حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیاہے۔ پٹرول 5روپے 15پیسے مہنگا ہونے کے بعد 117روپے 83پیسے تک فی لیٹر پہنچ گیا۔ ڈیزل کی نئی قیمت 132روپے 47پیسے مقرر کی گئی جبکہ مٹی کا تیل 5روپے 38پیسے مہنگا ہو گیا ہے ۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ایک سالہ حکمرانی کا تمغہ اعزاز اپنے سینے پر سجا چکے ہیں اگر انہیں دیگر مصروفیات سے ذرا فرصت ملے تو ایک لمحے کے لئے پیچھے مڑ کر ضرور دیکھیں کہ مہنگائی کے ستائے عوام کا کیا حال ہے؟ عوام نے مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی غریب کش پالیسیوں سے تنگ آ کر پی ٹی آئی کو ووٹ دیے تھے، انہیں اس بات کا پختہ یقین تھا کہ عمران خان ان کے معیارِ زندگی کو بلند کریں گے کیونکہ غربت کے خاتمے کے لئے ان کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہے لیکن ایک سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود غریبوں کے خوابوں کو تعبیر نہیں ملی۔ ڈالر دن بدن مہنگا اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ غریب غربت کی چکی میں پستا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم اور ان کے وزراء دبے لفظوں میں مہنگائی کا رونا تو روتے ہیں لیکن عملی طور پر غربت کے خاتمے کے لئے کوئی اقدام نہیں کررہے ۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے اشیاء ضروریہ کی تمام چیزوں کی قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں،چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے سے دکاندار من پسند اضافہ کرتے ہیں جبکہ ٹرانسپورٹرز کرائے بڑھا دیتے ہیں۔ عمران خان سے عوام نے اس لئے امیدیں وابستہ کی تھیں کہ انہوں نے کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل اور پاکستان کا سرمایہ پاکستان میں ہی بروئے کار لانے کے لئے امید کی کرن دکھائی تھی۔ عمران خان نے ایک سال میں کرپشن فری سوسائٹی کے خدوخال تو واضح کر دیے ہیں جبکہ ملکی سرمایہ بھی عوامی فلاح و بہبود پر خرچ ہونا شروع ہو چکا ہے لیکن مہنگائی کے جن پر قابو نہیں پایا جا سکا،جس کے باعث عوام حکومت سے مایوس نظر آتے ہیں۔ 70برس سے عوام بھوک،مہنگائی،غربت اور بے روزگاری کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ حکمرانوں کے وعدے اپنی جگہ پر‘ لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ غریب آدمی کے لئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ حکومت کو خزانہ خالی اورقرضوں کا ورثہ ملا ہے، صرف گزشتہ دس برس میں ہمارا قرض 6 ہزارارب سے بڑھ کر 30ہزار ارب روپے ہو گیا تھا۔ موجودہ حکومت کو پرانے قرضوں پر ایک دن کا 600کروڑ روپے سود ادا کرنا پڑ رہا ہے اگر حکومت اس قدر رقم سود کی مد میں ہی ادا کرے گی تو عوام کو ریلیف کہاں سے دیا جائے گا؟ قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوتا رہا‘ بے روزگاری پھیلتی رہی ‘ روپے کی قیمت گرتی رہی‘ کرپشن بے بہا ہوتی رہی اور سرمایہ دار مملکت خداداد سے ہجرتیں کرتے رہے لیکن ہمارے سابق حکمران صرف اپنی تجوریاں بھرتے رہے۔اس بے ننگ نظام کھیل میں صرف سیاسی پارٹیاں ہی نہیں ہماری بیورو کریسی بھی برابر کی شریک رہی۔گو حکومت ہر روز سابق حکمرانوں کے سیاہ کارناموں سے عوام کو آگاہ کر رہی ہے یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے تاکہ حقائق کھل کر عوام کے سامنے آ سکیں۔ سابق حکومتوں نے صرف اپنی تجوریاں بھری لیکن عوام کے لئے کوئی کام نہیں کیا جس کے باعث آج موجودہ حکومت مشکلات سے دوچار ہے۔ اگر ٹیکس وصولی کا نظام بہتر ہوتا تو آج عوام پر مہنگائی کا بوجھ نہ ہوتا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام کمزور ترین ہے ۔عالمی بنک نے 2006ء میں اپنی رپورٹ میں واضح کیا تھا کہ 128ممالک میں سے پاکستان میں ٹیکس عائد کرنے اور وصول کرنے کی صلاحیت صرف 22ملکوں سے اوپر ہے۔ پاکستان کا موجودہ ٹیکس نظام فرد واحد کی اتھارٹی ‘ غیر منصفانہ اختیارات‘ بدعنوانی اور دیگر نقائص سے بھر پور ہے۔ حکومت کی متعدد کوششوں کے باوجود ایف بی آر ایک شفاف اور کرپشن سے پاک ادارے کے طور پر اپنی حیثیت منوانے میں ناکام رہا ہے ،ماضی کی حکومت نے تمام اشیاء پر جی ایس ٹی نافذ کیا تھا، اس میں ماچس کی ڈبی سے لے کر پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے بلوں تک ہر چیز شامل تھی۔ جی ایس ٹی نے غریب عوام کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل بنا دیا تھا، کیونکہ اس ٹیکس سے براہ راست غریب آدمی متاثر ہوا تھا۔ حکومت مہنگائی پر قابو پانے کے لئے امرا سے ٹیکس وصول کر کے غربا پر خرچ کرے۔ روٹی کپڑا مکان کا حصول اگر آسان ہو گا تو حکومت کے لئے ستے خیراں ہیں، لیکن اگر غریب آدمی اپنے بچوں کا پیٹ نہیں بھر سکے گا تو اس کی نظروں میں حکومت ناکام ہے۔ وزیر اعظم عمران خان ریاست مدینہ کی باتیں کرتے ہیں‘ تو انہیں علم ہونا چاہیے کہ ریاست مدینہ میں امیر اور غریب رات کو پیٹ بھر کر سوتے تھے۔ خلیفہ وقت راتوں کو اٹھ کر گلیوں میں گشت کرتے تھے لیکن یہاں تو غریبوں کے منہ سے نوالہ چھینا جا رہا ہے۔ حکومت کرپٹ عناصر کے خلاف بلا تفریق کارروائی کرے لیکن غریبوں کی مشکلات کم کرنے کے لئے بھی کوئی پالیسیاں لائے۔ عید قربان سے قبل گھی ‘ کوکنگ آئل سمیت تمام اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے غیر فعال ہونے سے عید پر ایک بار پھر عوام کو کند چھری سے ذبح کیا جائے گا۔ ٹرانسپورٹر نے کل سے کرایوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ عید کی چھٹیوں میں جب پردیسی آبائی گھروں کو لوٹیں گے تو ایک بار پھر ان کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جائے گا، اس لئے وزیر اعظم عمران خان کم از کم غریبوں کی مشکلات کم کرنے کے بارے میں سوچیں۔ خدانخواستہ اگر یہ طبقہ گھروں سے باہر نکل آیا تو اسے کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے مہنگائی کنٹرول کرنے کے لئے اس کی بنیادی وجہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کریں۔ ای سی سی نے آٹے پر سبسڈی دے کر روٹی کی قیمتیں کم کرنے کے منصوبے کی منظوری دی ہے جو خوش آئند ہے اسی طرح پٹرولیم مصنوعات پر بھی سبسڈی کی سبیل نکالیں تاکہ غریب طبقہ سکھ کا سانس لے سکے۔