عید کا تعلق بنیادی اور اصولی طور پر عبادت کے ساتھ مربوط ہے۔ عیدالفطر نزول قرآن اور رمضان کی یاد گار ہے اور عیدالاضحی ایثار و قربانی، سرفروشی و جان نثاری سے عبارت ہے۔ دونوں عیدوں کا آغاز، تعلق با للہ اور بندگی رب سے ہوتا ہے۔ رمضان میں روزہ، تراویح، تلاوت، اعتکاف اور زکوٰۃکے ذریعہ حقوق اللہ اور حقوق العبادکی ادائیگی کے بعد عید الفطر اس امر کی ضمانت ہے کہ اللہ کے بندوں کو یقین و ایمان کی تازگی کے ساتھ قرب الٰہی نصیب ہوتا ہے۔ زندگی میں صرف مسرت و شادمانی کے لمحات آتے ہیں یا صرف عبادات کے مواقع ملتے ہیں لیکن عید کا معاملہ دوسرا ہے کہ عید میں عبادت و مسرت ، لذت کام و دہن کے ساتھ روحانی بالیدگی اور قوت و طاقت بھی میسر ہوجاتی ہے۔ آزاد اور محکوم و مجبور مسلمانوں کی عید میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے آزاد مسلمان کی عید میں دین و حکومت کی شان و شوکت ہوتی ہے۔ جبکہ غلاموں کی عید کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں ہوتی کہ مسلمانوں کا ہجوم کچھ دیر کے لیے ایک جگہ جمع ہوگیاہو۔ لیکن بنظرغائردیکھیں آج مسلمان کہیں آزادنہیں۔ کئی عشروں سے لگاتار عید کے موقع پر چشم فلک کشمیر، فلسطین، افغانستان، عراق تک برما اور اب شام میںمسلمانوں کے مذبح خانوںکے مناظر دیکھ رہی ہے۔ مظلوم مسلمان جس صورتحال سے دو چار ہیں، مسلم ممالک کے حکمرانوں کی قومی و ملی غیرت جگانے کیلئے اس میں دعوت فکر و شعور کا وافر سامان بھی موجود تھا۔لیکن افسوس کہ ہم مسلسل دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ ان کی دینی غیرت جاگ نہ سکی۔ مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین دو ایسے مسائل ہیں جن کی سنگینی سے جان بوجھ کرتوجہ ہٹائی جاتی ہے یہ صرف اس لئے کہ دونوں خطوں میں محکوم و مجبور عوام چونکہ مسلمان ہیں اس لئے تمام تر استحقاق کے باوجود عالمی طاقتوں کی بے مہری اور منافقت کا شکار ہیں۔ دونوں کے جائز اور پیدائشی حق آزادی کو دبانے والے ممالک اسرائیل اور بھارت اس وقت عالمی استعمار امریکہ کی چھتری کے نیچے سر جوڑ کر سازشوں میں مصروف ہیں۔ اس طاغوتی اور شیطانی تکون کی سازشوں کا اہم ہدف مسلمان ہے اسی لئے چاردانگ عالم وہ قتل ہورہاہے ۔ بدقسمتی سے عالمی سیاسی قوتیں بھی اسلام کو چونکہ ایک خطرے کے طور پر دیکھ رہی ہیں اس لئے کسی ایسے معاملے میں اخلاص اور وفاداری برتنے سے گریز کرتے ہیں جس میں مسلمانوں کو تقویت مل رہی ہواور فلسطین اور کشمیر اسی عالمی سرد مہری کا شکار ہے۔ انسانی خون کی ندیاں رواں ہیں اور پیدائشی حق کیلئے برسرمطالبہ کشمیری اورفلسطینی عوام پربالترتیب بھارت اوراسرائیلی مسلح افواج دن دیہاڑے مظالم کے پہاڑ گراتی ہیںاور خواتین، بچوں اور بوڑھوں سمیت سب کو نہایت بے رحمی کے ساتھ گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مگر کسی کا ضمیر جاگتا ہے اورنہ ہی کسی کے کان پر جوں رینگتی ہے۔ہر طرف خاموشی چھا جائے اور کسی عالمی فورم پر اس مسئلے کی بازگشت سنائی نہ دے۔تواس کالامحالہ نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت اوراسرائیل کوشہہ مل رہی ہے کہ وہ جس طرح چاہیں کشمیری اورفلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کریں۔ ایسے میں کشمیری اور فلسطینی مسلمان عید اس بے چارگی کے عالم میںمنارہے ہیں کہ ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ ے جارہے ہیںاوران کاخون بے دریغ بہایاجارہاہے۔ کشمیرمیں ہنوداور فلسطین میںیہودی فوجیںقتل عام کرنے میں مصروف ہیں۔یہ بات الم نشرح ہے کہ امریکہ کی پروردہ جنونی حکومتوں کی قاتل اورسفاک فوجیں دونوںمسلمان آبادیوں پرمشتمل مقبوضہ خطوں میںعرصہ سے قتل عام جاری رکھے ہوئے ہیں ۔اسی کا شاخسانہ ہے کہ کشمیرمیں بھارت کی ننگی بربریت، فلسطین میںیہودیوں کے ظلم و ستم اور کھلی سفاکیت پر دنیائے کفران کادرپردہ ساتھ دے رہی ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ چاردانگ عالم مسلما ن ممالک پرمسلط پٹھو مسلم حکمران امریکہ کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔محض اغیار کی خوشنودی بجالانے کے لئے مسلمان ممالک کے حکمرانوں کے جارحانہ اقدام کی وجہ سے مسلمان ممالک میں مسلمانوں پرانکی زمین تنگ ہوچکی ہے۔شام ، مصراوربنگلہ دیش اس کی تازہ ترین مثالیں ہیں۔ اگرہم عید کی حقیقی خوشیوں کاحصول چاہتے ہیں تویہ بہترین موقع ہے کہ 57مسلمان ممالک اپنی آزادی کویقینی بنائیںعالم کفرکے سامنے سیسیہ پلائی ہوئی دیواربن جائیں ۔اپنے ہی اہل وطن کاقتل عام بندکرکے اپنے عوام سے مذاکرات اورگفتگوکے ذریعے خلیج کوپاٹنے کی مستقل سبیل کرلیں اورانہیں گلے سے لگائیںپھربیک آوازکشمیراورفلسطین کی آزادی کابیڑہ اٹھائیں ۔یہ امرواضح ہے کہ مسلم قوم کی عید تب ہوتی ہے جب ان کا ملک با وقار ہو، انکے اپنے عوام ان کے تمام شرورسے محفوظ ہوں اور دین سر بلند ہو۔ آج مسلم ممالک پرمسلط حکمرانوںکا اپنے عوام اوراپنے دین کے ساتھ کیا معاملہ ہے اور ہماری حالت کیاسے کیاہوئی ہے؟ اس لئے ہماری اصل عید تو اس دن ہوگی جب چاردانگ عالم مسلمان کو حقیقی آزادی حاصل ہوگی، خود مختاری کادوردورہ ہوگا ، دین سر بلند ہوگا، اور کرہ ارض پرہم اپنے دین کے نفاذ اور سر بلندی کے لیے سرگرم عمل ہوں گے۔ اس لیے کہ غلاموں اور مجبوروں کی عید بھی کیا عید ہوتی ہے؟