دو دن سے طبیعت سخت خراب تھی ،آج صبح اخبار دیکھا تو معلوم ہوا کہ لاہور ہائی کورٹ نے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہاکہ شہباز شریف کو باہر جانے کی اجازت دینا قانون سے مذاق کے مترادف ہے۔کوشش کریںگے شہباز شریف کو باہر جانے سے روکیں ۔جبکہ مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کا نام کبھی بھی ای سی ایل پر نہیں تھا عمران خان نے بلیک لسٹ میں اپنے سیاسی مخالفین کے نام درج کرائے۔ میاں شہباز شریف علاج کی غرض سے بیرون ملک جا رہے ہیں تو بھی درست نہیں کہ میاں نواز شریف اور میاں شہبازشریف نے اپنے دور میں لاہور میں اعلیٰ معیار کے ہسپتال بنوائے وہاں علاج ممکن ہے۔ دوسرا یہ کہ عین عید کے موقع پر باہر جانا اس بناء پر بھی قابل اعتراض ہے کہ لوگ باہر سے آکر عید گھر پر مناتے ہیں اور گھر سے جاکر عید باہر منانا کسی بھی لحاظ سے درست نہیں۔ شہباز شریف کے فیصلے پر مشیر اطلاعات پنجاب فردوس عاشق اعوان نے کہاکہ شہباز شریف بارے عدالتی سندیسہ آیا تو لائحہ عمل طے کریں گے ۔ وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہباز گل نے بھی فیصلے پر حیرانی کاا ظہار کیا ہے اور کہاکہ وزیر اعظم عمران خان ہمارے نظام عدل کی کمزوریوں کی کئی بار نشاندہی کر چکے ہیں ۔ حکومتی اقدام کے ساتھ ساتھ وسیب کے سیاستدانوں کی طرف سے بھی کہا جا رہا ہے کہ لاہور کے ڈومیسائل میں بڑی طاقت ہے۔جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ دو دن اخبار نہ دیکھ سکا آج اخبار دیکھے تو وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار کی طرف سے ایک اچھی خبر موجود تھی کہ وزیر اعلیٰ نے عید سے پہلے صوبے کے غریب فنکاروں کو نوازنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس کے ساتھ یہ خبر بھی موجود ہے کہ جو وعدہ کیا وہ پورا کر دکھایا اور بہاولپور میں بھی بہت جلد سول سیکرٹریٹ کا سنگ بنیاد رکھیں گے ۔اس بارے میں یہ کہوں گا کہ سول سیکرٹریٹ نہیں صوبائی سیکرٹریٹ ہونا چاہیے اور ملتان بہاولپور کے درمیان الگ الگ سول سیکرٹریٹ کا سنگ بنیاد نہیں بلکہ ایک ہی وسیب کے دو شہروں کے درمیان تفریق کا سنگ بنیاد رکھا جا رہا ہے۔ ایک سیکرٹریٹ ہونا چاہیے ’’آدھاتتر اور آدھا بٹیر ‘‘والی بات کسی بھی لحاظ سے درست نہیں۔ ایک خبر آرمی چیف کے حوالے سے ہے جو سعودی عرب کے دورے پر ہیں سعودی ولی عہد محمد بن سلیمان اور ڈپٹی وزیر دفاع خالد بن سلمان سے ملاقاتوں کے دوران جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہاکہ سعودی عرب کی خود مختیاری ،علاقائی سا لمیت اورحرمین شریفین کے دفاع کے لیے پرعزم ہیں ۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے امت مسلمہ کے دل کی ترجمانی کی ہے مسلمان بہت بڑی طاقت ہیں مگر فرقوں نے مسلمانوں کو کمزور کیا ہے ۔عید قربان پر میدان عرفات میں 30 لاکھ حجاج کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز عبداللہ آل نے کہا ہے کہ دعش اسلام کے نام پر اُمت مسلمہ کو تباہ کرنے کی سازش کر رہی ہے۔ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر انسانوں کو گمراہ کرنے والے انتہا پسندوں کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا تفرقہ کی وجہ سے غیر مسلم غالب ہیں، عالم اسلام جدید علوم سے نہ آشنا ہونے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے انہوں نے کہا مسلم حکمران رعایا کا خیال رکھیں۔ مفتی اعظم کا خطبہ گہری سوچ اور فکر کا مقتاضی ہے۔ خصوصاً دہشت گردی، انتہاء پسندی، فرقہ بازی، جدید علوم سے دوری اور مسلم حکمرانوں کے اپنے رعایا سے متعلق مفتی اعظم کے عید کے موقع پر خیالات تمام مسلمانوں اور دنیا میں بسنے والے 99 فیصد انسانوں کے دل کی آواز ہیں۔ خداوند کریم مسلمانوں کو راہ ہدایت دے کہ ہم بکروں کی بجائے اپنی نفسانی خواہشات کی قربانی کے قابل ہو سکیں۔ آج سے لاک ڈائون ہے کل رات گئے تک بازاروں میں بہت رش تھا مال پلازوں پر بڑی بڑی موٹریں کاروں والے شاپنگ کررہے تھے ،گزشتہ سال بھی کورونا میں گزرا اس سال بھی غربت، بیروزگاری اور تنگدستی کے باعث غریب عید نہیں کر سکے۔غریب کو عید کی خوشیوں میں شریک کرنا ضروری ہے ۔ خدا وند کریم نے ہم سب کو جو نعمتیں عطا کی ہیں ان کا شکر بجا لائیں اور اظہارِ تشکر کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم عاجزی ، انکساری اختیار کریں ۔ غریبوں کے کام آئیں اور غریبوں کو صرف فاتحہ خوانی اور قل خوانیوں پر ہی کھانا نہ کھلائیں بلکہ عید ، شادی خوشی اور ہر موقعے پر غریبوں کو بھی کھانا کھلائیں اور کھانا کھلانے کے بعد ان کا شکریہ بھی ادا کریں کہ وہ آپ کیلئے اچھائی اور نیکی کا باعث بنے اور اللہ تعالیٰ نے رزق کی فراوانی اور جو نعمتیں ہم کو عطا کی ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کسی غریب کے دعائوں کا صدقہ ہے ۔۔تو آئیے ! ہم سب ملکر عید کی خوشیاں منائیں ۔ پوری دنیا کی سلامتی کیلئے دُعا کریں ۔ اُمت مسلمہ کی سلامتی اور پاکستان کی سلامتی کیلئے دُعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ گزشتہ عید قرباں کے ایک واقعہ کا ذکر کروں گا ایک دوست کے ساتھ ملتان کے نواحی علاقے مظفر آباد جانے کا اتفاق ہوا ، میرا دوست ایک غریب کے گھر گیا، اُسے کہا کہ گھر میں کام کرنے والا بچہ کام چھوڑ گیا ہے اپنے فلاں بچے کو میرے ساتھ بھیجو کہ وہ پہلے بھی کام کرتا رہا ہے، غریب آدمی خوشی سے اپنے بچے کو لے آیا اور میرے دوست کو ’’پارت‘‘ دیتے ہوئے کہا کہ یہ میرا نہیں آپ کا بچہ ہے آپ نے اس کا خیال کرنا ہے اور اسے عید پر کپڑوں کا جوڑا بھی لیکر دینا ہے، یہ بات سن کر میرے دوست کی اوپر والی سانس اوپر اور نیچے والی نیچے رہ گئی اور کچھ توقف کے بعد جواب دیا کہ میں یہ وعدہ نہیں کر تا البتہ میں اس کا خیال رکھوں گا، اس سے پہلے جب میں دوست کی گاڑی میں اس کے ساتھ سفر کر رہا تھا تو وہ مجھ سے مشورہ کر رہا تھا کہ میں عید پر اونٹ کی قربانی کروں یا تین چار بکرے لے لوںتو میں نے اُسے کہا کہ قربانی کیلئے ایک بکرا لو اور باقی تین بکروں کی رقم غریبوں میں تقسیم کر دوکہ ان کی بھی عید ہو جائے۔ جب ہم بچے کو لیکر واپس روانہ ہوئے تو میں نے اُسے کہا کہ تم سرمایہ داروں کو غریبوں کی فکر نہیں ، اپنے ڈیپ فریزر بھرنا چاہتے ہو غریب کے پیٹ کا خیال نہیں ۔