امریکی اور نیٹو افواج کے ہاتھوں اپنی شکست کے بیس سال بعد طالبان اب دوبارہ اپنے قدموں پر اٹھ کھڑے ہوگئے ہیں۔ غیر ملکی افواج کے یکم مئی سے شروع ہوئے انخلا کے ساتھ ہی ان کی طرف سے افغان حکومت کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کا تنیجہ طالبان کے 19صوبائی دارلحکومتوں اور ملکی رقبے کے دو تہائی حصے پر قبضے کی صورت میں نکلا ہے۔ اس وقت جبکہ قطر میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان تعطل ہے، طالبان کی طرف سے پیش قدمی جاری ہے۔ کابل تقریباً محصور ہوچکا ہے اور اس کی قسمت کا فیصلہ طالبان کے ہاتھ میں ہے۔ اس سارے معاملے میں حیرت کا پہلو یہ ہے کہ یہ سب پچھلے دس بارہ روز میں ہوا ہے۔ اس سے پہلے طالبان نے اپنی موجودگی دیہاتوں تک محدود رکھی تھی اور مذاکرات کی شرط کے طور پرافغان حکومت کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔ روس ،چین اور ایران کے ساتھ طالبان قیادت نے مذاکرات کیے اور انہیں افغان سرزمین ہمسایہ ممالک میں دہشت گردی کی کاروائیوں کے لئے استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانی کرائی ۔ یہ یقین دہانیاں ویسی ہی ہیں جو انہوں نے پچھلے سال کے اوائل میں امریکہ سے دوحہ میں مہینوں سے جاری مذاکرات کے نتیجے میں کروائی تھیں ۔ بھارت واضح طور پر کابل حکومت کے ساتھ کھڑا ہے۔ پاکستانی قیادت طالبان کو یہ واضح کرچکی تھی کہ پاکستان افغانستان کے بار ے میں دہائیوں سے اپنائی گئی حکمت عملی ترک کرچکا ہے اور اس ملک کے حوالے سے اس کی ترجیحات تبدیلی ہوچکی ہیں۔ جس کے تحت اس نے پچھلے بیس سال میں پشتون نسلی گروہوں کی اقتدار میں نہ صرف شمولیت بلکہ ان کے حصہ بقدر جسہ پر بھی زور دیا ہے۔ اسلام آبا دکابیانیہ یہی ہے کہ افغانستان میں اس کا کوئی منظور نظر نہیں اور یہ کہ وہ بندوق کے زور پر قائم کی گئی کسی بھی حکومت کو تسلیم نہیں کریگا۔ دوسری طرف ، جب غیر ملکی افواج کا انخلا مکمل ہونے میں صرف دو ہفتے رہ گئے ہیں، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا واحد مسئلہ کابل میں موجود سفارتی عملے کی حفاظت ہے۔ حزب اختلاف اور انسانی حقوق کے لیے قائم تنظیموں کی افغانستان کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑنے اورخانہ جنگی کے نتیجے میں لگ بھگ چار لاکھ لوگوں کے دربدر ہونے کے حوالے سے تنقید کے باوجود صدر بائیڈن افغانستان سے امریکی افواج کے تیز ترین انخلا کے فیصلے پر قائم ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ امریکہ نے افغانستان کے استحکام اور سلامتی کے لیے ایک کھرب ڈالر کے لگ بھگ رقم خرچ کی ، تین لاکھ کی افرادی قوت پر مشتمل فوج کھڑی کی، اسے تربیت دی اور اسے بہتر جنگی سازو سامان سے لیس کیا۔ اس کے علاوہ وہ کیاکر سکتے ہیں۔اب افغانوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنا مستقبل کیسے ترتیب دیتے ہیں۔ اگرچہ قطر میں جاری سفارتی سرگرمی میں امریکہ اور خطے کی طاقتوں نے اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ سیاسی مذاکرات کے ذریعے کیے کیا جائے اوریہ کہ طاقت کے زور پر قائم ہونے والی کسی بھی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جائیگا لیکن اس کے باوجود یہ واضح نہیں کہ افغانستان کا مستبقل کیا ہوگا۔ موجودہ حالات میں کابل حکومت کی حکمت عملی یہی ہے کہ وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے جاری سفارتکاری کی آڑ میں کابل کے گرد حصار کو مضبوط کرے گی اور امریکی فضائی طاقت کی مدد سے اس کا دائرہ پھیلانے کی کوشش کرے گی۔ کابل ائیر پورٹ طالبان کی طرف سے ڈالے گئے دارلحکومت پر دبائو کا توڑ ثابت ہوسکتا ہے۔ فوجی سازو سامان اور غذائی اجناس کی ترسیل ممکن رہے گی۔ ہمسایہ طاقتیں بھی طالبان کو آزمائیں گئیں کہ وہ مفتوحہ علاقوں کا انتظام و انصرام کرتے ہوئے بین الاقوامی اقدار کا احترام کس حد تک کرتے ہیں۔ دوسرے ،امریکہ کی چین اور روس کے ساتھ کشیدگی نے بھی افغان مسئلے کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔ عالمی طاقتوں کے افغانستان کے حوالے سے تذبذب کا طالبان نے فائدہ اٹھایا کہ مذاکرات کا راستہ چھوڑ کر جارحیت کے راستے پر نکلے اور امریکی فضائیہ کی حمایت یافتہ اور جدید اسلحے سے لیس تین لاکھ افغان افواج کے ہاتھوں سے 19صوبے چھین لیے۔ امریکہ واضح طور پر اپنی توانائیاں بچا رہا ہے اور اپنی اگلی حکمت عملی علاقائی طاقتوں کے رویے کو دیکھ کر ترتیب دینا چاہتا ہے۔ صورتحال معمولات پر آنے کو چھوڑیں ، واضح ہونے میں سالوں نہیں تو مہینوں لگ سکتے ہیں۔ افغانستان کی آبادی کے تنوع اور ثقافتی اختلافات کو دیکھتے ہوئے یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ طالبان افغانستان کو صرف طاقت کے بل بوتے پر متحد رکھ سکیںگے۔ عالمی سیاست کی پیچیدگیاں ایسی ہیں کہ افغانستان بکھر کرکم ازکم دو حصوں میں تقسیم ہوسکتا ہے۔ کونسی عالمی طاقت کس طرف ہو، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ایک ممکنہ راستہ یہ ہے کہ امریکہ افغانستان کے معاملے سے ہاتھ کھینچ لے اور اسے کلی طور پر علاقائی طاقتوں کی صوابدید پر چھوڑ دے۔ لیکن یہ راستہ طویل ہے۔ جنوبی ایشیا، جس کا افغانستان حصہ مانا جاتا ہے کی تنظیم سارک یہ معاملہ پاک بھارت تعلقات میں بگاڑ کی وجہ سے نہیں سنبھال سکتی۔ ہاں شنگھائی تعاون تنظیم میں یہ دم خم ہے جس کے چین اور روس کے علاوہ بھارت اور پاکستان بھی ممبر ہیں ۔ لیکن یہاں تک پہنچتے پہنچتے وقت لگے گا۔ جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو یہ واضح طور پر پل صراط پر چل رہا ہے۔ ابھی تک اپنی غیر جانبداری پر اصرار کررہا ہے۔ طالبان کی جارحیت سے یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ نہ صرف بھارت کا اثرو رسوخ اس کے سرحدی علاقوں سے ختم ہوا ہے بلکہ تحریک طالبان پاکستان کی سرحد پار سے کاروائیاں بھی کم ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ لیکن یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے طالبان سرحد پر ویزے کی پابندیوں کے مخالف اور لوگوں کی آزادانہ نقل و حمل کے حامی ہیں۔ اگر افغان بحران طول پکڑتاہے تو طالبان کے ساتھ معاملات پیچیدہ ہوسکتے ہیں کہ وہ اپنی بقا کے لیے پاکستان پر انحصار کریں گے۔ تیس لاکھ افغان پاکستان میں پہلے سے موجود ہیں اور نسلی اعتبار سے وہ طالبان سے منسلک ہیں۔ ملکی سیاست پر افغان بحران کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان حکومت نے الیکشن کمیشن سے مقامی حکومتوں کے انتخابات مارچ تک ملتوی کرنے کی استدعا کی ہے!