تقریر عمران خان کی بھی جامع اور مدلل تھی مگر قوم کا دل فواد حسین چودھری نے خوش کر دیا۔ کہا اور کیا خوب کہا’’جنگ عزت کے لیے لڑی جاتی ہے معیشت کے بل بوتے پر نہیں‘‘ افغانستان میں طالبان کی کامرانی اور دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کی شرمناک ناکامی میں یہی سبق پوشیدہ ہے ؎ فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو اُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی آزاد، جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کو ڈوگرہ راج سے مضبوط معیشت کی خوشحال ریاست اور جدید اسلحہ سے لیس لڑاکا فوج نے نہیں ان قبائلیوں نے آزاد کرایا جن کی بندوقیں ازکار رفتہ ، لباس پھٹے پرانے مگر جذبے کوہ ہمالیہ سے بلند تھے۔ پاکستان بنانے کے لیے تو نہتے، کمزور، مفلوک الحال مسلمانوں کو انگریز اور برہمن قیادت کے خلاف ایک گولی چلانے کی ضرورت بھی پیش نہ آئی۔ جذبے اور دلیل سے اسلامیان برصغیر اور اولوالعزم قیادت نے تیروتفنگ کا کام لیا، جو دلائل آج پاکستان کی معیشت کے حوالے دے کر عیار مگر عزم و جنون سے عاری سیاستدان و دانشور ہمیں جنگ سے ڈراتے ہیں یہ سارے دلائل مسلم لیگ کی قیادت بالخصوص قائد اعظم اور ان کے جانثار ساتھیوں کو کانگریسی بنیے اور متحدہ قومیت کے حامی و انگریز پرست تحریک پاکستان کے دوران شدومد سے دہراتے اور مسلم عوام میں بد دلی پھیلاتے تھے، مگر نگاہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز کا رخت سفر باندھ کر میرکارواں نے طاقت، دولت اور اکثریت کے بتوں کو عبرت ناک شکست دی، آج صورتحال 1940ء کے عشرے سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ کشمیری عوام کو اللہ تعالیٰ کے بعد پاکستان کا آسرا ہے، دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت، جدید اسلحے، دفاعی صلاحیت، جذبہ جہاد اور بہترین تربیت سے آراستہ فوج اور 22کروڑ جیتے جاگتے عوام جن کے دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ جب تک ہمارے حکمران جموں و کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ جان کر آزادی کی جدوجہد اور حق خود ارادیت کی حمایت کرتے رہے دنیا میں ہماری بات سنی گئی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل و جنرل اسمبلی میں کشمیریوں کی حمایت جاری رہی مگر جونہی پاکستان جو شاہینوں کا نشیمن تھا، زاغوں کے تصرف میں آیا، بھارت کے حجم، عسکری قوت معیشت اور بین الاقوامی تعلقات سے خوف کی نفسیات نے ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں اور دانشوروں کے دل و دماغ پر غلبہ کیا اور ہم دل کے بجائے شکم سے سوچنے لگے، ہمیں اپنی پڑ گئی، اپنے بیگانے ہو گئے اور ایٹمی پروگرام ہمارے دفاع کا ضامن بننے کے بجائے ہمیں اس کے دفاع کی فکر پڑ گئی۔ عمران خان پاکستانی قوم کو عزت و وقار سے جینے اور بہادر شاہ ظفر کے بجائے ٹیپو سلطان کے انداز فکر سے سوچنے کی ترغیب دے کر اقتدار میں آیا۔ اس نے ہمیشہ یہ وعدہ کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے سامنے جھکا ہے نہ قوم کو کبھی جھکنے دے گا۔ افغانستان میں طاقت اور بندوق کو جذبہ جہاد اور قومی حمیت کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا اور امریکی صدر ٹرمپ کو عمران خان کے روبرو بیٹھ کر پاکستان سے مدد مانگنا پڑی۔ افغان طالبان کی اس کامرانی میں پاکستان کا جو حصہ ہے، وہ نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں لیکن وہی پاکستان کیا کشمیری عوام کی کامیابی اور جارح،نسل پرست، تنگ نظر اور عالمی امن کے لیے خطرہ بننے والے بھارت کی ذلت آمیز پسپائی میں کوئی کردار ادا نہیں کرے گا؟ آخر کب تک کمزور معیشت، امریکہ کی ناراضگی کا خوف اور بھارت کی جارحیت کا اندیشہ ہمارے پائوں کی زنجیر بنے رہیں گے اور ہم کشمیریوں کو بھارتی فوج کے رحم و کرم پر چھوڑ کر صرف اخلاقی اور سفارتی مدد کا راگ الاپیں گے۔ عمران خان کی تقریر مدلل تھی، مگر کشمیری عوام کو انہوں نے کوئی واضح پیغام دیا نہ ان کے زخموں پر مرہم رکھا۔ یہ عمران خان کی اپنی غلطی ہے یا ناقص اور بے سمت مشاورت کا اعجاز کہ کشمیری عوام کے لیے اک حرف تسلی کا کہہ سکے نہ سید علی گیلانی، یاسین ملک، میر واعظ عمر فاروق اور قید بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے دیگر بے لوث و پرعزم لیڈروں کی جرأت و استقامت کی تحسین کر پائے۔ اسلام آباد میں سوچ بچار کا عمل جاری ہے اور پانچ عملی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں قومی سلامتی کمیٹی کے تجویز کردہ اقدامات میں سے دو عملی ہیں باقی تین علامتی۔ اقوام متحدہ اور دیگر اداروں سے رجوع کرنے کا ماضی میں کوئی فائدہ ہوا نہ اب امکان ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہمارے ساتھ کون کھڑا ہو گا؟ سنجیدہ سوال ہے جس کا جواب نا معلوم۔دوطرفہ معاہدوں کا ازسر نو جائزہ لینے کی بات زیادہ سے زیادہ دھمکی ہے۔ جس سے متکبر بھارت مرعوب ہو گا نہ خائف۔ ممکن ہے وہ شملہ، تاشقند اور طاس معاہدوں سمیت سب کی تنسیخ کا خود خواہش مند ہو۔ سفارتی تعلقات میں کمی اور تجارت میں تعطل البتہ سنجیدہ اقدامات ہیں مگر یہ سب کے سب دفاعی اقدامات ہیں، بھارت نے جارحیت اور پیش قدمی کی ہے کشمیری اور پاکستانی عوام حکمرانوں اور فوجی قیادت سے پیش قدمی اور منہ توڑ جواب کی توقع کرتے ہیں، بندوق اور طاقت کے فیصلوں کو آج تک کسی قرارداد، جرگے، ثالثی اور عدالتی حکم سے کبھی ختم نہیں کرایا جا سکا۔ افغانستان کے عوام اگر سوویت یونین کی فوجی مداخلت کے بعد اقوام متحدہ اور عالمی برادری پر تکیہ کرتے، طالبان امریکی فوجیں داخل ہونے کے بعد عالمی عدالت انصاف کو دہائی دیتے تو غلامی ان کا مقدر تھی، کشمیری عوام ستر سال سے اس کی سزا بھگت رہے ہیں اور پاکستان اس اُمید پر اپنا آدھا حصہ گنوا چکا ہے۔ بھارت کو امریکہ اور اقوام متحدہ جموں و کشمیر خالی کرنے اور حالیہ ترامیم واپس لینے پر کیوں مجبور کریں گے؟ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کا اہتمام کب ہو گا؟ ایں خیال است و محال است و جنوں عمران خان کی تقریر اور قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ میں امریکہ، نام نہاد عالمی برادری اور بھارت کو کوئی ایسا واضح اور دو ٹوک پیغام نہیں ملا کہ نسل پرست بھارت اور ہٹلر مزاج مودی انپے فیصلے واپس لینے کا سوچے اور عالمی برادری مداخلت کی فکر کرے۔ بیمار، نحیف ونزار قائد اعظم نے بسترعلالت پر آرمی چیف کو کشمیر میں فوجیں اتارنے کی ہدایت کی، موجودہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھارتی تسلط سے محفوظ رہے تو جذبہ جہاد کے طفیل اور بھارت کی پسپائی بھی اسی طور ممکن ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ بے تحاشہ مظالم سے تنگ آ کر کشمیری عوام آزاد جموں و کشمیر کا رخ کر سکتے ہیں۔ 1979ء میں افغان اور پچھلے دو تین عشروں سے فلسطینی عوام کی مثال سامنے ہے۔ اگر خدانخواستہ حالات اس نہج کو پہنچے تو ہماری معیشت ہی نہیں سیاست و معاشرت پر بھی تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے، ہم کنٹرول لائن پر دفاع کے ساتھ کشمیری مہاجرین کے قضئے سے نمٹیں گے یا معیشت کو بہتر کریں گے؟ یہ لمحہ فکریہ ہے۔ بہتر نہ تھا کہ عمران خان اپنی تقریر میں جہاں عالمی برادری کو نسل پرست بی جے پی اور مودی کے انسان دشمن طرز عمل سے آگاہ کر رہے تھے وہاں بھارت کی طرف سے بین الاقوامی اور دو طرفہ معاہدوں کی تذلیل و تنسیخ کا حوالہ دے کر یہ اعلان بھی کر دیتے کہ جب عالمی برادری اور ادارے بھارت کو روکنے پر آمادہ نہیں تو ہم بھی حافظ سعید کے حوالے سے کوئی کمٹ منٹ پوری کرنے کے مکلف ہیں نہ آج کے بعد کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت کے جواب میں تحمل اور برداشت کی پالیسی جاری رکھنے کے پابند۔ عمران خان نے خود کو ٹیپو سلطان کا پیروکار کہا کاش انہیں کوئی بتا سکتا کہ ایٹمی پاکستان محمد بن قاسم، ظہیر الدین بابر، شہاب الدین غوری، محمود غزنوی اور احمد شاہ ابدالی کی طرح بت کدہ ہند کو تاراج کرنے کے لیے وجود میں آیا تھا، ٹیپو سلطان کی طرح ایک دن کی با عزت اور باوقار زندگی بسر کرنے کے لیے نہیں، ہمارے سٹریٹجک ہتھیار، غوری، شاہین آخر کس مرض کی دوا ہیں ؎ نہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سے جائیگا عصا اُٹھائو کہ فرعون اسی سے جائیگا اگر ہے فکر گریباں تو گھر میں جا بیٹھ یہ وہ عذاب ہے دیوانگی سے جائیگا بجھے چراغ، لٹیں عصمتیں، چمن اجڑا یہ رنج جس نے دیئے کب خوشی سے جائیگا