عید مسلمانوں کا مذہبی تہوار ہے مگر اپنے اپنے علاقوں کی نسبت سے اس میں ثقافتی رنگ بھی شامل ہو جاتے ہیں اگر میں اپنے وسیب کی بات کروں تو اپنے گائوں میں بچپن سے یہ دیکھتے آ رہے ہیں کہ عید کا انتظار پہلے روزے سے شروع ہو جاتا ہے۔ آخری روزے کے دن چاند دیکھنے کے لیے بڑوں سے زیادہ چھوٹے شام کو نظریں جمائے نظر آتے ہیں۔ چاند نظر آ نے پر مبارکباد کی آوا زوں کے ساتھ شکرانے کی دعا ہوتی ہے ۔صبح سیویاں پکتی ہیں اور عزیز رشتے دار ایک دوسرے کے گھروں میں سیویاں بھیجتے ہیں ، نئے کپڑوں کے ساتھ مرد حضرات عیدگاہ پہنچ جاتے ہیں۔ نماز عید کے بعد پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ سال کے دوران جس گھر میں فوتگی ہوئی ہوسب اس کے گھر جاتے ہیں اور پہلی عید کے موقع پر لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں ۔واپسی پر گھروں میں مختلف قسم کے طعام پک جاتے ہیں اور اکثر تو اکٹھے کھانا کھاتے ہیں ، بچیاں گڈی گڈا کا کھیل رچاتی ہیں ۔جب تاش اور لڈو نہیں آئی تھی تو ہمارے گائوں کے نوجوان اپنے دیسی کھیل کھیلتے تھے ، آج کل دھریجہ نگر میں عید گرینڈ فیملی شو ہوتا ہے جس میں مشاعرہ، موسیقی اور ذہنی آزمائش کے مقابلے ہوتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ تغیر کے سوا کسی چیز کو ثبات نہیں اسی طرح وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ رسم و رواج ہی تبدیل ہوتے ر ہتے ہیں مگر عید کی خوشی اور مہرو محبت کا جو پیغام صدیوں پہلے تھا آج بھی ہے۔ روٹھوں کو منانا بھی عید کے تہوار کا حصہ ہے۔ اگر ہم تاریخ پر غور کریں تو قبل از اسلام عرب کے لوگ سال میں خوشی کے دو تہوار مناتے تھے ، ان میں سے ایک کا نام ’’ عکاظ ‘‘ اور دوسرے کا نام ’’ محنہ ‘‘ تھا۔ یہ تہوار ایک میلے کی شکل میں ہوتے تھے اور عرب ثقافت میں ان کا بھرپور اظہار ہوتا تھا ۔ سرکار دو عالم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپﷺ نے پوچھا خوشی کے ان دنوں میں آپ کیا کرتے ہیں تو عرض کیا گیا ہم کھیلتے ہیں، کودتے ہیں ‘نئے کپڑے پہنتے ہیں اور کھانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ان دونوں دنوں کے بدلے دو عیدین دی جاتی ہیں۔ چنانچہ ۲ھ سے عید الفطر کا آغاز ہوا۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ سرکار مدینہؐ نے اہل مدینہ کی ثقافتی تفریح کا نہ صرف خیال رکھا ، بلکہ اس سے کہیں بہتر اسلامی ثقافتی تہوار دیئے اور اس بات کاخصوصی اہتمام فرمایا کہ یتیم مسکین اور غریب بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہوں ۔ بزرگ کہتے ہیں کہ عید پر پانچ چیزوں کا اہتمام ضروری ہے ۔نہا دھو کر صاف ستھرا لباس پہننا، گھر میں اچھا طعام پکانا، خوشبو لگانا، معانقہ کرنا اور مسکراہٹیں بکھیرنا، بزرگوں اور غمزدہ لوگوں کے پاس خود چل کر جانا۔ آج بھی وسیب کی سندھ اور بلوچستان کی تہذیبی ، ثقافتی ،جغرافیائی اور تاریخی سانجھ موجود ہے ۔ عید جو خوشیوں کا نام ہے ، خوشبوؤں کا نام ہے ، آرزوؤں اور تمناؤں کا نام ہے۔ ایک دوسرے سے ملنے اور ایک دوسرے سے محبت کا نام ہے تو ضروری ہے کہ حکومت غمزدوں کو خوشیوں میں شریک کرے ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ عید کے بہت سے فرائض اور لوازمات ہیں ، صرف نئے کپڑے پہننے کا نام عید نہیں۔ ’’ بچے جیتے رہو ‘‘ جیسے میٹھے بول سے ہم غریب کے بچے کو عید کی خوشیوں میں شریک کر سکتے ہیں ۔ غریب اور پڑوسی ، بے سہارا، نادار اور یتیم ہمسائے کا ہم خیال رکھیں تو عید کی خوشی حقیقی خوشی ہو سکتی ہے اور ہر ضرورت مند کو ہر پل خیال رکھیں تو ہر پل عید کا پل ہو سکتا ہے ۔ دکھاوے اور رسمی رکھ رکھاؤ کی نہیں عید پر عملی اقدامات کی ضرورت ہے ، کیا اس طرف توجہ ہو گی ؟ یہ بھی تو سچ ہے کہ عید خوشی کے دن کا نام ہے ، حقیقی خوشی تب ہوتی ہے جب خوشحالی ہو گی مگر ہمارے ملک کی بہت بڑی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ غربت کے خاتمے کے بغیر صرف نام کی تصور ہو گی۔ روٹھے ہووں کو منانا بھی عید کا نام ہے ۔عید الفطر کو میٹھی عید کہا جاتا ہے ‘ سندھی سرائیکی ‘ پنجابی‘ پوٹھوہاری ‘براہوی‘ کشمیری اردو اور دوسری پاکستانی زبانوں میں بھی عید الفطر کو میٹھی اور ’’سیویوں‘‘ والی عیدکہا جاتا ہے ۔ملائشیا میں ہری بار یعنی خوشی کا دن‘ انڈونیشیامیں ’’رنگ پائو‘‘ یعنی بالاں دی عید‘عرب ملکوں میں عید پر میٹھے پکوان شوق سے پکائے جاتے ہیں اور عیدڈش کو ’’کلائجہ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ پاکستانی زبانوں کی طرح چینی اور ترک مسلمان بھی عید الفطر کو ’’شکرم بیرم‘‘ کا نام دیتے ہیں ۔ اب گڑ کا زمانہ نہیں رہا میٹھی ڈش چینی سے تیار کی جاتی ہے ۔ امراء کیلئے ہر دن روز عید ہے ‘ غریب آج بھی غریب تر اور امیر آج بھی امیر تر ہو رہاہے ‘ خوراک کے گودام بھرے ہیں مگر غریب کا پیٹ خالی ہے ‘ پوری دنیا میں رائج طبقاتی سسٹم نے کائنات کے امن و سکون کو برباد کر کے رکھ دیا ہے ‘ سندھی کے عظیم شاعر شاہ عبد الطیف بھٹائی سئیں کا ایک شعر اس طرح ہے کہ ’’بکھ بچھڑو ٹول‘ دانا نہ دانا کرے‘‘ یعنی بھوک ایسا ظالم لشکر ہے جو سمجھدار کو پاگل بنا دیتا ہے ۔ بھوک کی وجہ سے ہمارے ہاں چور ڈاکو سے بڑھ کر دہشت گرد پیدا ہو رہے ہیں ‘ اور بھوک سے خود کشیاں تو اپنی جگہ رہیں لوگ خود کشوں کے پاس جا رہے ہیں ‘ اس تمام صورت حال کے ذمہ دار امریکہ یورپ اور ہمارے ملک کے لٹیرے گروہ بھی ہیں جو بدامنی اور دہشت گردی کے خلاف جہاد کر رہے ہیں اور اپنے نا پسندیدہ کرتوتوں سے خود ہی اس کا باعث ہیں ‘ لیکن ہر بڑے ظلم کے بعد ایک انقلاب آتا ہے اور اب جو انقلاب آئے گا اس میں غربت یا غریب میں سے ایک چیز باقی رہے گی ۔ کورونا کے عذاب کے باوجود بازاروں میں شاپنگ کا رش لگا ہوا ہے، اگر امراء شاپنگ کا صرف پانچ فیصد بھی غریبوں کو دیدیتے تو غریبوں کی عید ہو جاتی، کہا جاتا ہے کہ عید خوشی کا نام ہے اور خوشی احساس کا نام ہے۔احساس یہ ہے کہ سرکار آقائے نامدار عید پڑھنے جا رہے ہیں ‘ ایک ہاتھ کی انگلی کو پیارے نواسے حسین اور دوسری کو حسن نے تھاما ہوا ہے ‘ راستے میں میل کچیلے پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس بچہ رو رہاہے ‘ آپ فوراً رُک جاتے ہیں ‘ بچے کو گودمیں لیکر پیار کرتے ہیں ‘ رونے کا ماجراء پوچھتے ہیں ‘ بچہ کپکپاتے ہونٹوں کوجنبش دیکر کہتا ہے میں یتیم ہوں‘ آپ کی آنکھوں میں آنسورواں ہو جاتے ہیں ‘ آپ عید گاہ نہیں جاتے‘ واپس گھر تشریف لاتے ہیں ‘بچے کو نہلاتے ہیں نئے کپڑے پہناتے ہیں ‘ بہت زیادہ پیار کرتے ہیں اور اس وقت تک نماز ادا نہیں فرماتے جب تک رونے والا بچہ مسکرانہ دے۔