کل ایک تصویر ڈھونڈنے کے لیے پرانی تصویروں والا ڈبہ کھولا تو گزری زندگی کے کئی لمحے تصویروں کی صورت میرے سامنے تھے۔ پرانی تصویریں کیا دیکھیں لگا کچھ وقت کے لیے میں کسی ٹائم مشین پر بیٹھ کر گزرے ہوئے زمانوں میں چلی گئی تھی۔ کچھ پرانی تصویریں ایسی تھیں جنہیں میں نے البم میں قید نہیں کیا بلکہ ایک ڈبے میں بے ترتیب رکھ دیا ہے۔ تصویروں کی اس بے ترتیبی میں ایک عجیب سا لطف ہے۔ تصویروں کا باکس کھولیں تو کبھی کوئی لمحہ تصویر کی صورت ہاتھ آ جاتا ہے اور کبھی کوئی۔ بالکل اڑتی ہوئی تتلیوں کی طرح اس باکس میں کئی خوب صورت لمحے قید ہیں۔ البم میں تصویریں لگا دیں تو جب بھی آپ البم کھولیں گے تصویریں ایک ہی ترتیب سے آپ کے سامنے آتی ہیں۔ پھر یہ ترتیب بھی آپ کو ازبر ہو جاتی ہے ایک تصویر کے بعد اگلی تصویر کا نقش خوبخود ذہن میں ابھر آتا ہے سو جو حیرت آمیز مسرت آپ کو بے ترتیب رکھی ہوئی تصویریں دیکھنے سے ملتی ہے اس سے آپ محروم رہ جاتے ہیں۔پرانی تصویریں دیکھیں تو گزری زندگی قاش درقاش میرے سامنے پڑی تھی۔ عمر کے اس بہتے دریا میں کیسے ہمارے چہرے کے خدوخال نامحسوس طریقے سے گزرے وقت کی گرد اپنے اندر جذب کرتے جاتے ہیں اور خال و خد کے کھلیان کاسنی سے رفتہ رفتہ سرمئی ہوتے جاتے ہیں۔ پیاری امی جان کے ساتھ زندگی کے بیش قیمت لمحے۔ اس گھر کی تصویریں جہاں ہم سب اکٹھے تھے۔ ایک تصویر عیدالاضحی کی دونوں چھوٹے بھائی بکروں کے ساتھ عید کے کپڑے پہنے کھڑے ہیں اور عقب میں امی جان بھی دکھائی دے رہی ہیں۔ پھر ان لمحوں سے جڑے لمحے فلیش بیک مناظر کی طرح میرے ذہن میں اترنے لگے۔ ہاتھ میں پکڑی ہوئی یہ تصویریں بند کتاب کے سرورق کی طرح تھیں میں ایک تصویر پکڑتی اور اس لمحے میں جا اترتی تو گویا پوری کتاب کھلنے لگتی اور ایک تصویر سے کئی اور تصویریں بن جاتیں۔ جنہیں اگرچہ کیمرے نے محفوظ نہیں کیا تھا لیکن دل کے نہال خانے میں وہ تصویریں آج بھی سجی ہوئی تھیں۔ عیدالاضحی کی وہ تصویر دیکھ کر مجھے بہت سی بچپن کی عیدیں یاد آ گئیں۔ ان بچپن کی عیدوں پر جو خوب صورت روایتیں ہوتی تھیں وہ یاد آنے لگیں۔ عید کارڈ دینا بھی ایسی ہی روایت تھی۔ انہی تصویروں میںایک پرانا کارڈ بھی ملا جو کسی قاری بچے نے مجھے بھیجا ہوا تھا اور اس کارڈ کو سنبھال کر رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ دس سال کا بچہ دل کا مریض تھا جوہر آباد میں رہتا تھا سکول نہیں جا سکتا تھا۔ اکثر اخبار کے لیے تصویروں میں رنگ بھر کر بھیجتا تو میں اس کی ڈاک آنے پر اس کی تصویرں کو ترجیحی بنیادوں پر شائع کرتی۔ ایسے ہی اس بچے نے اس عید کارڈ کو تصویروں اور رنگوں سے سجایا ہوا تھا۔ چاروں طرف، عید کے معصوم معصوم اشعار لکھے ہوئے تھے۔ یہ سب باتیں اب ماضی کا قصہ لگتی ہیں۔ صرف چند برس کے فرق سے عید منانے کے انداز واطوار سب بدل گئے ہیں۔ اب عید کارڈوں کی جگہ عید کے ایس ایم ایس اور ڈس ایپ پیغامات نے لے لی ہے اور فیس بک پر عید مبارک کا سٹیٹس لگانا تو To whom it may concernوالا معاملہ ہے۔ کہاں پہلے عمر اور رشتے کا لحاظ رکھتے ہوئے عید کارڈوں کا انتخاب کیا جاتا تھا اور کہاں اب لوگ ریڈی میڈ پیغامات آگے سے آگے فارورڈ کرتے چلے جاتے ہیں۔ چلیے ذرا مثبت ہو کر سوچیں تو یہ سہولت مفت میں ہاتھ آئی ہے کہ آپ بے شمار دوستوں کو عید مبارک کہہ سکیں۔ نہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی۔ لیکن عید پر میسج بھیجنے والے اتنی زحمت تو کر لیا کریں کہ اپنی سوچی ہوئی عید مبارک کی عبارت ٹائپ کریں اور پھر منتخب دوستوں کی فہرست میں بھیج دیں۔ عید کارڈوں کے ساتھ ایک خوب صورتی یہ بھی جڑی ہوئی تھی کہ جوں جوں عید قریب آتی دور نزدیک سے رشتہ داروں اور دوستوں کے عید کارڈ ڈاک کے ذریعے پہنچتے۔ گھر میں، کارنس پر، شیفوں پر، کونے میں رکھی ہوئی میزوں پر عید کارڈ سجا دیئے جاتے یوں عید کارڈوں کی صورت دور رہنے والے پیاروں کی موجودگی کا احساس بھی گھر میں چھایا رہتا۔ عید گزرنے کے بعد بھی ہفتوں تک یہ عید کارڈ ایسے ہی سجے رہتے اور پھر اس کے بعد کسی قیمتی چیز کی طرح سنبھال کر کسی الماری میں رکھ دیئے جاتے تھے اور اب عید پر ایس ایم ایس کی ایسی بھرمار ہوتی ہے کہ کبھی تو پڑھے بغیر ہی عید پیغامات کو ڈیلیٹ کرنا پڑتا ے۔ بہرحال وقت تو آگے بڑھتا ہے سائنس اور ٹیکنالوجی نے جہاں زندگی کو سہولت سے آراستہ کیا وہیں بہت سے لطیف اور خوب صورت احساسات کی موت واقع ہو چکی ہے۔ ہم اس نسل سے ہیں، دو مختلف زمانوں کے سنگھ پر موجود ہیں۔ وہ عیدیں بھی دیکھیں جو سمارٹ فون سے پہلے کے دور کی تھیں۔ اب یہ سوشل میڈیا کی عیدیں بھی دیکھ رہے ہیں جس میں لوگ عید کم مناتے ہیں تصویریں زیادہ اپ لوڈ کرتے ہیں اور بسا اوقات اپنے ساتھ بیٹھے انسانوں سے جڑنے کی بجائے، فیس بک لائکس اور کمنٹ کرنے میں اپنی عید گزار دیتے ہیں اور پھر شکوہ کرتے پائے جاتے ہیں اب پہلے جیسی عیدیں نہیں رہیں۔ گزشتہ عید پر اسی ناسٹیلجیا میں کچھ اشعار سرزد ہوئے تھے اس بار پھر قارئین کی نذر! کھو گئی ہے کہاں سجیلی عید ماں کے آنگن میں تھی جو کھیلی عید عید کارڈوں سے گھر سجاتی تھی میرے بچپن کی وہ سہیلی عید چاند کو دیکھنے کی خواہش میں چھت پہ خوشبو بنی چنبیلی عید اپنے بٹوے میں عیدیاں بھر کے شہر میں گھومتی گھومیلی عید اب وہ منظر بھی خواب ہونے لگا جس کے ہونے سے تھی پہیلی عید ہر عید پر ناسٹیلجیا کا ایک دورہ مجھے ضرور پڑتا ہے۔