میاں نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے، آئی جے آئی تشکیل پا چکی تھی اور جنرل حمید گل مرحوم کی قیادت میں مختلف جماعتوں اور الیکٹ ایبلز کو ہانکا لگا کر آئی جے آئی میں اکٹھا کیا جا رہا تھا۔ ہمارے دوست ڈاکٹر محمد شفیق چودھری انڈیپنڈنٹ پارلیمانی گروپ کے سیکرٹری کے طور پر فیصل آباد کے ایک حلقہ سے قومی اسمبلی کے اُمیدوار تھے، انہیں آئی جے آئی کا ٹکٹ مل چکا تھا کیونکہ طے شدہ فارمولے کے مطابق آزاد گروپ کے ارکان اسمبلی آئی جے آئی کے ٹکٹ کے حقدار تھے۔ ڈاکٹر شفیق چودھری نے حلقے کا رُخ کیا تو پتہ چلا کہ اگرچہ آئی جے آئی کا ٹکٹ اُن کے پاس ہے مگر پنجاب حکومت اور وزیر اعلیٰ کی سرپرستی چودھری نذیر کو حاصل ہے۔ جو ایک حلقے سے آئی جے آئی اور دوسرے سے آزاد اُمیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔ چودھری نذیر دولت مند اور انتخابی مہم میں دریا دلی سے پیسہ بہا رہے تھے۔ ڈاکٹر شفیق چودھری صاحب کے لیے ایک مالدار ’’ڈنڈی پٹی‘‘ طاقتور اور وزیر اعلیٰ کے حمایت یافتہ آزاد اُمیدوار کا مقابلہ کرنا مشکل تھا؛چنانچہ انہوں نے آئی جے آئی کی اعلیٰ سطحی کمیٹی کے ارکان پروفیسر خورشید احمد اور قاضی حسین احمد سے رابطہ کیا، قاضی صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو تسلی دی اور کہا کہ آج ہی میاں نواز شریف منصورہ آ رہے ہیں آپ کے سامنے بات ہو گی۔ میاں نواز شریف منصورہ آئے،علیحدگی میں ملاقات کے بعد نماز کی ادائیگی کے لیے میاں صاحب جامع منصورہ تشریف لائے تو قاضی صاحب نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ذکر کیا اور کہا کہ چودھری نذیر کو جس حلقے سے آئی جے آئی کا ٹکٹ ملا ہے وہاں تک محدود رہیں اور ڈاکٹر صاحب کے حلقے میں طاقت اور پیسے کے زور پر دخل اندازی نہ کریں۔ میاں صاحب نے جامع منصورہ میں بیٹھ کر وعدہ کیا کہ وہ چودھری نذیر کو اس حلقے سے دستبردار ہونے‘ بصورت دیگر آئی جے آئی کا ٹکٹ واپس کرنے پر مجبور کریں گے۔ دو دن گزر گئے مگر کچھ نہ ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے پھر رابطہ کیا۔ وزیر اعلیٰ کی طرف سے انہیں کہا گیا کہ وہ کمشنر لاہور امین اللہ چودھری(طیارہ کیس فیم) سے رجوع کریں۔ جنہیں چودھری نذیر کو دستبردار کرانے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب حیران کہ کمشنر لاہور کا اس سیاسی معاملے سے کیا لینا دینا؟ بہر حال حکم حاکم مرگ مفاجات، ڈاکٹر مجھے لے کر کمشنر ہائوس پہنچ گئے۔ جہاں امین اللہ چودھری نے ہمارا سواگت اپنی چرب زبانی سے کیا مگر آخر میں ڈاکٹر صاحب کو مشورہ دیا کہ آپ وقت،پیسہ اور توانائی ضائع نہ کریں۔ وزیر اعلیٰ چودھری نذیر کو دونوں حلقوں سے کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ شاید کسی پرانی رنجش کی بنا پر آپ کو اسمبلی کی رکنیت کا اہل نہیں سمجھتے۔ ڈاکٹر صاحب کو بات سمجھ نہ آئی تو انتخابات سے ایک روز قبل چودھری نذیر نے اپنے ہوائی جہاز کے ذریعے ایک پمفلٹ پورے حلقے میں پھینک کر مشکل پیدا کر دی جس میں ڈاکٹر صاحب کی انتخاب سے دستبرداری کا اعلان کیا گیا تھا۔ عام انتخابات کے بعد علم ہوا کہ کئی دوسرے اُمیدواروں کے خلاف یہ واردات ہوئی اور 1990ء کے انتخابات میں غلام مصطفی جتوئی بھی ایسی سازش کا نشانہ بنے۔ گزشتہ روز میاں نواز شریف نے پریس کانفرنس میں چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال کے خلاف گرجتے برستے ہوئے جب یہ دعویٰ کیا کہ مسلم لیگی الیکٹ ایبلز کو پی ٹی آئی کی طرف ہانکا جا رہا ہے تو مجھے یہ واقعہ یاد آیا جس کے ایک حصے کا میں عینی شاہد ہوں۔ اُمیدواروں کو ٹکٹ دیکر اپنے گماشتہ آزاد اُمیدواروں سے ہرانے، ٹکٹ یافتہ اُمیدواروں کو دستبردار کرانے کے لیے کمشنر اور دیگر انتظامی افسروں کو استعمال کرنے اور الیکٹ ایبلز کی فہرستیں سپیشل برانچ، آئی بی اور دیگر خفیہ اداروں سے تیار کرانے والا سیاستدان جب ہانکے کی بات کرے تو قابل فہم ہے کہ جگ بیتی نہیں ہڈ بیتی بیان کر رہا ہے۔ ؎ تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی 1988ء سے لے کر 2013ء کے الیکشن تک مسلم لیگ(ن) کی کامیابی میں اہم ترین عنصر اور کردار اُن اداروں کا رہا جو آج کل میاں صاحب کو ناپسند ہیں۔ اُمیدواروں کے انتخاب سے لے کر دستبرداری اور پولنگ سٹیشنوں کے قیام سے لے کر گنتی اور نتائج میں گڑ بڑ تک کہاں کہاں یہ استعمال نہیں ہوئے۔ محکمہ مال، تعلیم اور پولیس کے اہلکار، افسر، انتظامی عہدوں پر فائز سول سروس کے ارکان اور خفیہ والے جب تک مسلم لیگ(ن) کے لیے کارآمد تھے حب الوطنی کے پیکر اور جمہوریت کے پاسبان تھے مگر جب سے انہیں اپنے اصل فرائض تک محدود کرنے اور سیاسی معاملات سے الگ رکھنے کی حکمت عملی کا آغاز ہوا یہ خلائی مخلوق میں شمار ہونے لگے۔ دانیال عزیز، طلال چودھری، اویس لغاری، سکندر بوسن، امیر مقام اور کئی دوسرے الیکٹ ایبلز جب تک قاف لیگ کا حصہ رہے، لوٹے کہلائے مگر جونہی انہوں نے مسلم لیگ(ن) جوائن کی ایسے پوتر ہو گئے کہ ع دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں نیب جب تک سندھ اور کراچی کے کرپٹ عناصر کا پیچھا کرتی رہی شریف برادران کے نزدیک دودھ کی دُھلی تھی مگر جونہی اس نے پنجاب کا رخ کیا متعصب قرار پائی اور چیئرمین بھی گردن زدنی ہے۔ ہماری سیاسی اشرافیہ کے لیے باٹ ’’لینے کے اور دینے کے اور‘‘ کی جو روش برس ہا برس سے اپنا رکھی ہے‘ جماعتوں کو مضبوط بنانے اور جمہوری اقدار و روایات کو فروغ و استحکام دینے کے بجائے افراد اور خاندانوں کی غلامی کا کلچر پروان چڑھانے پر کمربستہ رہی۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ریاستی ادارے اگر سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا تہیہ بھی کر لیں تو کوئی انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ ویسے بھی جب میاں صاحب نے قومی اداروں کے خلاف یکطرفہ جنگ چھیڑ رکھی ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان، آرمی چیف، چیئرمین نیب ان کی زبان کے زخم سہہ رہے ہیں تو انہیں اس خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ انہیں کہیں سے کوئی جواب نہیں ملے گا۔ احتساب کے عمل اور عدالتی فیصلوں کو خوش آمدید کہنے اور ایک قانون پسند شہری کی طرح قانون کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے بجائے جنگ کا آغاز موصوف نے خود کیا اور سادہ لوح عوام کو بغاوت پر ایک بار نہیں بار بار اُکسایا، یہ بیانیہ بھی دیا کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے۔ اب بھگتیں، رونے، چلانے اور کوستے رہنے کا کیا فائدہ؟ وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اُڑایا کرتے تھے۔ 1988ء میں اپنے من پسند اُمیدواروں کی کامیابی کے لیے ہر اُصول، ضابطہ اور ڈسپلن توڑنے والا شخص اب دوسروں سے اصول پرستی، اخلاقیات اور قانونی پسندی کی توقع کس برتے پر رکھتا ہے؟ عوض معاوضہ گلہ ندارد