خون میں ڈوبے فلسطینی مسلمانوں کی یہ عید بھی خون میں ڈوبی ہوئی تھی۔ان کی بستیوں پرآتش و آہن برستا رہا ،ان کا سارا وجود زخموں سے چور ہے۔ بچوں اورخواتین کی چیخ وپکارسے زمین شق ہو رہی ہے اورآسمان لرز رہا ہے ۔ہائے افسوس! آزاد اور محکوم و مجبور مسلمانوں کی عید میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے آزاد مسلمان کی عید میں دین و حکومت کی شان و شوکت ہوتی ہے۔ جبکہ غلاموں کی عید کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں ہوتی کہ مسلمانوں کا ہجوم کچھ دیر کے لیے ایک جگہ جمع ہوگیا ہو۔ لیکن بنظرغائردیکھیں آج مسلمان کہیں آزاد نہیں۔کئی عشروں سے لگاتار عید کے موقع پر چشم فلک فلسطین ،کشمیر اورافغانستان میں مسلمانوں کے مذبح خانوں کے مناظر دیکھ رہی ہے ۔ مظلوم مسلمان جس صورتحال سے دوچارہیں، مسلم ممالک کے حکمرانوں کی قومی و ملی غیرت جگانے کیلئے اس میں دعوت فکر و شعور کا وافر سامان بھی موجود تھا۔لیکن افسوس کہ ہم مسلسل دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ ان کی دینی غیرت جاگ نہ سکی۔ مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر دو ایسے مسائل ہیں جن کی سنگینی سے جان بوجھ کر توجہ ہٹائی جاتی ہے یہ صرف اس لئے کہ دونوں خطوں میں محکوم و مجبور عوام چونکہ مسلمان ہیں اس لئے تمام تر استحقاق کے باوجود عالمی طاقتیں بے مہری اور منافقت کی شکار ہیں۔ دونوں کے جائز اور پیدائشی حق آزادی کو دبانے والے ممالک اسرائیل اور بھارت اس وقت عالمی استعمار امریکہ کی چھتری کے نیچے سر جوڑ کر سازشوں میں مصروف ہیں۔ اس طاغوتی اور شیطانی تکون کی سازشوں کا اہم ہدف مسلمان ہیں اسی لئے چاردانگ عالم وہ قتل ہورہے ہیں ۔ بد قسمتی سے عالمی سیاسی قوتیں بھی اسلام کو چونکہ ایک خطرے کے طور پر دیکھ رہی ہیں اس لئے کسی ایسے معاملے میں اخلاص اور وفاداری برتنے سے گریز کرتی ہیں جس میں مسلمانوں کو تقویت مل رہی ہو اور فلسطین اور کشمیر اسی عالمی سرد مہری کا شکار ہے۔ انسانی خون کی ندیاں رواں ہیں اور پیدائشی حق کیلئے برسر مطالبہ فلسطینی اورکشمیری عوام پر بالترتیب اسرائیلی اوربھارتی مسلح افواج دن دیہاڑے مظالم کے پہاڑ گراتی ہیںاور خواتین، بچوں اور بوڑھوں سمیت سب کو نہایت بے رحمی کے ساتھ گولیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مگر کسی کا ضمیر جاگتا ہے اورنہ ہی کسی کے کان پر جوں رینگتی ہے۔ ہر طرف خاموشی چھا جائے اور کسی عالمی فورم پر اس مسئلے کی بازگشت سنائی نہ دے۔تواس کالامحالہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بھارت اوراسرائیل کو مزیدشہہ ملتی ہے کہ وہ جس طرح چاہیں کشمیری اورفلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کریں۔ ایسے میں فلسطینی اورکشمیری مسلمانوں نے عید اس بے چارگی کے عالم میں منائی کہ ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ ے جارہے تھے اور ان کاخون بے دریغ بہایا جا رہا تھا۔ فلسطین میںیہودی اورکشمیرمیں ہنودی فوجیں علمبرداران توحیدکے قتل عام کرنے میں مصروف رہیں ۔یہ بات الم نشرح ہے کہ امریکہ کی مکمل تائید وحمایت پر دونوںجنونی حکومتوں کی قاتل اور سفاک فوجیں دو مسلمان آبادیوں میں عرصہ سے قتل عام جاری رکھے ہوئی ہیں ۔اسی کا شاخسانہ ہے کہ فلسطین میں یہودکی ننگی بربریت، کشمیر میں ہنود کے ظلم و ستم اور کھلی سفاکیت پر دنیائے کفر ان کا درپردہ ساتھ دے رہی ہے ۔ عرب حکمران تو ایمان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں اورشراب وشباب کے وہ دلداہ بنے ہوئے ہیں۔وہ تو ڈالرکے پجاری ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ عجم کے مسلما ن ممالک پر مسلط امریکہ کے پٹھو حکمران محض اپنااقتداربچانے کے لئے اغیارکی خوشنودی بجالانے میں مصروف ہیں۔مسلمان ممالک کے حکمرانوں کے اس شرمناک طرزعمل کی وجہ سے چاردانگ عالم مسلمانوں پر زمین تنگ ہوچکی ہے ۔ شکوہ مومنین توبڑی چیزہے۔شکوہ ملک جس چیزکانام ہے وہ ہرقسم کے خارجی وداخلی اثرات سے آزاد اورپاک ملکی پالیسی ہے ۔داخلی اطمینان اور سرحدوں کی قوت وشوکت ہے ،دوسرے ممالک میں عزت ومنزلت کامقام ہے ، قوموں کی برادری میں سربلندی ہے،افرادِ قوم کااطمینان معاشی ومعاشرتی خوشحالی ہے لیکن خوردبین لگا کربھی آپ کویہ اوصاف کسی مسلمان ممالک میں نہیں ملتے بلکہ مسلمان مملکتیں اپنے اندر کئی گروہوں میں بٹ کرایک دوسرے کے خلاف سردجنگ اور پراکسی لڑرہی ہیں اوراپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کے گلے کاٹنے میں مصروف ہیں ۔ اغیاراس بات پرخوش ہیں کہ ہزاروں میل دور بیٹھ کر وہ ان پرحکومت کررہے ہیں۔اگردنیاوی دولت سے اللہ نے کچھ اسلامی ممالک کومالامال فرمایا ہے توان کی دولت سے فائدہ بھی اغیار اٹھا رہے ہیں، ان مسلمانوں کے خزائن اغیارکے تصرف میں ہیں اوراسی سرمائے سے مسلمان ممالک کواسلحہ تیارکرکے فروخت محض اس لئے کیا جاتا ہے کہ اس کا تجربہ بھی دوسرے مسلمان ممالک کی آبادی پرکیا جا سکے۔ ؎پھر شکوہ دیں یہ ہے کہ اللہ جس کے حاکم ہونے کااقرار ہم سب کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ اسی کا حکم اورقانون چلے اورجس کو آقا مانا ہے، اس سے انحراف نہ ہو۔لیکن یہ عجیب مذاق ہے کہ ان الحکم للہ اسی کے حکم کی ذرہ بھر پرواہ نہ ہو۔ ادھرہرطرف دین کے نشانات مٹ رہے ہوں ادھررقص وسرورکی مجالس سج رہی ہوں، گانا بجانا کلچر کے نام پر روا ہو،شراب کی کھلی اجازت ہو، چوری چکاری ،بدعنوانی ، رشوت خوری موجود ہو ، رزقِ حلال کاحصول ناممکن کر دیا ہو ، جوبچاکھچا دین قوم میں صدیوں کے انحطاط کے باوجود باقی چلا آ رہا ہو اس کا بھی صفایا کیا جا رہا ہو،قوم باربارپکارے کہ ہمیں دین کی حکمرانی اوراسلام کاقانون چاہئے ،اسی کے خلاف ساری قوت اورطاقت استعمال ہو رہی ہو۔ برسوں کا سفر زندگی مکہ مدینہ کی سمت چھوڑ کر کسی اورہی سمت کیاجا رہا ہوتووہاں شکوہ دین کہاں سے آئے گا؟ پھر جب نہ شکوہ ملک ہونہ شکوہ دین تو پھر آزادبندہ مومن کہاں ملے گا؟ اوریہی وجہ ہے کہ عید کا دن ہجوم ِ مومنین کے سوا کچھ نہیں۔ ہاں البتہ اگرہم عید کی حقیقی خوشیوں کاحصول چاہتے ہیں تو یہ بہترین موقع ہے کہ 57 مسلمان ممالک اپنی آزادی کویقینی بنائیںعالم کفرکے سامنے سیسیہ پلائی ہوئی دیواربن جائیں ۔ اپنے ہی اہل وطن کا قتل عام بندکرکے اپنے عوام سے مذاکرات اور گفتگوکے ذریعے خلیج کو پاٹنے کی مستقل سبیل کریں اورانہیں گلے سے لگائیںپھربیک آواز کشمیر اور فلسطین کی آزادی کا بیڑہ اٹھائیں ۔یہ امر واضح ہے کہ مسلم قوم کی عید تب ہوتی ہے جب ان کا ملک با وقار ہو، انکے اپنے عوام ان کے تمام شرورسے محفوظ ہوں اور دین سر بلند ہو۔ آج مسلم ممالک پرمسلط حکمرانوںکا اپنے عوام اور اپنے دین کے ساتھ کیا معاملہ ہے اور ہماری حالت کیا سے کیاہوئی ہے؟ اس لئے ہماری اصل عید تو اس دن ہوگی جب چاردانگ عالم مسلمان کو حقیقی آزادی حاصل ہوگی، خود مختاری کا دوردورہ ہوگا ، دین سر بلند ہوگا، اور کرہ ارض پر ہم اپنے دین کے نفاذ اور سر بلندی کے لیے سرگرم عمل ہوں گے۔ اس لیے کہ غلاموں اور مجبوروں کی عید بھی کیا عید ہوتی ہے؟ عید کا تعلق بنیادی اور اصولی طور پر عبادت کے ساتھ مربوط ہے۔ عید الفطر نزول قرآن اور رمضان کی یاد گار ہے اور عیدالاضحی ایثار و قربانی، سرفروشی و جان نثاری سے عبارت ہے۔ دونوں عیدوں کا آغاز، تعلق با للہ اور بندگی رب سے ہوتا ہے۔ رمضان میں روزہ، تراویح، تلاوت، اعتکاف اور زکو اۃ کے ذریعہ حقوق اللہ اور حقوق العبادکی ادائیگی کے بعد عید الفطر اس امر کی ضمانت دیتی ہے کہ اللہ کے بندوں کو یقین و ایمان کی تازگی کے ساتھ قرب الٰہی نصیب ہوتا ہے۔ زندگی میں صرف مسرت و شادمانی کے لمحات آتے ہیں یا صرف عبادات کے مواقع ملتے ہیں لیکن عید کا معاملہ دوسرا ہے کہ عید میں عبادت و مسرت ، لذت کام و دہن کے ساتھ روحانی بالیدگی اور قوت و طاقت بھی میسر ہوجاتی ہے۔ عید میں اگر صرف لذت جسمانی اور لطف اور مسرت اور خوشی شادمانی کا معاملہ ہوتا اور اس کے ساتھ جذبہ ایمانی اور نشاط روحانی کو شامل نہ کیا گیا جاتا تو اس صورت میں عیدکی نوعیت بس ایک باطل تہوار جیسی ہی ہوتی، جس کے ذریعہ محض مادی تقاضے پورے کیے جاتے ۔ عید میں بنیادی اہمیت چونکہ عبادت اور فکر آخرت کو حاصل ہے ۔ اس لیے عید کو ایک عظیم الشان اور ناقابل فراموش یاد گار کے ساتھ جوڑ دیا گیا کہ بستیوں سے نکل کرعیدگاہوں اور میدانوں میں نمازعیداداکی جائے۔ اس کی شان و شوکت اوراسکی عظمت کودوبالاکرنے کے لئے عید پر زکوٰۃ،صدقات اورخیرات بالالفاظ دیگر دامے، درمے ،قدمے، سخنے اپنا کردار ادا کیا جائے تاکہ امت کی اخوت کوچارچاندلگ جائیں۔