سنو بر خوردار! دُودھوں نہاؤ، پُوتوں پھلو… آج اگر میرے بس میں ہوتا تو مَیں بر سرِ زمین آ کر تمھاری پیٹھ تھپکتا، سرِ محفل تمھاری بلائیں لیتا۔ جس طرح تو نے یہاں اعراف میں مقیم ہم مشرقی اہلِ سخن کا کلیجہ ٹھنڈا کیا ہے، مجھ سے بن آتا تو نواب کلب علی خاں سے کہہ کے تمھارا منھ موتیوں سے بھر دیتا۔ تم کہو گے کہ یہ کون بزرگ، سترا بہترا، نہ منھ میں دانت، نہ پیٹ میں آنت، جوتوں سمیت آنکھوں میں گھُسا آتا ہے۔ اب تمھیں کیسے سمجھاؤں، برِ صغیر کے لوگ مجھے چچا غالب کے نام سے جانتے ہیں۔ تمھاری سہولت کے لیے تو مَیں تمھارا انکل بننے کو بھی تیار ہوں۔ میاں ٹرمپ! تمھیں کیا بتاؤں کہ یہاں اعراف میں ہم مشرق و مغرب کے کچھ اہلِ سخن گاہے ماہے اکٹھے ہو لیتے ہیں۔ دل کے پھپھولے پھوڑنے کو کچھ ہنس بول لیتے ہیں۔ تمھاری طرف کے رابرٹ فراسٹ، بزرگوارم شیکسپیئر، ہنستا بولتا برنارڈ شا، رستا بستا گوئٹے، گلے میںمفلر لپیٹے حالی پانی پتی، دُھسّہ اوڑھے اقبال سیالکوٹی، کبھی کبھار سلیپریاں ہلگاتا بھرتری ہری بھی متعدد اہلِ قلم کی طرح آن موجود ہوتا ہے۔ ٹیگور، ٹوین اور ٹالسٹائی اپنی اپنی ٹائی لگائے اکثر یہیں بیٹھے رہتے ہیں۔ اس محفل میں دنیا کے ہر موضوع پہ گرما گرم بحث ہوتی ہے، جو اکثر گھوم پھر کے مشرق و مغرب کی ترقی اور موازنے پہ آ کے رک جاتی ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب مَیں نے ایسی ہی کسی محفل میں اپنا یہ شعر پڑھا: بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا تو ایلیٹ میاں بہت کودے پھاندے … فرمانے لگے: یہ تم ایشیائی لوگوں کے مسائل ہیں، مغرب کا انسان تو تمھارے خیالوں سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ مجھے تو خیر حالات و حادثات نے کبھی رام پور، بنارس سے آگے نہیں جانے دیا۔ بہت تیر مارا تو کلکتہ کی خاک چھان آیا۔ اس کھتری بچے مرزا قتیل سے دو دو ہاتھ کر لیے یاکچھ گوریوں کی چھب دیکھ کے : اِک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے اور موجِ خرامِ یار بھی کیا گل کتر گئی جیسے مصرعے لکھ لیے، لیکن وہ ہمہ وقت سوچوں کی بکل مارے بیٹھا اقبال تو تمھارے گھر کا بھیدی ہے۔ ویسے بھی قدرت نے اسے سیمابی روح کے ساتھ عقابی آنکھ بھی عطا کر رکھی ہے۔ اس لیے وہ بہت جلد بھانپ گیا کہ تمھاری ساری لش پش تو محض جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے۔ اس لیے وہ جب کبھی حُقے کا کش لگاتے ہوئے یہ شعر پڑھتا ہے: تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا تو کوئی اس سے الجھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ پھر ایک بار جب میاں حالی نے کسی مجلس میں اپنی گورے کالے والی مشہور نظم کے کچھ اس طرح کے مصرعے گنگنائے کہ: دو ملازم ، ایک کالا اور گورا دوسرا راہ میں دونوں کے باہم ہو گئی کچھ ہشت مشت تو اُس وقت بھی مَیں نے بعض خرد مند اہلِ مغرب کے چہروں پہ ندامت کے کچھ آثار محسوس کیے تھے لیکن میاں کیا بتائیں جب سے تم بر سرِ اقتدار آئے تم نے تو سمجھو ہم مشرق والوں کو نہال کر رکھا ہے۔ صحیح معنوں میں ہمارا کلیجہ ٹھنڈا کر دیا ہے۔ الیکشن کے بعد تو تم ہماری روح میں سمائے ہو۔ اُس کالے خبطی کے قتل کے بعد تو یہاں کے گورے ہم سے کنی کترانے لگ گئے ہیں۔ سچ بتاؤں ان دنوں تمھاری بندوقوں والی کارکردگی دیکھ کے بھی جی کو ڈھیروں اطمینان ہوا ہے کہ ابھی ہم لوگوں میں زیادہ فاصلے نہیں ہیں۔ تمھیں کیسے بتاؤں کہ اعراف ٹی وی پہ یہ خبر براہِ راست دیکھ کے آخری صفوں میں بیٹھاایک پنجابی اداکار کہ نام جس کا میرزا مُفتہ نے سلطان راہی بتایا (میاں! مَیں نے تو اپنی حیاتِ مستعار میں ملکوں اور ریاستوں کے سلطان سنے تھے، یہ راہوں کا سلطان سن کے مَیں خود ورطۂ حیرت میں ہوں) نے محفل میں اٹھ کے ناچنا شروع کر دیا۔ برخوردار شریر الدولہ نے اس ناچ کو بھنگڑا نام کے کسی مقامی رقص سے موسوم کیا۔ ساری عمر منھ بھر بھر کے باتیں کرنے والے اکثر گوروں نے تو اب ہماری محفل میں آنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ ایک وہ پنجاب کی اللہ وسائی ہے کہ طبیعت اس عزیزہ نے بہت شوخ پائی ہے۔ معروف نام جس کا عزیزی منٹو نے نور جہاں بتایا، بھی اب اکثر محفل میںدر آتی ہے اور بعض گوروں کو چھیڑنے کے انداز میں گانے لگتی ہے: کالا شاہ کالا میرا کالا اے دلدار تے گوریاں نوں دفع کرو شروع شروع میں بہت سے گورے تو اس گیت کی دُھن پہ ناچنے لگتے تھے لیکن جب سے ایم اے پاس برخوردار فیض احمد فیض نے اس کا ترجمہ لاان کے کان میں پھونکا ہے ، اُس کی ساری نفسیات دھری کی دھری رہ گئی ہے۔ عزیزم ڈونلڈ سنو! سچ کہوںیہ تمھارے جیسے ’ڈ‘ سے شروع ہو کے ’ڈ‘ ہی پہ ختم ہونے والے پتھریلے نام والے شخص سے تو مَیں پہلے جنم میں کبھی بات بھی نہ کرتا تھا لیکن اب تم مجھے خاصے اچھے لگنے لگے ہو ۔ پھر یہ بات بھی میرے احاطۂ علم میں آئی ہے کہ تم نے شہروں کے بیچوں بیچ متعدد قمار خانے کھول رکھے ہیں؟ جہاں دھن دولت کی ریل پیل کے ساتھ پریوں کے جھمگٹے بھی گاہکوں کا من پرچاتے ہیں۔ بھائی میاں مجھے تو وہ بد قسمت دن آج تک نہیں بھولا، جب علاقے کا تھانے دار ذرا سی جوا بازی پہ مجھ جیسے اناڑی پہ چڑھ دوڑا تھا۔ وہ تو بھلا ہو مفتی صدر الدین آزردہ کا جو بر وقت آڑے آ گئے۔ (یہ صراحت کر دوں کہ یہ حضرت ’صدر‘ صرف نام کے تھے اور ’آزردہ‘ بھی میری وجہ سے نہیں بلکہ اس کے پیچھے ان کے اپنے کوئی کرتوت رہے ہوں گے۔) آخر میں ایک ضروری تاکید کرتا چلوں کہ میرے اس شعر : نکلنا خُلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے کے اپنے اوپر خواہ مخواہ منطبق ہو جانے کو محض اتفاق سمجھنا اور ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا برا ہر گز نہ منانا !!!! تمھارے قمار خانوں کی سیر کا طالب… فقط غالب