اسلامیانِ پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک میں آج’’عید الاضحٰی‘‘ کی رحمتوں اور برکتوں کا ورود ہوگا، جبکہ سعودی عرب میںکورونا ایس او پیز کی پابندیوں کے ساتھ حج اور آج، عید کی نماز بھی ادا کردی گئی۔ اسلام میں دو اہم تہواروں کو دو خاص سالانہ عبادات کے ساتھ جوڑا گیا ہے ۔ یعنی عید الفطر کو رمضان المبارک اور عید الاضحٰی کو حج بیت اللہ کے ساتھ۔ ’’اَضْحٰی‘‘ کا معنی ہے ’’قربانی ‘‘ عید الاضحی یعنی’’عید قرباں‘‘۔عید الاضحٰی بلا شبہ حج ہی کی ایک توسیعی صورت ہے، ’’حج‘‘ اس اعتبار سے ، ایک طرح کی محدودیت کا حامل ہے کہ اس کے تمام مراسم اور مناسک ایک خاص مقام اور متعین علاقے--- یعنی مکہ مکرمہ اور اس کے نواح میں ہی مخصوص اوقات میں ادا کیئے جاتے ہیں۔ اس کی برکات کو روئے زمین کے تمام کے مسلمانوں تک پہنچانے کے لیے ، اس کے ایک رکن یعنی اللہ تعالی کے نام پر قربانی ، کو وسعت دے کر ، دنیا بھر میںبسنے والے ہر مسلمان کو اس میں شریک ہونے کا موقع فراہم کردگیا ، اور یہی عید الاضحٰی کی اصل حکمت ہے۔ حج اور عید الاضحٰی- دونوں حضرت ابرہیم علیہ السلام کی شخصیت ہی کے گرد گھومتے ہیں۔ جن کی تعظیم و تکریم روئے زمین کے بسنے والے دو تہائی سے زائد افراد کرتے ہیں، اور ان دونوں کے مراسم اور مناسک ، ان کی حیاتِ طیبہ کے بعض واقعات کی یاد گار ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طویل اور پُرخطر حیات کا خلاصہ اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ ہے’’امتحان اور آزمائش‘‘ جس کے لیے قرآن پاک نے اپنی جامع اصطلاح’’ابتلأ‘‘ استعمال کی ہے ۔ یعنی حضرت ابراہیمؑ کی پوری داستان ِ حیات کو قرآن پاک نے ان چند الفاظ میں سمودیا۔’’وَاذ ابْتَلٰی اِبرٰاہیمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنُّ‘‘یعنی جب آزمایا ابراہیم علیہ السلام کو، اس کے رب نے بہت سی باتوں میں ،تو اس نے ان سب کو پورا کردکھایا‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ابتلا ،آزمائش اور مختلف امتحانات پر ایک سرسر ی سی نگاہ ڈالتے ہوئے آگے بڑھیئے، والدین اور گھربار کو اللہ تعالیٰ کے لیے چھوڑا، اپنی قوم اور برادری سے بھی قطع تعلق کرلیا ۔ سوسائٹی کی مروجہ عادات ورسوم اور عقائدو افکار کو مستردکیا، شہنشاہِ وقت اور حاکم اعلیٰ نمرود ،جو خود کو رب سمجھتا تھا ،سے ٹکر لی۔ اللہ تعالیٰ کی واحدنیت اورد ین کی صداقت کے لیے ’’نارِ نمرود‘‘ میں کو دگئے،جس کی نقشہ کشی اقبال نے یو ں کی؛ بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشۂ لب بام ابھی اورپھر اپنے آبائی علاقے کو خیر بادکہتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہجرت کر گئے ۔ ان سارے امتحانات اور آزمائشوں کا ’’کلائمیکس ‘‘یہ ہے کہ عمر کے آخری حصے میں ---بڑھاپے کے آثار بڑھنے لگے، تواُولاد سے محرومی کی فکردامن گیر ہوئی ، کہ جس مقصد اور مشن کے لیے زندگی بھر مشقتیںاُٹھائیں اور مصیبتیں جھیلیں، میرے بعد اس مشن اور مقصد کا علمبردار کون ہوگا---؟ وطن سے ایک بھتیجا ساتھ چلا تھا، اس کو شرقِ اُردن میں دعوت و تبلیغ کی عَلَم برادری سونپ دی۔ چنانچہ اس احساس کے ساتھ ، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دُعا کی:’’رَبِّ ہَبْ لِی مِنَ الصٰلحین‘‘ یعنی پروردگار مجھے نیک وارث عطا فرما۔اللہ تعالیٰ کی شان کریمی، کہ خالص معجزانہ طور پر ، ستاسی سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے ایک چاند سا بیٹا عطا فرمایا، اور وہ بھی ایسا کہ جسے خود اللہ تعالیٰ نے ’’غُلَامُٗ حَلیْمُٗ‘‘۔یعنی حلم والا فرزند فرمایا۔جیسے جیسے بیٹا بڑا ہوتا گیا ، بوڑھے باپ کا ’’نخلِ تمنا‘‘ سرسبز و شاداب ہوتا گیا۔ عمر کے آخری حصے میں عطا ہونے والے اکلوتے بیٹے کے ساتھ سن رسیدہ باپ کی جذبانی وابستگی کا عالم کیا ہوگا۔ اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ، کتنی ہی امنگیں اور امیدیں باپ کے دل میں تازہ ہونگی، کہ بیٹا برابر کا ہونے کو ہے ۔ گھر میں رونق ہوگی، میرے فکری اور اعتقادی سفر میں میرا دست و بازو ہوگا۔ اللہ کے اس گھر کی نگہبانی ملکر کریں گے ، جسے قرآن پاک نے ’’البَیْتُ العَتِیْق‘‘کہا، اِدھر عمر کے آخری حصے کی منزلیں عبور کرتا باپ--- اپنے جوان ہوتے ہوئے بیٹے کو دیکھ رہاتھا ،اُدھرقدرت مسکرارہی تھی ، کہ ترکش ِ امتحان میں ابھی ایک ایسا تیر باقی ہے، جس سے بڑے بڑوں کے کلیجے دہل جائیں۔ حکم ہوا، اپنے بیٹے کو قربان کردو!یقینا زمین پر سکتہ طاری ہواہوگا۔ سن رسیدہ باپ، نوخیز بیٹے کو ، اللہ تعالیٰ کے حکم پر قربان کرنے کے لیے ، آستینیں چڑھائے، مستعدتھا۔حضرت اسمعیل علیہ السلام نے باپ کے حکم کے آگے سرِ تسلیم کیا ہوا تھا ۔گویا اس میں ایک اور اہم سبق، والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری کی بھی ہے ، جس سے آج کا بے حس معاشرہ بتدریج بے نیاز ہوتا جارہا ہے ، یہ واقعہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کیساتھ والدین کی تابعدادی کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے ، یہی وہ مقام ہے جہاں اقبال پکار اُٹھے؛ یہ فیضانِ نظر تھا، یا کہ مکتب کی کرامت تھی سکھائے کس نے اسمعیل ؑ کو آدابِ فرزندی اقبال نے ، اس کے لیے ایک اور پیرایہ بھی اختیار کیا؛ باپ کا عِلم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو پھر پِسر لائقِ میراثِ پدر کیونکر ہو آسمانوں سے صدا بلند ہوئی کہ اے ابراہیم تو نے اپنا خواب سچا کر دکھایا اور قرآن پاک نے اس کو’’ذبحٌ عَظِیمْ‘‘ سے موسوم کیا ، ارشادہوا،’’اور اس کے بدلے میں دی ،ہم نے ایک بڑی قربانی،اور باقی رکھا ہم نے اس (چلن ) پرپچھلوں کو‘‘۔ یوں قربانی کا یہ سلسلہ نسلِ آدم تک منتقل ہوا، جس کی ادائیگی سنتِ ابراہیمی کے طور پر، عید کے آئندہ تین یوم میں ہوگی ۔ صحابہ کرامؓ اور آپﷺ کے اہلِ بیت ، احکام کی تعمیل میں ہمیشہ مستعد رہتے ، لیکن وہ اموراحکامِ شرعی کی مصلحتیں، حکمتیں اور علتیں جاننے کی بھی کوشش کرتے ، چنانچہ نبی اکرمﷺ سے پوچھا گیا ، یارسول اللہ ﷺ! ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے ---؟یعنی آپ ﷺ کے حکم کی تعمیل میں قربانی کرتورہے ہیں ،مگر اس کا فلسفہ کیا ہے ، علّت اور مقصد کیا ہے ، غرض و غایت کیا ہے ؟اس کا پس منظر کیا ہے ؟ اور یہ کس چیز کی علامت ہے ؟تو نبیﷺ نے جواب دیا’’یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے‘‘ جب اللہ تعالیٰ کی راہ میں بیٹے کو قربان کرنے کے اس آخری اور انتہائی کٹھن مرحلے سے بھی وہ سرخرو ہوئے۔تو اللہ نے اس کی یاد گار کو قیامت تک اس حکم کے ساتھ پائندہ کردیا کہ جو بھی استطاعت رکھتا ہو اس پر قربانی واجب ہے ،اور جو صاحبِ حیثیت ہونے کے باوجود قربانی نہ دے ، تو وہ عید کے روز ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے ،یعنی مکمل علیحدگی ۔ گویا’’قربانی‘‘-اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنی محبت، جذبات اور احساسات کو، اللہ کی رضا کے لیے پیش کردینے کا نام ہے ۔گویا بھیڑ، بکرے، اونٹ ، گائے-ان کی قربانی دراصل ’’علامت ‘‘ہے، اطاعت و فرماں برداری، تسلیم و رضا اور تقویٰ و طہارت کی ۔ اگر اس کی اصل روح اس عمل سے غائب ہو جائے ، تو پھر اس کی حیثیت --- بقول اقبال؛ رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے نماز و روزہ و قربانی و حج یہ سب باقی ہے ، تو باقی نہیں ہے یہ واقعہ نوع آدمیت کی طویل تاریخ میں ایک عظیم نشان اور یادگار کے طور پر معتبر ہوگیا اور یوں اس کی یاد میں ’’قربانی‘‘ہمیشہ کے لیے ’’شعائر دین‘‘میں شامل ہوگئی ، بلکہ یہاں تک کہ جو جانور قربانی کے لیے مختص ہوجائیں، ان کو بھی ’’شعائر اللہ‘‘ یعنی اللہ کی نشانی قراد دے دیا گیا، اور یوں ان کے لیے بھی حرمت اور تقدس کا اہتمام کر دیا گیا ۔