اینکر کا سوال ایک ہی تھا۔ اس نے ویرانے میں شامی مہاجر کیمپ میں موجود پہلی بچی سے پوچھا۔ پیاری بیٹی عید پر تمہاری کیا خواہش ہو گی۔ پانچ چھ برس کی حیران پریشان بچی نے بلاتاخیر جواب دیا کہ میری خواہش ہے کہ میرے بابا عید پر آئیں اینکر نے مزید پوچھا: این بابا؟(تمہارا بابا کہاں ہے) بابا مات ننھے منے ہاتھوں سے آٹا گوندھتی دوسری بچی سے شامی اینکر نے پوچھا کہ عید پر تمہاری کیا خواہش ہو گی؟ بچی نے کہا میری خواہش تو یہ ہے کہ کاش ہمیں ایک خیمہ مل جائے کہ جس میں ہم گولے برساتے بمبار جہازوں سے محفوظ ہو جائیں۔ تیسرے یتیم بچے کا جواب تھا کہ عید پر بابا آئیں اور میرے لئے بہت سارے کھلونے لائیں۔ بھائی عبدالوحید چودھری نے آٹھ نو شامی بچوں کی ویڈیو بھیج کردل کی دنیا کو تہ و بالا کر دیا۔ ہر بچے کا چہرہ گرد آلود تھا مگر اس گرد کے پیچھے سے کملایا ہوا پھول اور دھندلایا ہوا چاند جھانک رہا تھا ہر بچے کا جواب رلانے والا تھا۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ سرکار مدینہ محمد مصطفی ﷺ یاد آئے۔ مشہور روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ عید کے دن گھر سے مسجد کی طرف تشریف لانے لگے تو راستے میں آپؐ نے کچھ بچوں کو اچھے اچھے کپڑے پہنے دیکھا،بچوں نے سرکارؐ کو سلام عرض کیا آپؐ نے شفقت کے ساتھ بچوں کے سلام کا جواب دیا۔ آپؐ تھوڑا آگے گئے تو ایک بچے کو خاموشی کے ساتھ اداس بیٹھے ہوئے دیکھا۔ یہ دیکھ کر جناب مصطفیؐ رک گئے آپؐ نے بچے سے پوچھا تمہیں کیا ہوا ہے؟ تم کیوں اداس و پریشان نظر آ رہے ہو؟ بچے نے رو کر کہا اے اللہ کے محبوبؐ میں یتیم ہوں۔ میرے سر پر باپ کا سایہ نہیں جو میرے لئے نئے کپڑے لے کر آتا اور میری امی مجھے نہلا کر کپڑے پہنا دیتی۔ سرکار دو عالم ؐ کے قدم مبارک آگے بڑھنے کے بجائے وہیں رک گئے آپؐ نے فرمایا کہ تم میرے ساتھ آئو آپؐ اسے لے کر واپس گھر تشریف لائے اورسیدہ عائشہ صدیقہؓ سے فرمایا ۔حمیرا! انہوں نے عرض کیا لبیک یارسول اللہ ؐ آپؐ نے فرمایا تم اس بچے کو نہلا دو چنانچہ اسے نہلا دیا گیا۔ اتنے میں اللہ کے رسولؐ نے اپنی چادر کے دو ٹکڑے کئے۔ کپڑے کا ایک ٹکڑا اسے تہبند کے طور پر باندھا دیا گیا دوسرا اس کے بدن پر لپیٹ دیا گیا۔ پھر اس کے سر پر تیل لگا کر کنگھی کی گئی۔ جب وہ بچہ تیار ہو کر نبی کریمؐ کے ساتھ چلنے لگا تو آپؐ نیچے بیٹھ گئے اور اس بچے کو فرمایا کہ آج تو پیدل چل کر نہیں بلکہ مسجد کی طرف میرے کندھوں پر سوار ہو کر جائے گا اللہ اللہ یتیم بچے کا مقام اسی حالت میں جب آپؐ اسی گلی سے گزرے جہاں خوش و خرم بچے کھیل رہے تھے تو بچوں نے جب یہ منظر دیکھا تو رو کر کہنے لگے کہ کاش آج ہم بھی یتیم ہوتے اور ہمیں نبی کریمؐ کے کندھوں پر سوار ہونے کا شرف نصیب ہوتا۔ نبی کریمؐ مسجدمیں منبر پر بیٹھ گئے تو وہ بچہ نیچے بیٹھنے لگا تو آپؐ نے فرمایا کہ تم زمین پر نہیں بلکہ میرے ساتھ منبر پر بیٹھو گے۔ بچہ آپؐ کے ساتھ منبر پر بیٹھ گیا تو پھر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر ارشاد فرمایا کہ جو شخص یتیم کی کفالت کرے گا اور محبت و شفقت کے ساتھ اس کے سر پر ہاتھ پھیرے گا تو اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بھی بال آئیں گے تو اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں اتنی ہی نیکیاں لکھ دے گا۔ قرآن و حدیث میں کفالت یتیم اور یتیم بچوں کے مال کی حفاظت کرنے اور اس میں کسی قسم کی خیانت نہ کرنے کی زبردست تلقین کی گئی ہے۔ دو تین سال پہلے سینٹ میں پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں یتیم بچوںکی تعداد 42لاکھ ہے سینٹ میں 2016ء میں یہ قانون تو منظور کر لیا گیا تھا کہ 14برس سے کم عمر یتیم بچوں کی کفالت کی ذمہ داری حکومت پر ہو گی۔ اگرچہ اس قانون پر نفاذ تو کہیں دیکھنے میں نہیں آیا مگر پاکستان میں کئی برسوں سے بعض نجی ادارے اور تنظیمیں کفالت یتیم کے سلسلے میں نہایت قابل رشک خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان تنظیموں میں الخدمت سرفہرست ہے۔ آغوش الخدمت کے نام سے اس وقت پاکستان میں یتیم بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لئے گیارہ شہروں میں اعلیٰ معیار کی رہائش گاہیں اور تعلیم گاہیں قائم کی گئی ہیں۔ ان شہروں میں کراچی اسلام آباد‘ پشاور‘ شیخو پورہ اور گوجرانوالہ وغیرہ شامل ہیں۔ جہاں ہزاروں یتیم بچے زیر کفالت ہیں۔ کفالت یتیم کا جو بھی ادارہ فرمان مصطفی ؐ کی تعمیل میں یہ خدمت انجام دے گا تو اس کا پہلا سلوگن شفقت و محبت ہونا چاہیے۔ ہم نے آغوش الخدمت کے بارے میں میاں محمد خالد جیسے ثقہ رادیوں سے یہی سنا ہے کہ وہاں کے ہر ٹیچر اور مربی کو یہی تربیت دی جاتی ہے کہ وہ یتیم بچوں کے لئے سراپا شفقت و محبت ہو جائیں۔ جب زمرد خان بیت المال کے چیئرمین تھے تو اللہ نے انہیں یتیموں کے لئے معیاری ادارے قائم کرنے کی توفیق دی۔ سرگودھا میں پاکستان سویٹ ہوم کے نام سے ایک معیاری ہی نہیں مثالی ادارہ قائم ہے مجھے یہاں کئی بار بنفس نفیس جانے ‘ یتیم بچوں کے کمروں ان کے ڈائننگ رومز اور ان کی روزمرہ زندگی کا معمول دیکھنے کا اتفاق ہوا سرگودھا کے سویٹ ہوم میں اس وقت تقریباً سو بچے ہیں۔ یہ ادارہ قائم تو بیت المال نے کیا تھا مگر اب اس کے تقریباً ماہانہ دس لاکھ کے خرچ کا 90فیصد بوجھ سرگودھا کے دو تین اہل خیر بصد خوشی برداشت کرتے ہیں۔ علاقے کے انتہائی معزز خاندان سے تعلق رکھنے والی واجب الاحترام خاتون مریم عبدالقادر خان اور ان کے میاں ادارے کے انتظامات نہایت خوش اسلوبی سے چلا رہے ہیں۔ بچے شہر کے ایک مشہور انگلش میڈیم ثنائی سکول میں خوش حال خاندانوں کے بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں ثنائی سکول بھی پاکستان سویٹ ہوم کے ساتھ فراخدلی کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔ سویٹ ہوم میں بچوں کی دینی اخلاقی اور تہذیبی تربیت کا بھی نہایت عمدہ نظام قائم ہے۔ آغوش الخدمت ہو یا پاکستان سویٹ ہوم یا ایس او ایس ویلج وغیرہ یہ محض چند ہزار یتیم بچوں کی ہی کفالت کا فریضہ انجام دے پاتے جبکہ ضرورت اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اہل خیر کے لئے صلائے عام ہے۔ خود ہمت کریں یا پھر آغوش الخدمت جیسے اداروں کے ساتھ فراخ دلی کے ساتھ بھر پور تعاون کریں۔ شام کے یتیم و بے آسرا معصوم ننھے منے بچوں کی ویڈیو نے بہت تڑپایا اور بہت کچھ یاد دلایا کہ جسے ہم بھولے ہوئے تھے ۔ ویڈیو میں دوت ین بچوں نے کہا کہ عید پر ہماری سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ ہم اپنے پرامن دیہاتوں کو لوٹ جائیں۔ ہم جب برسوں پہلے شام کی سیاحت کے لئے گئے تھے تو ہم نے بچشم خود دیکھا کہ سبز پوش دمشق شہر کے باغات پھلوں سے لدھے ہوئے‘ عمارات آراستہ و پیراستہ اور حسین مکانات شہر کے حسن کو چار چاند لگا رہے تھے۔ مگر اب سارا شام ہی کھنڈر بنا ہوا ہے۔یتیم و بے سہارا شامی بچوں کی ویڈیو دیکھ کر دل تو چاہتا تھا کہ اڑ کر شام جائیں اور ان بچوں کے ساتھ عید منائیں مگر بوجوہ تباہ حال شام جانا ممکن نہیں۔ تاہم یہاں پاکستان میں تو یتیم بچوں کے سروں پر دست شفقت رکھا جا سکتا ہے۔ مجھے بہت افسوس ہے کہ مجھے یہ خیال تاخیر سے کیوں آیا۔ اگر اوائل رمضان میں یہ خواہش اجاگر ہوتی تو ہم اپنے قارئین کے ساتھ مل کر اسے ٹاپ ٹرینڈ بناتے ’’عید کی خوشیاں یتیم کے ساتھ‘‘ تاہم ایسی بھی تاخیر نہیں ہوئی ہمیں اپنے گردو پیش موجود یتیم بچوں کو ایسے ہی گھروں میں مدعو کرنا چاہیے جیسے ہمارے بچے اپنی سالگرہ پر اپنے خوش حال دوستوں کو دعوت دے کر بلاتے ہیں۔ یتیم کے ساتھ عید کی سنت کو ہم جتنا عام کریں گے اتنا ہی قرب مصطفی ؐ کے زیادہ مستحق ٹھہریں گے۔