عظیم سرور سے میری پہلی ملاقات جون 1969ء کے آخری ہفتے میں ہوئی تھی۔اس زمانے میں پاکستان ٹیلیویژن کے لاہور‘ راولپنڈی‘ اسلام اور کراچی مراکز سے انگریزی اور بنگلہ زبانوں میں پانچ پانچ منٹ کی خبریں اور اردو میں دس منٹ کی خبریں نشر ہوا کرتی تھیں۔مجھے کراچی سنٹر پہ نیوز پروڈیوسر تعینات ہوئے تقریباً دو مہینے ہوئے تھے۔میں اور میرے ساتھی نیوز پروڈیوسر سلطان قمر باری باری ہفتے میں تین دن اردوخبریں اور تین دن انگریزی خبریں پروڈیوس کیا کرتے تھے۔پیر کے دن ٹیلی ویژن کی نشریات ہوتی تھیں۔ جون 1969ء کے وسط میں کراچی مرکز کے جنرل مینجر اسلم اظہر اور نیوز ایڈیٹر برہان الدین حسن نے اس آئیڈیا پر کام شروع کیا کہ دس منٹ کی اردو خبروں کی بجائے بیس منٹ کا خبرنامہ پیش کیا جائے۔بنیادی خیال یہ تھا کہ ایک نیوز اینکر خبرنامے کا میزبان ہو۔ بلیٹن میں شامل نیوز فلموں کی کمنٹری الگ آواز میں ہو۔نیوزکوریج کا دائرہ بڑھایا جائے۔فنون لطیفہ اور شہر کی ثقافتی تقریبات کو بھی کوریج دی جائے اور سماجی مسائل پہ مختصر رپورٹیں بلیٹن کا حصہ ہوں۔خبر نامہ پروڈیوس کرنے کی ذمے داری مجھے سونپی گئی تھی۔خبرنامے ہی کے سلسلے میں عظیم سرور سے میری پہلی ملاقات کراچی سنٹر کے نیوز روم میں ہوئی تھی اور اس ملاقات کا ذریعہ بنے تھے سلطان قمر۔ سلطان قمر اور عظیم سرور کی دوستی برسوں پہلے کوئٹہ میں ہوئی تھی جہاں دونوں ریڈیو کے جز وقتی صدا کار تھے۔عظیم سرور کا آبادئی علاقہ سیالکوٹ تھا اور ان کا خاندان پنجاب سے کوئٹہ منتقل ہوا تھا۔ سلطان قمر اور عظیم سرور دونوں سولہ سترہ سال کی عمر میں کوئٹہ ریڈیو سے منسلک ہوئے۔ چند برس بعد دونوں یکے بعد دیگرے کوئٹہ سے کراچی چلے آئے اور ریڈیو پاکستان میں سٹاف آرٹسٹ مقرر ہو گئے۔سلطان قمر کی تعیناتی ریڈیو کی سنٹرل نیوز آرگنائزیشن میں ہوئی اور انہیں شکیل احمد‘شمیم اعجاز اور انور بہزاد جیسے نیوز ریڈرز کی صف میں شامل ہونے کا موقع ملا۔1967ء میں وہ نیوز پروڈیوسر کی حیثیت سے پاکستان ٹیلی ویژن کے ساتھ وابستہ ہوئے اور 1980ء کی دہائی میں جب وہ سینئر نیوز ایڈیٹر تھے ریٹائرمنٹ لے کر بیرون ملک چلے گئے۔عظیم سرور نے پروگرامز کے شعبے میں قدم جمائے اور تھوڑے ہی عرصے میں انہوں نے اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا اور بتدریج ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے ڈپٹی کنٹرولر کے عہدے تک پہنچے وہ براڈ کاسٹر بھی تھے سکرپٹ رائٹر بھی اور پروگرام پروڈیوسر بھی۔ برسہا برس تک ان تینوں شعبوں میں ان کی کامیابی اور شہرت کا پرچم لہراتا رہا۔ سلطان قمر ‘سعید نقشبندی‘افضل رحمان اور ریڈیو کے کچھ اور احباب چھٹی کے روز جمنے والی محفلوں کی رونق ہوتے تھے۔سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ حشمت حبیب اس دور میں روزنامہ حریت کے رپورٹر تھے اور ایل ایل بی کی تیاری کر رہے تھے۔وہ بھی ان محفلوں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے۔ریڈیو کے یہ دوست اپنی دفتری مصروفیات سے وقت نکال کر تھوڑی تھوڑی دیر کے لئے اس محفل کو رونق بخشتے۔اس دوران عظیم سرور اپنے پروگرام کا سکرپٹ بھی لکھتے رہتے۔یہ نشستیں ریڈیو کی تہذیبی روایت کا تسلسل تھیں۔وہ روایت جس کی داغ بیل پطرس بخاری ‘زیڈ اے بخاری‘ ن۔م راشد‘عزیز حامد مدنی‘مختار صدیقی‘یوسف ظفر‘سلیم گیلانی اور علم و فن اور ادب کی دوسری شخصیات نے ڈالی تھی۔کون سا موضوع تھا جو ایسی محفلوں میں زیر بحث نہ آتا تھا۔ابھی کسی سیاسی مسئلے پہ بات ہو رہی ہے یا کسی عالمی واقعے کا پس منظر اور پیش منظر کھنگالا جا رہا ہے اور ابھی گفتگو کا رخ تاریخ کے کسی عہد کی طرف ہو گیا۔کبھی کسی کتاب کا تذکرہ ہوا اور کبھی کسی شخصیت کے حالات و افکار کا۔ادیبوں اور شاعروں کے قصے بھی ہوتے تھے۔ سیاست دانوں کی کہہ مکرنیاں بھی اور فن کاروں کی رنگین داستانیں بھی۔کوئی مذہبی مسئلہ ہوتا تو عظیم سرور اپنی فقہی بصیرت کے ساتھ اس پہ روشنی ڈالتے اور طریقت کی بات چلتی تو سعید نقشبندی مسائل تصوف کی گرہ کشائی کرتے۔ عظیم سرور روایتی دائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے جماعت اسلامی کے ساتھ ان کی ذہنی وابستگی ان کی باتوں سے جھلکتی تھی انہیں چٹکی بھرنے کے لئے کبھی لبرل سوچ یا بائیں بازو کے رجحان کی کوئی بات کی جاتی تو موصوف جلال میں آ جاتے اور بڑی شد و مد کے ساتھ اپنے نظریات کا دفاع کرتے۔شروع شروع میں عظیم سرور کو میرے بارے میں الجھن سی ہوتی کہ یہ اسلامی عقائد اور روایات کی بات بھی کرتا ہے اور نماز روزے کا بھی کسی حد تک خیال رکھتا ہے تو جماعت اسلامی کی تائید کیوں نہیں کرتا۔دھیرے دھیرے انہیں میرے ذہنی تحفظات کا احساس ہوتا گیا اور پھر انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ بھئی یہ تو عبید اللہ سندھی کا پیرو کار ہے۔یہ بات حقیقت کے قریب بھی تھی اور میرے لئے باعث اعزاز بھی۔ ان محفلوں کی ملاحت وہ لطیفے ہوتے تھے۔جو موقع محل کی مناسبت اور بات سے بات نکالتے ہوئے عظیم سرور، افضل رحمان اور سعید نقشبندی سناتے تھے۔عظیم بھائی کا لطیفہ سنانے کا انداز بڑا ڈرامائی ہوتا تھا وہ آواز کے اتار چڑھائو لہجے کے نشیب و فراز ہاتھوں کی حرکت اور مسکراتی آنکھوں کے اشاروں سے ایک سماں باندھتے جس سے لطیفے کا تاثر گہرا ہو جاتا۔ یہ محفلیں شام گئے تک جاری رہتیں اور پھر ہم لوگ کسی ریستوران میں کھانا کھاتے۔کھانے کے بعد کبھی کبھار عظیم بھائی کی فرمائش ہوتی کہ وکٹوریہ پہ بیٹھنا ہے۔بگھی جیسی اس سواری پہ دو تین دوستوں کے ساتھ وہ صدر سے ریلوے سٹیشن تک ہوا خوری کے لئے جاتے وہ اسے شاہی سواری قرار دیتے۔ اسی دور میں عظیم سرور نے جنگ اخبار میں قصہ مختصر‘ کے عنوان سے کالم بھی لکھنا شروع کیا۔تب انعام درانی کا کالم جنگ کے قارئین بہت پسند کرتے تھے اور حریت میں نصراللہ خاں کا کالم بھی خاصا مقبول تھا۔عظیم سرور کے کالم نے بہت جلد قارئین کے حلقے میں اپنے لئے جگہ بنا لی۔یہ ہلکا پھلکا نیم فکاہیہ کالم تھا جس میں سیاسی واقعات پہ لطیف پیرائے میں تبصرہ ہوتا۔سماجی مسائل پہ طنزو مزاح کا نشتر چلتا اور زبان و بیان کا چٹخارہ بھی ہوتا۔ وہ روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو موضوع سخن بناتے اور قاری کو اپنی تحریر کی روانی میں بہاتے لئے جاتے۔ انیس سو ستر(1970) کے اواخر میں میرا لاہور اور پھر راولپنڈی تبادلہ ہو گیا تو میرے اور عظیم سرور کے باہمی رابطے میں وقتی تعطل آ گیا۔فروری 1974ء میں لاہور میں دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس ہوئی تو ہفتے عشرے تک میرا اور عظیم بھائی کا ساتھ رہا۔ سربراہ کانفرنس کی نیوز کوریج کے لئے پاکستان ٹیلی ویژن کی تین ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں۔پہلی ٹیم کے سربراہ مصلح الدین صاحب تھے دوسری میری ٹیم تھی اور تیسری شمیم الرحمان کی۔ سینئر صحافی شاہد سلیم ان تینوں ٹیموں کیلئے رابطہ کار اور ٹربل شوٹر (Trouble shooter) تھے تاکہ کسی ٹیم کو کہیں مشکل پیش آئے تو وہ اس کی مدد کریں۔اسی طرح ریڈیو کی بھی ٹیمیں تھیں اسلامی ملکوں اور حکومتوں کے سربراہوں کی آمد کی کوریج کے لئے ہم نے اور عظیم سرور نے کئی دن لاہور ایئر پورٹ پر اکٹھے گزارے۔ سربراہوں کی آمد کے علاوہ بعض دوسری تقریبات کی بھی عظیم بھائی نے شانداز انداز میں براہ راست کمنٹری کی جسے سامعین اور ریڈیو کے ارباب اختیار نے بہت سراہا۔ اطہر شاہ خاں اور اکرام غازی کے علاوہ ان نشستوں میں بعض اوقات ممتاز نیوز کاسٹر زبیر الدین بھی شریک ہوتے تھے جو کئی برس پہلے کینیڈا جا بسے ہیں ان محفلوں کا رنگ ڈھنگ بھی وہی ہوتا تھا جو برسوں پہلے ریڈیو پاکستان میں برپا ہونے والی محفلوں کا تھا۔اطہر شاہ خاں خوب چہکتے تھے لیکن بعض اوقات اطہر شاہ خاں کے شوخ اور چنچل فقرے بھی عظیم سرور کے لطیف اور برجستہ جملوں کے آگے پھیکے پڑ جاتے تھے۔ اطہر شاہ خاں پچھلے سال مئی میں انتقال کر گئے تھے اور چند مہینے پہلے اکرام غازی بھی خالق حقیقی سے جا ملے۔ان دونوں کی وفات میرے اور عظیم سرور کے لئے ذاتی صدمہ تھا۔ سکول کے زمانے میں عظیم سرور بھائی پہ بھر پور توجہ دینے کے ساتھ کھیلوں میں بھی حصہ لیا کرتے تھے شاید کھیلوں سے جڑے ایک حادثے یا اس حادثے کے اثرات سے نمٹنے کے علاج میں کسی غلطی کی وجہ سے ان کی ریڑھ کی ہڈی اور گردن کے مہرے متاثر ہوئے تھے لیکن یہ حاثہ نہ تو ان کے عزم اور ہمت پہ کوئی منفی اثر ڈال سکا اور نہ ہی کھیلوں میں ان کی دلچسپی کم ہوئی۔کھیلوں کے ساتھ ان کے لگائو نے پاکستان میں سپورٹس جرنلزم کو ایک نئی جہت دی عظیم سرور نے نہ صرف مختلف کھیلوں کی شاندار کوریج کی بلکہ بہت سے رپورٹروں کو سپورٹس کوریج کی عملی تربیت دی۔ان کی رہنمائی کی اور ان کی صلاحیتوں کو نکھارا اس لحاظ سے عظیم سرور کو اپنی ذات میں ایک ادارے کی حیثیت حاصل تھی۔ ہمارے ہاں پاکستان ٹیلی ویژن میں بعض اوقات نیوز کاسٹر غیر ملکی کھلاڑیوں کے ناموں کی صحیح ادائیگی نہیں کر پاتے تھے تو عظیم سرور کراچی سے فون کر کے غلطی کی نشان دہی کیا کرتے تھے۔جب مجھے ڈائریکٹر نیوز کی ذمے داری سونپی گئی تو میری درخواست پہ انہوں نے ایک جامع فہرست مرتب کر کے بھیجی جس میں ہر غیر ملکی کھلاڑی کے نام کے ہجے اس کے تلفظ کے مطابق درج تھے تاکہ نیوز کاسٹر کو معلوم ہو کہ اس نام کا صوتی آہنگ کیا ہے۔اس کے ساتھ انہوں نے کھلاڑیوں کے ناموں کے صحیح تلفظ کی ریکارڈنگ بھی بھجوائی۔یہ فہرست اور ریکارڈنگ ہمارے نیوز کاسٹرز کے لئے بہت مفید ثابت ہوئی۔ ریڈیو پاکستان میں عظیم سرور نے ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں بھی بھر پور حصہ لیا اور کارکنوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لئے انتھک کوششیں کیں یونین سرگرمیوں یا اپنی سرکاری ذمے داریوں کے سلسلے میں عظیم بھائی راولپنڈی‘ اسلام آباد آتے تو بھی دوستوں کی محفلیں سج جاتیں۔ ان محفلوں میں سعید نقشبندی ریڈیو کے کنٹرولر عبدالقیوم پروڈیوسر محمد ایوب اور معروف براڈ کاسٹر حمید اختر بھی شریک ہوتے۔ میں نے پاکستان کے مختلف لیڈروں کے بہت سے غیر ملکی دوروں کی کوریج کی ہے ‘ لیکن اتفاق ایسا تھا کہ میں اور عظیم سرور کسی غیر ملکی دورے کی کوریج پہ اکیلے نہیں گئے۔ہاں ہمارے سینئر ساتھی محمد رفیق گورایہ اور عظیم بھائی کو وزیر اعظم نواز شریف کے غیر ملکی دورے کی اکٹھے کوریج کرنے کا موقع ملا۔دورے سے واپسی پر میرے دونوں بزرگ دوست ایک دوسرے کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی اپنے اپنے انداز میں تعریف کرتے رہے۔عظیم سرور کے انتقال کی خبر آئی تو رفیق گورایہ صاحب نے اپنے تعزیتی پیغام میں اس دورے کی یاد تازہ کرتے ہوئے وہ شعر لکھا جو اسلام آباد واپسی پر عظیم بھائی نے پڑھا تھا: بے نام دیاروں کا سفر کیسا لگاہے لوٹ کے آئے ہو تو گھر کیسا لگا ہے میرا گمان ہے کہ عظیم سرور کی روح عالم برزخ میں اپنی قیام گاہ پہنچی ہو گی تو فرشتوں نے اسی مصرعے سے اس کا خیر مقدم کیا ہو گا۔لوٹ کے آئے ہو تو گھر کیسا لگا ہے؟ عظیم سرور نہایت مخلص دوست باصلاحیت لکھاری‘تخلیقی ذہن رکھنے والے پروڈیوسر اور منجھے ہوئے براڈ کاسٹر تھے۔اپنے نظریات میں پختہ اور عقائد میں راسخ‘اسلام‘پاکستان اور مشرقی اقدار کے خلاف وہ کوئی بات برداشت نہیں کر سکتے تھے۔اقبال کے الفاظ میں وہ حلقہ یاراں میں بریشم کی طرح نرم تھے اور رزم حق و باطل میں وہ واقعی فولاد تھے۔