آغاز نہ سہی انجام تو رسوائی ہی رسوائی ہے منگل کے سوا بارہ بجے میاں شہباز شریف نیب کے صدر دفتر میں داخل ہوئے۔ تفتیش کے کمرے میں سات افراد ان کے منتظر تھے۔ انہوں نے وہی کیا جس کی توقع تھی۔مطالبہ یہ تھا کہ کیمرہ بند کر دیا جائے۔اس پر ان سے کہا گیا کہ آپ کی پارٹی کے ایک لیڈر ٹی وی پر مباحثے کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔ ’’جی ہاں‘‘انہوں نے کہا ’’ٹی وی پر بحث ہو سکتی ہے‘‘۔ اس پر ان کی خدمت میں عرض کیا گیا لیکن تفتیش ٹی وی پر نہیں ہوتی۔ ناراض ہو کر وہ کمرے سے باہر تشریف لے گئے لیکن فوراً ہی لوٹ آئے۔ ان کے تیور اب قدرے مختلف تھے۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا۔ ماندگی کا غلبہ ہوتا گیاDepressionکا۔ تاتاریوں کے خلاف جہاد میں امام ابن تیمیہؒ رکن الدین بیبرس کے حلیف تھے۔ وسطی ایشیا سے فرار ہو کر عالم عرب کا رخ کرنے والا عامی جو غلام بنا لیا گیا تھا۔ چنگیز خانی لشکر بلادِ شام تک پہنچا تو مصریوں نے غلاموں کا ایک لشکر بھی استوار کیا۔ رفتہ رفتہ رکن الدین ان کا سالار ہو گیا اور بالآخر پوری مصری فوج کا سپہ سالار۔ شمشیرِ بے نیام‘ ابن تیمیہؒ کے علم اور وجاہت کی ہیبت تھی۔ ایک کرشماتی شخصیت۔ خلق کا گرد ہجوم رہتا۔تاریخ کی دس فیصلہ کن جنگوں کے فاتح کو اندیشہ ہوا۔ وہ آدمی پہلی جنگ ہی میں جس نے 30ہزار تاتاریوں کو قتل کر کے ایک لاکھ کے لشکر کو لوٹ جانے پر مجبور کر دیا تھا؛ اگرچہ عالم اسلام کے ایک بڑے حصے پر اب بھی وہ حکمران تھے‘ تاآنکہ ان کے لئے زمانہ سازگار نہ رہا۔ چنگیز خان کا پوتا برکہ خان مسلمان ہو گیا۔ رفتہ رفتہ تمام تاتاری۔ اس پر اقبال نے کہا تھا: ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے ابن تیمیہؒ سے سلطان بیبرس نے سوال کیا :کیا آپ اقتدار کے آرزو مند ہیں؟ چمکتی ہوئی آنکھوں والے امام نے حسنِ بیاں میں‘ جس کا کوئی ثانی نہ تھا‘زمین پر پڑا ہوا ایک تنکا اٹھایا اور یہ کہا : خدا کی قسم تمہاری اور تاتاریوں کی، دونوں کی سلطنت میرے لئے اس تنکے سے بھی کم تر ہے۔ اقتدار اور دولت کی پاگل کر دینے والی ہوس، رسوائی اور پشیمانی کے سوا آخر کار کیا لاتی ہے؟شیبانی خان کے ہاتھوں دوسری بار شکست کھا کر، ایک گائوں میں پناہ پانے والے بابر نے ایک بار کہا تھا زندگی تو فقیروں اور شاعروں کی ہوتی ہے، بادشاہی میں کیا رکھا ہے؟ ہاں!مگر آدمی کا مقدر۔ پے درپے ناکامیوں نے بابر کو وہ حقیقت پسندی عطا کی کہ دائم تاریخ میں اس کا ذکر ہوتا رہے گا۔ امیر المومنین ہارون الرشید سے امام ابو یوسفؒ نے سوال کیا:صحرا کے سفرمیں پانی ختم ہو جائے تو ایک پیالے کا سودا کتنے میں آپ کریں گے؟بولا: آدھی سلطنت ’’خدانخواستہ اگر ایسا ہو کہ پانی کا یہ پیالہ جسم میں ٹھہر جائے اور خارج نہ ہو سکے تو؟’’جواب ملا اس کے لئے باقی آدھی سلطنت‘‘ ’’تو آپ کی اس عظیم الشان سلطنت کی قیمت ایک پیالہ پانی کے برابر ہے‘‘۔ متلون مزاج حکمران کو مکھی نے تنگ کیا تو امامؒ سے اس نے کہا: خدا نے اس مخلوق کو کس لئے پیدا کیا؟’’سلاطین کو زچ کرنے کے لئے‘‘آپ نے کہا۔ یزید ان دونوں سے زیادہ سیانا تھا۔ ابن رسول امام حسین علیہ السلام کا قاتل یزید نہیں بلکہ اس کا پوتا۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پھر اسے خیر باد کہہ دیا۔ اور پانچویں خلیفۂ راشد عمر بن عبدالعزیز؟، حکومت سنبھالنے کے بعد پہلی ہی ساعت میں عملاً اپنے اختیارات سے دستبردار ہو گئے تھے۔لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا پوچھے بغیر مجھے امیر بنایا گیا،میں الگ ہوتا ہوں خلق خدا مگر مُصر ہو گئی۔ تاریخ کے چند ایک حکمرانوں میں سے ایک تھے، راز جن پر کھل گیا تھا۔اس لیے اصحابؓ کے سوا شاید وہ واحد ہیں جن کے اسم گرامی کے ساتھ اہل علم رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں۔ ’’کتنے بادشاہ ہو گزرے ہیں غریب نوازؒ‘خواجہ نظام الدین اولیاؒ نے کہا تھا نام بھی کسی کو یاد نہیں، جنیدؒ و بایزید یوں لگتا ہے کہ ابھی کل کی بات ہے‘‘ بھلے شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور بھلے شاہ ہم نے مرنا نہیں،قبر میں کوئی اور ہو گا۔ اور میر صاحب کا فرمان یہ ہے: موت اک ماندگی کا وقفہ ہے یعنی آگے چلیں گے دم لے کر اکبر اعظم کے شیخ الاسلام کو شاہ حسین نے لکھا: اندر آلودہ باہر پاکیزہ تے توں شیخ کہاویں، راہ عشق دا سوئی دا نکّہ دھاگا ہویں تاں جاویں۔ اندر آلودہ‘ باہر پاکیزہ اور اس پر تم شیخ الاسلام کہلاتے ہو؟۔عشق کی راہ سوئی کے سوراخ ایسی ہے۔ دھاگہ بننا پڑتا ہے۔ شاہ حسین کا ایک مصرعہ یہ ہے:’’ بھلا ہو یا گڑ مکھیاں کھادااساں بھن بھن توںچھٹیا سے ‘‘اچھا ہوا کہ دنیا کا گڑ مکھیوں نے کھایا‘ ان کی بھن بھن سے ہم محفوظ رہے۔ امیر المومنین سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کا قول یہ ہے: سوّر کی ہڈی کی مانند دنیا کو ڑھیوں کے ہاتھ میں ہے۔ بلّھے شاہ نے کہا تھا: تم نے پروازبہت کی، مگر اپنا فرض تو چکایا ہی نہیں‘ خود سے کبھی لڑے ہی نہیں۔ مکے گیاں گل مکدی نئیں جے نہ آپ مکائیے، فقط مکہ مکرمہ کی زیارت سے مسئلہ حل نہیں ہوتا اگر آدمی خود نہ جستجو کرے۔ عصر رواں کے عارف کو ایک دن قدرے اداس پایا۔ پوچھا: کیا ہوا؟ بولے ’’مناصب کے لوگ آرزومند ہیں۔ انہیں کیا خبر کہ عمر بھر کیسی جنگ میں نے اپنے خلاف لڑی ہے‘‘ کیا اس سوال پہ غور نہ کرنا چاہیے کہ تخت شاہی میں آخر دھرا کیا ہے؟ آغاز بھی رسوائی‘ انجام بھی رسوائی۔ شہباز شریف کے اعلان کردہ اثاثے پچاس کروڑ سے زیادہ نہیں مگر سات ارب روپے بنکوں کے ذریعے منتقل ہوئے۔ کل جواز وہ یہ پیش کرتے رہے کہ ٹیکس بچانے کے لئے بے نامی کھاتے انہوں نے کھولے اور لندن کی جائیدادیں؟کہا کہ قرض لے کر خریدیں۔ مان لیجیے کہ عزیزوں اور دوستوں نے کسی مفاد کے بغیر‘ تبادلہ زر کے بغیر ہی اربوں روپے کی خطیر رقم انہیں عطا کر دی۔نون لیگ کے پچاس ساٹھ کارکن باہر کھڑے تھے اور لگ بھگ سو پولیس والے۔ اس کے باوجود کہ فدائین کے نام اپیل بار بار داغی گئی تھی۔ سب کچھ فنا ہو جاتا ہے۔ سب کے سب دنیا سے خالی ہاتھ اٹھتے ہیں۔ اقتدار میں کوئی حقیقی مسرت ہے اور نہ دھن دولت کے انباروں میں۔حصول علم میں ہے، یادِ خدا میں ہے۔ سکندر عظیم تر تھا یا وہ فقیردیوجانس کلبی؟ سکندر نے کہا:آپ کے لئے میں کیا کر سکتا ہوں؟جواب ملا ’’دھوپ چھوڑ کر کھڑے ہو جائو‘‘ صوفی نے پھریہ کہا ’’مجھے تم کیا دے سکتے ہو؟ میرے غلاموں کے غلام۔ اپنی خواہشات پر میں نے غلبہ پا لیا اور تم ان کے اسیر ہو‘‘ آغاز نہ سہی‘ انجام تو رسوائی ہی رسوائی ہے۔