پندرہ فروری 2021 اُردو ادب کے ’حیوانِ ظریف‘ نجم الدولہ، استادِ شہِ ہند، جناب میرزا اسداللہ خاں غالب کی 152 ویں برسی ہے… اس وقت میرزا کا تحریر کردہ ایک ایسا معروف قصیدہ میرے سامنے دھرا ہے، جسے پڑھتے ہوئے دھیان کی سواری، شعری اوصاف سے زیادہ غالب کے مالی حالات کے ہم رکاب ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ کسی کو خاطر میں نہ لانے والے حتیٰ کہ اپنے درد تک کو منت کشِ دوا نہ کرنے والے، اس تاجدارِ غزل کو مبالغے کے اس انداز میں پاؤں کیوں پکڑنا پڑے؟ سوچ رہا ہوں کہ اپنے ترک خون اور آباکے سو سالہ پیشۂ سپہ گری پہ اِترانے والے کے کیا حالات ہوئے ہوں گے جب اس نے دل پہ پتھر رکھ کے آخری اور مرے مٹے مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے لیے یہ دعا مانگی ہوگی: ؎ اے شہنشاہِ آسماں اورنگ/اے جہاں دارِ آفتاب آثار تم سلامت رہو ہزار برس/ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار ہاں اسے اگر میرزا نوشہ کی حسِ ظرافت اور چھیڑ چھاڑ کا شاخسانہ سمجھ لیا جائے تو بات کسی حد تک سمجھ میں آتی ہے کیونکہ انیسویں صدی کی کوکھ میں اس جیسا کوئی دوسرا ہنسوڑ پنپ ہی نہیں سکا۔آپ ذرا غور تو کیجیے کہ جس بادشاہ کی حکمرانی اس کی خواب گاہ سے شروع ہو کے شاہی قلعے کی اندرونی دہلیز پہ دم توڑ جاتی ہو، اس کو ’شہنشاہِ آسماں اورنگ‘ اور ’جہاں دارِ آفتاب آثار‘ کہنا مذاق نہیں تو کیا تھا؟ حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ غالب جیسے منھ پھٹ شاعر کو اس کاسہ لیسی اور مغلوبیت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مظلوم ظلِ سبحانی کو اس طرح کے القابات سے تقویت ملتی تھی۔ ’جو چمن خزاں سے اُجڑ گیا‘ والے اقراری و اضطراری غنچے میں تازگی و طراوت کی تھوڑی بہت رمق اس طرح کی خوشامد ہی سے ممکن تھی ۔ حکیم جی فرماتے ہیں کہ آج بھی اگر دودمانِ مغلیہ و شغلیہ کے آخری فرماں رواؤں کا ٹُٹا بھَجا دبدبہ یا طنطنہ ملاحظہ کرنا ہو تو وہ ہمیں تاریخ کی کتابوں میں نہیں اٹھارھویں، انیسویں صدی کے شعرا کے قصیدوں میں ملے گا۔ رہی یہ بات کہ غالب جیسے حقیقت پسند کو اس طرح کی مبالغہ آمیز مدح بلکہ غلو سے مملو ستائش کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کے لیے مذکورہ بالا قصیدے کے یہ شعر بھی دیکھنا ہوں گے : ؎ پیر و مُرشد! اگرچہ مجھ کو نہیں ذوقِ آرائشِ سرو دستار کچھ تو جاڑے میں چاہیے آخر تا نہ دے بادِ زمہریر آزار کیوں نہ درکار ہو مجھے پوشش جسم رکھتا ہوں ، ہے اگرچہ نزار کچھ خریدا نہیں ہے اب کے سال کچھ بنایا نہیں ہے اب کی بار رات کو آگ اور دن کو دھوپ بھاڑ میں جائیں ایسے لَیل و نہار ٭٭٭٭ آگ تاپے کہاں تلک انسان/دھوپ کھاوے کہاں تلک جان دار آپ کا بندہ اور پھروں ننگا؟/آپ کا نوکر اور کھاؤں ادھار؟ میرزا غالب کا یہ قصیدہ آج سے کوئی پونے دو سو سال قبل تصنیف ہوا تھا اور اس وقت اس کا جواز یقیناً غالب کے مخدوش معاشی حالات تھے ۔اس قصیدے کا غالب کو فائدہ ہوا یا نہیں لیکن اس کے مضر اثرات ہماری معاشرت اور سیاست میںبہت دور تک چلے آئے ہیں۔ یہاں مسئلہ بھی معاش نہیں بلکہ بہت سارے بدمعاش ہیں۔ آپ آج وطنِ عزیز کے کسی سیاسی یا دفتری ایوان میں جھانک کے دیکھ لیں، اعلیٰ حکام کی ان کی اوقات سے بڑھ کر تعریف کرنے والے ہر جگہ موجود ہیں۔ مبالغے سے لت پت ستائش کا پورا کلچر وجود رکھتا ہے۔ کہیں منظوم لیپا پوتیوں کی صورت، اور کہیں نثری قصائد یعنی کالموں، تجزیوں اور ٹاک شوز کے روپ میں۔ ہمارے آج کے قصیدہ نگار کرپٹ سے کرپٹ افسر یا سیاست دان کو یہ باور کرنے میں مصروف ہیں کہ آپ جیسا حاکمِ آفتاب آثار نہ اس دھرتی کی آنکھ کو کبھی پہلے دیکھنا نصیب ہوا ہے، اور نہ ایسا فریدون و دارا صفت حاکم آیندہ اس خطے میں طلوع ہوگا۔ ہمارے یہ مغلوب القلم اور مطلوب الرقم قلم پردازان اور زبان درازان… ہر نہلے سے نہلے بزرجمہر کو یہ باور کرانے میں کامران ٹھہرتے ہیں کہ اس ملک یا ادارے کی اگر کوئی خوش بختی ہے تو وہ صرف اور صرف آپ کی ذات والا صفات سے وابستہ ہے۔ آپ دن یا رات کے کسی بھی مرحلے پر ٹی وی کا کوئی بھی چینل آن کر کے دیکھ لیں ہمارے گھاگ ملا دو پیازے اور باگھ بیر بَل،لمحۂ موجود اور سابق کے اکبروں، بہادر شاہوں، محمد شاہ رنگیلوں، نظام سقوں اور تانا شاہوں کو یقین دلاتے ملیں گے کہ اس ملک میں سورج اور چاند آپ کے اشارۂ ابرو کے بغیر طلوع ہونے کی جسارت ہی نہیں کر سکتا۔ شمالی علاقہ جات میں ہونے والی برف میں ٹھنڈک اور سفیدی محض آپ کے دم قدم سے ہے اور آسمان پہ آوارہ خرامی کرتے یہ بادل تو اصل میں آپ سے برسنے کی اجازت طلب کرنے آئے ہیں!! پھر یہ قصیدہ خوانی محض خارجی معاملات تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ موقع شناس اور معاملہ فہم مصاحبین تو حاکموں کی ذات و صفات کی حدود میں ننگے پاؤں داخل ہو کر یہاں تک کہتے پائے گئے ہیں کہ حضور! یہ ابھی ابھی آپ نے جو چھینک ماری ہے، یہ دنیا کی عدیم النظیر اور فقید المثال چھینک ہے۔تاریخ کے ایوانوں میں جھانکیں تو ایسی چھینک پوری زندگی میں محض ایک باریونانی دیوتا الیگزینڈر دی گریٹ کو موجودہ کھیوڑہ کے مقام پر نمک کے آثار بھانپتے ہوئے نصیب ہوئی تھی یا ایلوس پریسلے جیسے عظیم فنکار کو موسم کی سردی اور ہیروئن کی سرد مہری کے سبب دیکھنا پڑی تھی۔ پھر یہ جو آپ کی مسکراہٹ ہے (جس کو حاسدینِ تیرہ باطن اداکار رنگیلا کی خرمستی کے مشابہ قرار دیتے ہیں) یہ تو سیدھی سیدھی مونا لیزا کی مشہورِ زمانہ مسکراہٹ کی چچا زاد بہن ہے، صرف ایک عدد لیونارڈو ڈوِنچی کی کسر ہے!! ہمارے ان گفتار کے غازیوں اور قلم کے کرتب بازوں کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ یہ زعمائے وقت کو ہر دور میں یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ آپ کی طلسمی شخصیت کی سے برکت سے نہ صرف عوام میں بنیادی حقوق کی طلب ختم ہو گئی ہے بلکہ آٹے، چینی، گھی، دال، پٹرول، گیس، بجلی، ادویات اور سبزی، انڈوں کی روز افزوں مہنگائی تو ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکی۔ ایسے میں ہمیں معروف مزاح نگار شفیق الرحمن کا وہ کردار بے طرح یاد آتا ہے، جس نے کچھ گائیں پال رکھی تھیں۔ گائیں سبز چارے کی عادی تھیں۔ برفیلے موسم میں جب سبز چارے کی بجائے محض سوکھی گھاس ہی میسر آ سکی جس کی طرف گایوں کو ذر ا رغبت نہ ہوئی، تو چارہ ساز سبز شیشوں والی عینکیں خرید لائے، جو گایوں کی آنکھوں پر لگا دی گئیں۔ معجزہ تو اس وقت ہوا جب گائیں دیکھتے ہی دیکھتے تمام سُوکھی گھاس چٹ کر گئیں۔ لگتا ہے طویل عرصے سے خوشامد کی وہی سبز عینکیں ہمارے قصیدہ خوانوں کے ہاتھ لگ چکی ہیں، جن کے اندر سے حکامِ وقت کو ہمیشہ ہرا ہی ہرا دکھائی دیتا ہے۔ پروین شاکر نے جنرل ضیا کے زمانے میں جس سیاسی المیے کی طرف اشارہ کیا تھا، وہ آج تک کے ہر حکمران کے ساتھ چلا آیا ہے، شاعرہ نے لکھا تھا: حاکمِ وقت کے اطراف وہ پہرا ہے کہ اب شہر کے غم اُسے موصول نہیں ہو سکتے