے بلایا جاتا ہے اور اس کا دائرہ پاکستان کے کس کس علاقے میں پھیلا ہوا ہے ؟ اس رسم کو بلوچی زبان میں ’’ سیاہ کاری ‘‘ ، سندھی زبان میں ’’ کاروکاری ‘‘ اور سرائیکی میں ’’ کالا کالی ‘‘ کہا جاتا ہے۔ پنجابی ، پشتواور پوٹھوہاری زبان میں اس رسم کیلئے کوئی لفظ نہیں کیونکہ پنجاب، پشتو اور پوٹھوہاری علاقے میں اس رسم کا کوئی وجود ہی نہیں ۔ بات یہ نہیں کہ ان علاقوں میں یہ واقعات یا اس نتیجے میں قتل نہیں ہوتے ، یہ سب کچھ ہوتا ہے مگر ’’ کالا کالی ‘‘ رسم یا قانون کے طور پر ڈیل نہیں کیا جاتا۔ کالا کالی رسم یا قانون کی ابتدا آج سے نہیں صدیوں پہلے بلوچستان سے ہوئی تھی ۔ بلوچ ’’ جرگے ‘‘ میں اس رسم کو باقاعدہ قانون کا درجہ حاصل ہے۔ بلوچستان میں اگر کوئی شخص غیرت میں آ کر ’’ کالا کالی ‘‘ کو قتل کر دے تو بلوچ قانون میں نا صرف یہ کہ کوئی سزا نہیں بلکہ قاتل کیلئے جزاموجود ہے بلکہ اس کو انعام کے ساتھ ساتھ ’’ غیرت مند ‘‘ کا خطاب دیا جاتا ہے۔ سرائیکی خطے اور سندھ میں اس رسم کو قانونی حیثیت تو حاصل نہیں پر کسی نہ کسی شکل میں اس رسم کا وجود باقی ہے اور نام نہاد ’’ سردارانِ قوم ‘‘ اس کالے قانون یا ظالمانہ رسم کا نفاذ اپنے ذاتی عزائم اور مقاصد کیلئے کرتے رہتے ہیں۔ دین اسلام، آئین پاکستان اور دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں اس سزا کا وجود نہیں ۔اسلام میں کالا کالی کو سنگسار کرنے کا حکم موجود ہے پر اس سزا کے نفاذکیلئے بھی شادی شدہ ، غیر شادی شدہ ، شک کی بجائے یقین جیسی شقیں موجود ہیں مگر ہمارے علاقے میں اس رسم کو انتہائی بھیانک اور غیر انسانی رویے کے حوالے سے استعمال کیا جاتا ہے اور اکثر اوقات جھوٹے الزامات لگا کر مرد و خواتین کو بیدردی سے قتل کیا جاتا ہے۔ نا حق قتل بہت بڑا جرم ہے اور اسلام میں بھی بد کاری کی سزا سنگساری ہے اور اس بد کاری کے ثبوت کیلئے جو معیار مقرر کیا گیا ہے اس لحاظ سے تو جرم ثابت ہونا بہت مشکل ہے ۔ سخت معیار کا مطلب بھی یہی ہے کہ نا حق کسی کو سزا نہ ملے ۔ غیرت کے نام پرکسی بے گناہ کا قتل قابلِ شرم اور نا قابلِ معافی جرم ہے۔ اب اس روش کو ختم ہونا چاہئے کہ عورت کے قتل کیلئے گھر کا ہی فرد قاتل ہوتا ہے اور دوسرا مدعی بن کر کچھ عرصہ بعد قاتل کو معاف کر دیتا ہے۔ اس بارے میں قانون سازی ، اس سے بڑھ کر قانون پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔دائرہ دین پناہ کا یہ واقعہ ہماری آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے ، حکومت کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر بھی سمجھدار لوگ خصوصاً نوجوان اس طرح کے واقعات کی حوصلہ شکنی کریں اور جعلی پیروں کی ریشہ دوانیوں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکیں ۔ اب بہت کچھ بدل چکا ہے ، کورونا کے بعد نیا زمانہ وجود میں آ رہا ہے ، اب جہالت کے بت توڑنا ہونگے اور جعلی پیروں کے خلاف جہاد کرنا ہوگا اور ظلم کا شکار ہونے والی صرف دائرہ دین پناہ کی ایک خاتون کو نہیں بلکہ تمام خواتین کو ظلم سے بچانا ہوگا اور میل شاؤنزم کے بت پاش پاش کرنا ہونگے اور ہر عورت کو ماں ، بہن اور بیٹی کے روپ میں دیکھنا ہوگا ورنہ یہ سوال باقی رہے گا کہ عورت پر ظلم کب تک ؟